دُکھ تو سارے سمیٹ کہ رکھتا ہوں
بس زرا سے بال بکھرے رہتے ہیں
دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عِیادَت کر کے
ہزاروں مشغلے ہیں جو مجھے مصروف رکھتے ہیں
مگر محسن وہ ایسا ہے کہ پھر بھی یاد آتا ہے
وہ چاہتا ہے کہ ہم پھر سے ایک ہو جائیں
مذاق کرنے کی عادت نہیں گئی اس کی
وہ پھر ملا تو مُجھے حیرتوں سے تکتا رہا
کہ دلگرفتہ نہ لگتا تھا بول چال سے میں
ضرورتیں ہیں نئی سے نئی مگر اب کے
بس آنکھ بھر کے اسے دیکھنا ضرورت ہے
خود پسندی سے نکلو تو مجھ سے ملنا
میں برابری کے تعلُق پر یقین رکھتا ہوں
وہ خُوش کلام ہے ایسا کہ اُسکے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
آپ کی تلخیاں بجا ہیں لیکن
زہر اب مُجھ پر اثر نہیں کرتا
سب ٹھیک ہی ہوتا ہے مگر ہمیں پسند نہیں آرہا ہوتا کرنا اتنا چاہیے کہ جو پسند نہیں آرہا اسے پسند کرنے لگیں پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے
اجلے اجلے پھول کھلے تھے
بالکل جیسے تم ہنستے ہو
خاموشی کے اپنے معنی ہوتے ہیں
چُپ رہنا بھی باتیں کرنا ہوتا ہے
کبھی ملیں بھی تو موسم کی بات کرتے ہیں
ہمارا اس کا تعلق بھی لا معاملہ ہے
ہمیں تو اس سے محبت ہے، یہ تو مانتے ہیں
اسے نہیں ہے تو یہ اک جدا معاملہ ہے
خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی
جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنّا ہونا
کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب
تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہیے
کھینچ لاتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ
آخری بار کئی بار ملے ہیں تجھ سے
پھینک جاتا ہے میرے ذہن میں یادوں کے گلاب ۔
اس جدائی میں بھی اس شخص کا ملنا دیکھو
جانے کس سمت سے آتی ہے اچانک تیری یاد
اور پھر کچھ بھی سمٹنے میں نہیں آتا
خود کو مصروف کئے رکھنے کی کوشش کرنا
کیا تیری یاد کے زمرے میں نہیں آتا ہے
جیسے کوئی سایہ دار درخت ہوتا ہے نہ مجھے لگتا ہے میں وہ درخت ہوں جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر سب کو اچھا لگتا ہے لیکن کوئی درخت کے بارے میں سوچتا ہی نہیں کوئی درخت سے نہیں پوچھتا کہ اُس کی جڑیں مضبوط ہیں یا سوکھ گئی ہیں
سب کی سنتے رہو پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
چاہے بولے نہ وہ
لب کو کھولیں نہ وہ
دل الگ بات ہے
اپنے لہجے میں بھے،پیار کھولیں نہ وہ
اپنا جو فرض ہے اس طرح ہو ادا
جیسے کہ قرض ہے
کوئی جو کچھ کہے اس کی سنتے رہو
پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو
بے خیالی میں ہی لب اگر کھل گئے
اور زبان پر کبھی کوئی سچ آگیا
یوں سمجھ لو کہ پھر سلسلے جتنے تھے
درمیان جو بھی تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain