Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

ہوتا ہے ہجر پانچ عناصر پہ مشتمل
امید ، انتظار ، اداسی ، کسک ، نمی

Offline
 

کوئی مجھ سے مسلسل پوچھتا یہ ہے
کہ پہلی بار میں خود سے ملا تھا کب؟
کہاں؟ کس مو ڑ پر؟ کس راستے پر؟
کون سی گلیوں میں اوارہ پھیرا تھا میں؟
ملا بھی تھا؟ کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تھا میں؟

Offline
 

کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں
دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے اُس سے
ایک غزل حالات کے نام
موجِ بلادیوارِ شہر پر اب تک جو کچھ لکھتی رہی
میری کتابیں زیست کو پڑھئیے درج ہیں سب صدمات کے نام
روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح
ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام
اس کی گلی سے مقتل جاں تک مسجد سے میخانے تک
الجھن پیاس خلش تنہائی کَرب زدو لمحات کے نام

Offline
 

درخت اور پرندے تمام پوچھتے ہیں
تمہارے بارے میں سب کو بتانا پڑتا ہے
.
.
.
نجانے تم کون ہو مگر تم ہو
ارد گرد ، سینے کے بائیں جانب ۔۔۔۔
یہیں کہیں ،

Offline
 

جب مشہور اطالوی اداکارہ صوفیا لورین کے زیورات لندن میں چوری ہو گئے،
تو وہ شدید افسردہ ہو گئیں، اور مسلسل روتی رہیں۔
اس کٹھن وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہدایتکار ویٹوریو ڈی سیگا۔
جب وہ شدتِ گریہ میں تھیں،
اس نے ان سے کہا:
"اپنے آنسو بچا لو، صوفیا۔
ہم دونوں نیپلز (ناپولی) کے غریبوں میں سے ہیں، ہم راکھ سے اٹھے،
اور خود کو بنایا۔
ہم نے بہت کچھ جیتا، کچھ کھویا، اور پھر جیتا کیونکہ دولت آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔"
وہ اس کی بات سن کر مزید رو پڑیں، اور غمگین لہجے میں بولیں:
"تم کچھ نہیں سمجھتے، وہ زیورات اور گہنے میرے وجود کا حصہ تھے!"
یہ سن کر ان کے دوست ہدایتکار نے آہستہ سے رومال نکالا،
نرمی سے اس کے آنسو پونچھے،
اور اپنی مشہور بات کہی:
"کبھی اُس چیز کے لیے مت روؤ جو تمہارے لیے رو نہیں سکتی۔"
منقول

Offline
 

ھم سادہ ھی ایسے تھے، کی یوں ھی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی

Offline
 

جب تک وہ بے نشاں رہا، دسترس میں تھا
خوش نام ہو گیا تو ہمارا نہیں رہا

Offline
 

جیسے تو چلا آئے کسی شام اچانک
جیسے کوئی کھوئی شے مل نہیں جاتی

Offline
 

ازل سے بے سمت جستجو کا سفر ہے درپیش پانیوں کو
کسے خبر کس کو ڈھونڈتا ہے میری طرح رائیگاں سمندر

Offline
 

احمد فراز کہتے ہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارہ کر کے!
مالا راجپوت کا شعر ہے
مجھ کو سمجھوتہ تمناؤں پہ کرنا ہو گا
وہ تو آ جائے گا اک روز پشیماں ہو کر

Offline
 

یہ قربتیں ہی تو وجہ فراق ٹھہری ہیں
بہت عزیز ہیں۔۔۔۔ یارانِ بے وفا مجھ کو

Offline
 

یک طرفہ محبت ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے جیسی ہے ۔
لوگوں کو لگتا ہے آپ مہم جوئی پہ نکلے ہوئے ہیں ۔۔۔
جب کہ آپ کی لاش کسی سرد پہاڑ کی چوٹی پہ پڑی ہوتی ہے۔۔۔
*یا کسی بے حس کے دل میں*

Offline
 

میرے مسیحا نے مائل بہ شفاء ہونے تک
ہزار بار جتایا _____ کہ درد نعمت ہے

Offline
 

رات کی تاریکی میں گہری نیند میں دکھائی دینے والے ڈراؤنے سپنے آنکھ کھلنے پہ دن کی روشنی میں احمقانہ اور مزاحقہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔

Offline
 

نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون

Offline
 

کیا اجازت ہے ایک بات کہوں
وہ ، مگر خیر کوئی بات نہیں

Offline
 

(اَے مَحبُوب)
جَفا کَم کَرو کہ کَل قِیامت کے دِن کَہِیں عاشِقوں کے سامنے شَرمِندہ نہ ہونا پَڑے۔

Offline
 

خود کو آباد کرو، سنو اے نفسِ غمگین سنو
کہ مرجھائے پھولوں کا خریدار کوئی نہیں ہوتا

Offline
 

دیکھو مجھے اب میری جگہ سے نہ ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے

Offline
 

تمہیں دل دے تو دوں یہ ڈر ہے
ہمیشہ کو تمہارا ہو نہ جائے