شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو میں کب کا جا چکا ہوں صدائی مجھے نہ دو جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی اے خسروان شہر قبائیں مجھے نہ دو ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فرازؔ کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو
ھر انسان کی طبیعت میں فرق ہوتا ہے۔ کچھ غصے میں اپنی سچائی کا رونا روتے ہوئے دوسروں کے دل سے اٌتر جاتے ہیں۔ کچھ تکبر میں رہ کر رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن بہترین انسان وہ ہے جو تحمل مزاجی سے ہر رشتے کو بچا لیتا ھے۔