Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

آؤ پیدل ہی نکل چلتے ہیں
چاند تک ہی تو جانا ہے۔

Offline
 

کیا دلیلیں کریں، مقابل جب
وہ چشمِ تر سے کلام کرتا ہے

Offline
 

ایک عورت نے اپنے میاں کو قتل کر دیا۔
پولیس موقع پر پہنچی اور تھانیدار کو فون پر قتل کی وجہ بتائی کہ فرش گیلا تھا اور شوہر جوتوں سمیت اندر آگیاتھا تو بیوی نے سر میں بیلن مار کر قتل کردیا۔
تھانیدار۔تم نےابھی تک عورت کو گرفتار کیوں نی کیا۔
پولیس۔ کیونکہ سر ابھی بھی فرش گیلا ہے

Offline
 

المیات
انسان جب بچہ ھوتا ھے .تو اچھا ھوتا ھے .مگر پھر وہ بڑا ھو جا تا ھے ۔
پریکٹیکل لائف میں آ کر وہ انڈیپنڈ نٹ ھوتا ھے۔ تو شادی سےاس کی آ زا دی سلب کر لی جا تی ھے۔
عمر کے تجربے سہہ سہہ کے جب وہ پختہ ھوتا ھے تو اسے ریٹائرڈ کر دیا جاتا ھے۔ وہ بھی بغیر پراویڈنٹ فنڈ ، گریجوایٹی اور پنشن کے ۔
زندگی بھر وہ زندگی کو سمجھنے کی کو شش کر تا رہتا ھے اور جب اسے زندگی کی سمجھ آ نے لگتی ھے تو زندگی ختم ھو جاتی ھے ۔
اس کی عمر بھر کی جد و جہد کے حصول کو مرنے کے بعد تر کہ کہا جہ تا ھے .
زندگی بھر اس کے نا م کے سا تھ لگنے والے عہدو ں کی تکرار اور ڈگر یو ں کی تعدا د کو اس کا کتبہ لکھتے ھو ئے یکسر فراموش کر دیا جا تا ھے

Offline
 

اسطر ح تجھے پہر و ں سو چتا ر ہتا ھوں
میر ی ہر سا نس تیر ے نا م لکھی ھو جیسے

Offline
 

جیسے خوف کے جزیرے پہ کو ئی
اچا نک آ واز دے کے چھپ جائے
جیسے ہنستے ہنستے
غم کی شد ت سے آ نکھ بھر آئے
تم نہیں ھو تے تو ایسا لگتا ھے
...

Offline
 

کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی
مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے
...

Offline
 

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے تو
یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے

Offline
 

اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں مین تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ہواؤں میں ، اوس قطروں کے آئینوں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں خاک ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی راکھ دریا میں ڈال دینا
میں راکھ بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا

Offline
 

میں جیئے ھوئے لمحے کو ایک بار پھر سے جینا چاہتا ھوں۔میں ان دھندلے نقوش کی تجسیم چاہتا ھوں۔جو ماضی کے گرداب میں کھو چکے ھیں۔میں اس گیت کو ایک بار پھر سے سننا چاہتا ھوں۔جسے ماں لوری کہہ کر اپنی نا ہموار آواز میں میرے کانوں میں انڈیل دیتی۔
اور میں اس ہںوا سے ملنا چاہتا ہوں۔جو دو کمروں کے مختصر مکان کے چوبارے کی بالکونی میں نومبر کی گیلی راتوں میں اس وقت مجھ سے ملتی۔جب شام کی نیلی سہاگن رات کی بیوہ کا روپ دھار کر اپنی کالی قبا میں ستاروں کے آنسو بھر لیتی۔تب یہ ہوا میری بغلوں میں یوں گھسنے کی

Offline
 

کوشش کرتی کہ میرے لاغر وجود پہ لٹکتی قمیض غبارہ بن جاتی۔ہوا کی یہ اخلاق باختگی میرے کمزور وجود میں ٹھنڈی پھریری بن کر دوڑتی۔تب میں ھوا کے وجود کو دیکھنا چاہتا۔جو طویل گلی کے آخری سرے پر بجلی کے کھمبے پر اس مومی لفافے کے ترنگے صورت مجھے نظر آتی۔جو کبھی کسی بچے۔کی گڈی تھا۔ایک عرصے تک میرے ذہن میں ھوا۔کی یہی صورت رہی۔
اور میں اپنی تمام راتوں کی مسلی ہوئی نیند تیاگ کر اس

Offline
 

شب کو ادھار لانا چاہتا ھوں۔جب مختصر سے کمرے میں بچوں کی کثرت میں امی کو سب سے فالتو میں ہی نظر آتا۔اور امی مجھے اٹھا کر دادی کی بغل میں انڈیل دیتی۔اور دادی مجھے لاکر اس کمرے کی کشادہ کھاٹ پر انڈیل دیتی ۔جس کے دیوار ودر سے زرد بلب کی روشنی بہہ رہی ہوتی۔تب دادی ﷲ سے راز ونیاز میں مصروف ہوجاتی۔اور ہل ہل کر وجد کے عالم میں وظائف پڑھتی۔اور دادی کے ھونٹوں کی حرکت سے آزاد ہونیوالی کھس پھس کھس پھس سے کمرے کی خاموشی ایکطرف چپ چاپ کھڑی ہانپتی رہتی۔اور جب دادی اس راز ونیاز سے فارغ ہو چکتی۔تو مجھ پر پھونک کا ایک لمبا جھونکا چھوڑ کر اپنے پہلو میں لٹا کر اپنے کھردرے ہاتھوں کی ہتھیلی میرے چہرے کے نیچے رکھ دیتی۔جن کی پشت کریلے کے کھال سے زیادہ جھریاں لیئے تھی۔اور لمس کھجور سے زیادہ میٹھا۔تب دادی مجھے وہ کہانی سناتی جو بار

Offline
 

بار سننے سے پہلے گھس پٹی اور مزید سننے سے پھٹی پرانی ہو چکی تھی۔میں یہ پھٹی پرانی کہانی سنتے اور دادی کے۔رضائی سے زیادہ نرم پوپلے وجود کو محسوس کرتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتا۔میں دادی کے اس پوپلے وجود کی گرمی کو اپنے اس ہسپانوی کمبل میں ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔جو میرے پرفیوم کی مہک سے معطر ھے۔
اور میں سانس لینا چاہتا ہوں۔اس فضا میں جو دادی کے حقے کے چلم سے اٹھنے والے دھوئیں سے کسیلی ھے۔جو مشرقی سمت میں اس دیوار کے ساتھ رکھا ھے۔جس کے اوپر روشندان کی سیمنٹ کی جالی سے ہر صبح تین شعاعیں اترتی ہیں۔جو غبار سے بھری ہوتی ہیں۔میری آنکھیں ان ذرات سے باتیں کرتی ہیں۔اور میں اپنی انگلیوں کے درمیان آخری سانسیں لیتے کیوبا کے سگارکے تمباکو کی نفیس تلخی میں گڑ کی چاشنی کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔میں آخری بار اسطرح سے رونا چاہتا ھوں۔جیسے پہلی بار رویا تھا

Offline
 

مجھے ہمیشہ سے لگتا ھے۔تصویروں کی بھی ایک دنیا ہوتی ھے۔ تصویروں میں بسنے والے یہ کردار اتنے بھی چپ اور ساکت نہیں ہوتے جتنے یہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو بس یہ جھوٹ موٹھ اداکاری کرتے ہیں۔ ورنہ یہ ہم سے نظر بچا کر ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں۔ خالی کمروں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور قہقہے بھی لگاتے ہیں۔اور ہماری غیر موجودگی میں ہماری چغلیاں بھی کرتے ہیں۔ بس جونہی خاموش راہداریوں میں قدموں کی آہٹ پاتے ہیں ۔ پھر ایک دم سے پہلے کی طرح ہوجاتے ہیں۔ چپ
صامت اور ایستادہ !!!
تصویروں سے محبت کے نام

Offline
 

شاموں سے کیا رشتہ ھے
سورج کی کیا لگتی ھو

Offline
 

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
...

Offline
 

باتیں سمجھ نہیں پاتے ہیں لوگ
دکھ تو پھر بے زبان ھوتے ھیں
...

Offline
 

مصلحت کہتی ہے وہ آۓ تو کیوں آۓ یہاں
دل کا یہ حال کہ ہر آہٹ پہ دھڑک جاتا ہے۔

Offline
 

ہمارا کیا ہے , جو ہوتا ہے جی اُداس بہت
تو گُل تراشتے ہیں ، تِتلیاں بناتے ہیں

Offline
 

اکیلے کس طرح حل کریں
عشق اجتماعی مسئلہ ھے