ایک عورت نے اپنے میاں کو قتل کر دیا۔ پولیس موقع پر پہنچی اور تھانیدار کو فون پر قتل کی وجہ بتائی کہ فرش گیلا تھا اور شوہر جوتوں سمیت اندر آگیاتھا تو بیوی نے سر میں بیلن مار کر قتل کردیا۔ تھانیدار۔تم نےابھی تک عورت کو گرفتار کیوں نی کیا۔ پولیس۔ کیونکہ سر ابھی بھی فرش گیلا ہے
المیات انسان جب بچہ ھوتا ھے .تو اچھا ھوتا ھے .مگر پھر وہ بڑا ھو جا تا ھے ۔ پریکٹیکل لائف میں آ کر وہ انڈیپنڈ نٹ ھوتا ھے۔ تو شادی سےاس کی آ زا دی سلب کر لی جا تی ھے۔ عمر کے تجربے سہہ سہہ کے جب وہ پختہ ھوتا ھے تو اسے ریٹائرڈ کر دیا جاتا ھے۔ وہ بھی بغیر پراویڈنٹ فنڈ ، گریجوایٹی اور پنشن کے ۔ زندگی بھر وہ زندگی کو سمجھنے کی کو شش کر تا رہتا ھے اور جب اسے زندگی کی سمجھ آ نے لگتی ھے تو زندگی ختم ھو جاتی ھے ۔ اس کی عمر بھر کی جد و جہد کے حصول کو مرنے کے بعد تر کہ کہا جہ تا ھے . زندگی بھر اس کے نا م کے سا تھ لگنے والے عہدو ں کی تکرار اور ڈگر یو ں کی تعدا د کو اس کا کتبہ لکھتے ھو ئے یکسر فراموش کر دیا جا تا ھے
اگر کبھی میری یاد آئے تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا اگر نہ آئے مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا مجھے گلابوں کی پتیوں مین تلاش کرنا میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا اگر ہواؤں میں ، اوس قطروں کے آئینوں میں نہ پاؤ مجھ کو تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں خاک ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی راکھ دریا میں ڈال دینا میں راکھ بن کر سمندروں میں سفر کروں گا کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو صدائیں دوں گا سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
میں جیئے ھوئے لمحے کو ایک بار پھر سے جینا چاہتا ھوں۔میں ان دھندلے نقوش کی تجسیم چاہتا ھوں۔جو ماضی کے گرداب میں کھو چکے ھیں۔میں اس گیت کو ایک بار پھر سے سننا چاہتا ھوں۔جسے ماں لوری کہہ کر اپنی نا ہموار آواز میں میرے کانوں میں انڈیل دیتی۔ اور میں اس ہںوا سے ملنا چاہتا ہوں۔جو دو کمروں کے مختصر مکان کے چوبارے کی بالکونی میں نومبر کی گیلی راتوں میں اس وقت مجھ سے ملتی۔جب شام کی نیلی سہاگن رات کی بیوہ کا روپ دھار کر اپنی کالی قبا میں ستاروں کے آنسو بھر لیتی۔تب یہ ہوا میری بغلوں میں یوں گھسنے کی
کوشش کرتی کہ میرے لاغر وجود پہ لٹکتی قمیض غبارہ بن جاتی۔ہوا کی یہ اخلاق باختگی میرے کمزور وجود میں ٹھنڈی پھریری بن کر دوڑتی۔تب میں ھوا کے وجود کو دیکھنا چاہتا۔جو طویل گلی کے آخری سرے پر بجلی کے کھمبے پر اس مومی لفافے کے ترنگے صورت مجھے نظر آتی۔جو کبھی کسی بچے۔کی گڈی تھا۔ایک عرصے تک میرے ذہن میں ھوا۔کی یہی صورت رہی۔ اور میں اپنی تمام راتوں کی مسلی ہوئی نیند تیاگ کر اس
شب کو ادھار لانا چاہتا ھوں۔جب مختصر سے کمرے میں بچوں کی کثرت میں امی کو سب سے فالتو میں ہی نظر آتا۔اور امی مجھے اٹھا کر دادی کی بغل میں انڈیل دیتی۔اور دادی مجھے لاکر اس کمرے کی کشادہ کھاٹ پر انڈیل دیتی ۔جس کے دیوار ودر سے زرد بلب کی روشنی بہہ رہی ہوتی۔تب دادی ﷲ سے راز ونیاز میں مصروف ہوجاتی۔اور ہل ہل کر وجد کے عالم میں وظائف پڑھتی۔اور دادی کے ھونٹوں کی حرکت سے آزاد ہونیوالی کھس پھس کھس پھس سے کمرے کی خاموشی ایکطرف چپ چاپ کھڑی ہانپتی رہتی۔اور جب دادی اس راز ونیاز سے فارغ ہو چکتی۔تو مجھ پر پھونک کا ایک لمبا جھونکا چھوڑ کر اپنے پہلو میں لٹا کر اپنے کھردرے ہاتھوں کی ہتھیلی میرے چہرے کے نیچے رکھ دیتی۔جن کی پشت کریلے کے کھال سے زیادہ جھریاں لیئے تھی۔اور لمس کھجور سے زیادہ میٹھا۔تب دادی مجھے وہ کہانی سناتی جو بار
بار سننے سے پہلے گھس پٹی اور مزید سننے سے پھٹی پرانی ہو چکی تھی۔میں یہ پھٹی پرانی کہانی سنتے اور دادی کے۔رضائی سے زیادہ نرم پوپلے وجود کو محسوس کرتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتا۔میں دادی کے اس پوپلے وجود کی گرمی کو اپنے اس ہسپانوی کمبل میں ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔جو میرے پرفیوم کی مہک سے معطر ھے۔ اور میں سانس لینا چاہتا ہوں۔اس فضا میں جو دادی کے حقے کے چلم سے اٹھنے والے دھوئیں سے کسیلی ھے۔جو مشرقی سمت میں اس دیوار کے ساتھ رکھا ھے۔جس کے اوپر روشندان کی سیمنٹ کی جالی سے ہر صبح تین شعاعیں اترتی ہیں۔جو غبار سے بھری ہوتی ہیں۔میری آنکھیں ان ذرات سے باتیں کرتی ہیں۔اور میں اپنی انگلیوں کے درمیان آخری سانسیں لیتے کیوبا کے سگارکے تمباکو کی نفیس تلخی میں گڑ کی چاشنی کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔میں آخری بار اسطرح سے رونا چاہتا ھوں۔جیسے پہلی بار رویا تھا
مجھے ہمیشہ سے لگتا ھے۔تصویروں کی بھی ایک دنیا ہوتی ھے۔ تصویروں میں بسنے والے یہ کردار اتنے بھی چپ اور ساکت نہیں ہوتے جتنے یہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو بس یہ جھوٹ موٹھ اداکاری کرتے ہیں۔ ورنہ یہ ہم سے نظر بچا کر ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں۔ خالی کمروں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور قہقہے بھی لگاتے ہیں۔اور ہماری غیر موجودگی میں ہماری چغلیاں بھی کرتے ہیں۔ بس جونہی خاموش راہداریوں میں قدموں کی آہٹ پاتے ہیں ۔ پھر ایک دم سے پہلے کی طرح ہوجاتے ہیں۔ چپ صامت اور ایستادہ !!! تصویروں سے محبت کے نام