محبت کرنے سے پہلے یہ سوچنا تھا میں تمھارے معیار کے مطابق ہوں بھی یا نہیں اپنی عادتیں ڈالنے کے بعد جانے والے یہ کہ کر چلے گئے اب تم ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہو-
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جودل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں جُرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں اک حسیں آنکھ کے اشارے پر قافلے راہ بھول جاتے ہیں