او کج نین سوالی کج نین سوداگر تے کج نیناں پائیاں ہٹیاں نین نیناں دے سودے کردے اتے نین بھریندے چٹیاں نین نیناں نوں زخمی کردے اتے نین کریندے پٹیاں سائیں غلام فریدا لڑ نین جے ونجنڑ اساں ہور کی کرنیاں کھٹیاں
سورج نے کسی سے چمکنے کا وعدہ نہیں کیا لیکن وہ پھر بھی سیاہ بادلوں کے ہوتے ہوۓ ساری دنیا کو اپنی كرنوں سے روشن کر رہا ہے سورج کا مقصدِ تخلیق ہی روشنی دینا ہے یہی اس کی قسمت ہے میرا تم سے محبت کرنے کا کوئی وعدہ نہیں لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں تمہارے لئے جلتا رہوں گا جب تک کہ میں مزید جلنے کے قابل نہ رہ سکوں یہی میری قسمت ہے اور یہی میرا مقصدِ تخلیق
یہ ناموں کا موجد کون ہوتا ھے بھلا لغت میں کہیں بھی ان الفاظ کا ذکر نہیں ملتا۔ لیکن پھر اچانک سے سننے میں آتا ھے۔ سفریشمیا ‛ خصخرا ‛ گلدمشیمیہ ۔ معنی معلوم کرنے پہ پتہ چلتا ھے۔ جنت میں آپ کے ہمسائے کے پائیں باغ میں صبح کاذب کے وقت کھلنے والی کلی ‛ رات کے سوا تین بجے چلنے وآلا ہوا کا جھونکا ‛صحرائی سفر میں اچانک سے مل جانے وآلا کوئی نخلستان ۔ آخر یہ سب الفاظ ہماری سماعتوں میں اترنے سے پہلے کہاں ہوتے ہیں۔مترجمین ان کا ذکر لغت میں کرنا کیوں بھول جاتے ہیں۔ ماہر لسانیات ان سے لا علم کیوں ہوتے ہیں۔ یہ سب نام ‛ نام بننے سے پہلے اتنے بے نام کیوں ہوتے ہیں
اپنی کتابیں دوسروں کو عاریت پر مت دو؛ کیوں کہ پھر وہ تمھیں نہیں لوٹائیں گے۔ میرے کتب خانے میں بہت کتابیں ہیں، اور یہ وہ ہیں جو میں نے دوسروں سے مستعار لی تھی۔۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں کبھی طوفان آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے خدا وندا جلیل و معتبر دانا و بینا منصف و اکبر مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر
رات کے اس پہر جب زندگی تھک کے سو جاتی ھے ۔ تو رات بو لتی ھے زرد بلب کی مدقو ق روشنی میں چپ چاپ پڑی سیڑھیو ں کے کہیں آخری زینے کے کونے کھدرے میں چھپے ٹڈے کی خو دکلامی اور ریل کی پٹڑ یو ں کے اس پار کرلاتے ھوئے کتے سنسان گلی سے اٹھتی چاپ اور سیٹی پہ بجتی دھن پر کو ئی اجنبی سا گیت کمرے کی وال کلاک کی ٹک ٹک اور پہر یدار کی وہ سیٹی جو شہر کے مضا فا ت سے سنا ئی دیتی شہر کی فصیلو ں کے اس پار معدوم ھو جاتی ھے