ریاضى میں کمزور دو دوست انٹرویو کیلئے تیار بیٹھے تھے، پہلے کا نمبر آیا تو وه اندر داخل ہُوا.... آفیسر: آپ ٹرین سے سفر کر رہے ہوں اور اچانک آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟ امیدوار: میں کھڑکى کھول دُوں گا۔ آفیسر : بہت خُوب، اَب بتاؤ کہ اگر وه کھڑکى 1.5 اسکوئر میٹر ہے اور ڈبے کا رقبہ 12ضرب90 فٹ ہے اور ٹرین 80 کلومیٹر فى گھنٹہ کى رفتار سے جنوب کى طرف جا رہى ہو اور ہوا جنوب سے 5 میل فى سیکنڈ کی رفتار سے ڈبے میں داخل ہو رہى ہو تو پُورا ڈبه ٹھنڈا ہونے میں کتنا وقت درکار ہو گا؟ امیدوار نے کوشش کى مگر جواب نہ دے سکا اور وه فیل ہو گیا۔ باہر
آ کر اُس نے وہ سوال اپنے دوست کو بتایا اب اس کى بارى آئی۔۔۔ آفیسر : آپ ٹرین میں سفرکر رہے ہوں، اچانک آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے ؟ امیدوار : میں اپنا کوٹ اُتار دُوں گا۔۔ آفیسر : پھر بھى آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟ امیدوار : میں اپنی شرٹ اُتار دُوں گا۔ آفیسر : (چڑ کر) پھر بھى آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟ امیدوار : میں اپنی بُنیان اُتار دُوں گا۔ آفیسر غُصے میں) اگر پھر بھى گرمى لگے تو؟ امیدوار : میں پاویں گرمی نال مر جاواں پر میں کھڑکی نئیں او کھولنی.
کل ایک پارک میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت کی آواز آئی جسے بھی آئسکریم چاہیے وہ میرے پاس آجاٸے اتنا سنتے ہی چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے آدمی اور عورتیں تک اس کے پاس لائن لگا کر کھڑے ہو گئے جو لگ بھگ پچیس لوگ ہونگے مجھے تھوڑی شرم تو آئی پر آئسکریم کے لالچ میں جب اتنے لوگ کھڑے تو میں بھی شرم کو بھول کر آئسکریم کے لیے ان سب کے پیچھے لائن میں کھڑا ہو گیا سب کو آئسکریم مل گئی جب میرا نمبر آیا اس نے پوچھا کون ہو تم ؟ بعد میں پتہ چلا وہ سب ایک ساتھ تھے اور پکنک منانے آئے ہوئے تھے
رنگاں دی مجبوری رہ گئی تاں تصویر ادھوری رہ گئی اُنج تے گلاں بڑیاں ھوئیاں فیر وی گل ضروری رہ گئی اینا نیڑے نیڑے ہو کے خورے کاہدی دوری رہ گئی ہتھاں اُتے پے گئے چھالے پَر ساڈی مزدوری رہ گئی بھاویں ساڈا کجھ نہی بچیا اوہدی گل تے پوری رہ گئی
رحیم یار خان میں پولیس نے ایک مفلوک الحال شخص کو چوری کے الزام میں پکڑ لیا اور حوالات میں بند کر دیا ۔ دو تین دن بعد تھانہ محرّر نے اس کو کہا کہ بھائی اپنے عزیز رشتہ داروں کو اطلاع کرو تاکہ وہ تمھاری ضمانت کا بندوبست کریں اور تمھیں یہاں سے لے جائیں ۔ اس نے جواب دیا کہ میرا خاندان چولستان کے کسی دور دراز کے گاؤں میں ہے تو محرر نے کہا کہ انھیں خط لکھو یا تار بھجواؤ ۔ تو وہ کہنے لگا میں چِٹا ان پڑھ ہوں کیسے پیغام بھجواؤں ۔ تو محرّر نے کہا کہ چلو تم بولو میں خط لکھتا ہوں تو وہ شخص بولا کہ : " کوٹھا پکا ہے ۔۔۔ پینے کو میٹھا پانی ملتا ہے ۔۔۔ روٹی بھی مِلتی ہے ۔۔۔تم سب لوگ یہیں آ جاؤ
عربی مزاحیہ کہانی ایک پردیسی کہتا ہے: جب میں نے باہر جانے کی پکی تیاری کر لی تو روانگی والے دن میرے والد نے بہت ساری دعاؤں اور نصیحتوں کے ساتھ مجھے الوداع کہا۔۔۔۔ پردیس اور پردیس میں کام کاج اور کمائی میری توقع کے مطابق نہ تھی۔ مجھے مشکلات سے لڑتے لڑتے دو سال بیت گئے۔۔۔۔ دو سال کے بعد وطن میں ایک دن میری اماں اور والد کہیں گئے ہوئے تھے کہ گھر میں چور آ گیا۔ ہمارے گھر سے اسے کیا ملنا تھا، ہمارا ایک گدھا بندھا کھڑا تھا چور وہی کھول کر لے گیا۔۔۔۔ دو دن کے بعد چور ہمارے گدھے کو لیکر بازار باربرداری کیلئے گیا۔پھل اور سبزیوں سے لادا۔ ۔۔۔ رش میں چور کی توجہ
کہیں اور ہوئی تو گدھا چل پڑا۔ ہمارے گھر کا راستہ تو گدھا جانتا ہی تھا اس لئیے اس نے شام کو دروازے پر آ کر منہ مارنا شروع کر دیا۔ ۔۔۔ میرے والد نے شور سن کر دروازہ کھولا تو سامنے اپنے گمشدہ گدھے کو پھلوں اور سبزیوں سے لدا پھندا کھڑا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ۔۔۔ میری اماں کو بلا کر دکھاتے ہوئے کہا: دیکھ، یہ میرا گدھا دو دن غائب رہا ہے اور بدلے میں پورا بازار لیکر آیا ہے۔ اور تیرے بیٹے کو گئے دو سال ہو گئے ہیں اور آج تک ایک پیاز کا دانہ بھی نہیں بھیج سکا۔۔۔
سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اس کی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر اپنی بیوی سے کہا : " کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش تو ہوگی”
جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔ وہ دوسرے تیسرے روز گورنمنٹ کالج آجاتی تھی ۔ میں اپنی کلاس چھوڑ کر اس کے ساتھ لان میں بیٹھ جاتا تھا، اور دیر تک اسے بڑی محبت سے پڑھاتا رہتا تھا ۔ جب وہ ہمارے کالج آتی تھی، تو کئی لڑکے دو رویہ کھڑے ہو جاتے تھے، اور اسے دیکھ کر بڑی خوش دلی سے سیٹیاں بجاتے تھے ۔ ایک روز ہم لان میں بیٹھے تھے، تو پروفیسر ڈکنن میری کلاس کا پیریڈ لے کر قریب سے گزرے ۔ مجھے دیکھ کر رک گئے، اور کافی دیر تک نگاہیں گاڑ کر چند راوتی کو گھورتے رہے ۔ پھر مسکرا کر بولے ۔ ” ٹھیک
ہے ، تمہارے لئے یہی مناسب مقام ہے ۔ کلاس روم میں تو ایک بھی ایسی گولڈن گرل نہیں ۔“ چندراوتی واقعی سورن کنیا تھی ۔ وہ سپر ڈیشر سمشیر قسم کی لڑکیوں کی طرح حسین نہ تھی ۔ لیکن اس کے وجود پر ہر وقت سپیدہ سحر کا ہالہ چھایا رہتا تھا ۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈالی تھی، اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ تھی جس کے آر پار نگاہ جاتی بھی ہے اور نہیں بھی جاتی ۔ اس کی گردن میں چند باریک باریک نیلی رگوں کی بڑی خوشنما پچی کاری تھی ۔ اور جب وہ پانی پیتی تھی تو اس کے گلے سے گزرتا ہوا ایک ایک گھونٹ دور سے گنا جاسکتا تھا ۔ چند راوتی
کو لاہور میں رہتے کافی عرصہ ہوچلا تھا ۔ لیکن اب تک اس نے نہ جہانگیر کا مقبرہ دیکھا تھا، نہ نور جہاں کے مزار پر گئی تھی، نہ شالیمار باغ کی سیر کی تھی ۔ اتوار کے اتوار میں ایک بائیسکل کرائے پر لیتا تھا، اور اسے کیریر پر بٹھا کے تاریخی مقامات کی سیر کرا لاتا تھا ۔ وہ اپنے آشرم سے آلو کی بھجیا اور پوریاں بنا لاتی تھی، اور بڑی احتیاط سے میرا حصہ الگ کاغذ پر رکھ کر مجھے دے دیتی تھی ۔ کیونکہ ذات کی وہ کٹر ہندو تھی ۔ اور وہ کھانے پینے کی چیزوں کو ہرگز ہرگز میرا ہاتھ نہ لگنے دیتی تھی ۔ ایک اتوار ہم بادامی باغ کی سیر کے لیئے گئے ۔ وہاں پہنچ کر ہر طرف دیکھا بھالا، لیکن نہ کہیں بادام نظر آئے اور نہ ہی کوئی باغ دکھائی دیا ۔ مجبوراً ہم نے ایک گندے سے دھوبی گھاٹ کے قریب بیٹھ کر اپنا پک نک منالیا ۔ اقتباس: چندراوتی، شہاب نامہ ____ از :قدرت اللہ شہاب