خُوش ہُوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا مُجھ کو سپُردِ گردشِ ایّام کر دیا ساقی سیاہ خانہء ہستی میں دیکھنا روشن چراغ کِس نے سرِ شام کر دیا پہلے مِرے خلُوص کو دیتے رہے فریب آخر مِرے خلُوص کو بدنام کر دیا
لفظ و منظر میں معانی کو ٹٹولا نہ کرو ہوش والے ہو تو ہر بات کو سمجھا نہ کرو وہ نہیں ہے نہ سہی ترک تمنا نہ کرو دل اکیلا ہے اسے اور اکیلا نہ کرو بند آنکھوں میں ہیں نادیدہ زمانے پیدا کھلی آنکھوں ہی سے ہر چیز کو دیکھا نہ کرو دن تو ہنگامۂ ہستی میں گزر جائے گا صبح تک شام کو افسانہ در افسانہ کرو
لفظ و منظر میں معانی کو ٹٹولا نہ کرو ہوش والے ہو تو ہر بات کو سمجھا نہ کرو وہ نہیں ہے نہ سہی ترک تمنا نہ کرو دل اکیلا ہے اسے اور اکیلا نہ کرو بند آنکھوں میں ہیں نادیدہ زمانے پیدا کھلی آنکھوں ہی سے ہر چیز کو دیکھا نہ کرو دن تو ہنگامۂ ہستی میں گزر جائے گا صبح تک شام کو افسانہ در افسانہ کرو