Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

رنجِ شبِ فراق کی مٹ جائیں سختیاں
یوں ہی اگـــــر خیال تیرا مہــــرباں رھے

Offline
 

جذباتی بندہ اپنی زندگی کے اصول بنا بھی لے تو اس پر زیادہ دیر عمل نہیں کر سکتا۔ رات کو سونے سے پہلے خود کو اچھا خاصا موٹیویشنل لیکچر دے کر سوئے گا۔ لیکن اگلے ہی دن اسے کسی نہ کسی بات پر غصہ آجاتا کسی نا کسی بات پر اوور ایکسائٹڈ ہوجاتا ھے کسی بات پر خوَامخوا خوش ہو جاتا کسی پہ بے وجہ پیار آجاتا ھے کھڑے کھڑے نیک بننے کا شوق ہو جاتا ھے اور __ اور پھر اصول کھڑے کے کھڑے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ایک دوسرے کا

Offline
 

اک دنیا
بھول بھلیاں سی
اک گونگا، بہرا، اندھا دل

Offline
 

معاشرتی رویوں میں عزت کی بارگیننگ آج بھی بارٹر سسٹم پہ رائج ھے۔ یعنی لو اور دو

Offline
 

ایک دن کی بات
ہم باپ بیٹا ہر کام اکٹھے کرتے۔ تاش کھیلتے ، ٹی وی دیکھتے ، ساتھ فلم دیکھنے سینما جاتے، حتیٰ کہ کم عمر لڑکیوں کی طرح سوٹ بھی ایک جیسے سلواتے۔
اُن کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوۓ اگر دوسری جانب سے کوئی شاعر ، ادیب یا کوئی اور مانوس چہرہ نظر آتا
تو ممتاز مفتی رُک جاتے اور نہایت تپاک اور گرم جوشی سے باآوازِ بلند صدا لگاتے
" او یار تم کہاں ۔ ملتے ہی نہیں ہو ، کہاں غائب رہتے ہو۔ کمال آدمی ہو یار ملا تو کرو۔ "
جونہی وہ شخص رخصت ہوتا تو ممتاز مفتی نہایت سنجیدگی سے مجھ سے مخاطب ہوکر

Offline
 

پوچھتے،
" یار عکسی یہ کون تھا ؟ "
اِس پر ہم سب گھر والے ان کا بڑا مذاق اُڑاتے۔ لیکن ساری زندگی وہ یہی پوچھتے رہے " یار عکسی یہ کون تھا ؟ "
کہتے ہیں کہ انگریزی مصنف جی کے چسٹرٹن اکثر گھر کا راستہ بھول جاتے اور سڑکوں پر اجنبی لوگوں سے پوچھتے کہ آپ کو جی کے چسٹرٹن کا گھر معلوم ہے؟
عکسی مفتی صاحب کی کتاب " ایک دن کی بات " سے اقتباس

Offline
 

نیند وہ ٹکٹ ھے جو خوابوں کے رستے ان سے بھی ملا دیتی ھے جن سے اس دنیا میں ملاقات ممکن ہی نہیں ہوتی یا وہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہوتے _________!!!
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد نہیں ہوتی

Offline
 

لاکھ موسم نے رونقیں بخشی
ہم تیرے قحط سے نہیں نکلے

Offline
 

معاشرہ جُھوٹ بولتا ہے، تم تو خُوبصورت ہو۔

Offline
 

تیری باتیں تھیں خواب کے مانند
خواب سارے بکھر گئے ہیں اب
دل کی دنیا تھی چاندنی جیسی
بادلوں میں اتر گئی ہے اب
تیرا وعدہ تھا پھول کے مانند
پھول خوشبو بکھیرتے ہی مرجھا گئے
تیری چاہت تھی نرم سی بارش
قطرہ قطرہ بکھر گئی ہے اب
تیری آنکھیں تھیں جھیل کے مانند
گہرائی میں ڈوبتا گیا میں
تیرا سایہ تھا روشنی جیسا
دھوپ میں کھو گیا ہے اب

Offline
 

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

Offline
 

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

Offline
 

کچھ لوگ گلاب کی طرح ہوتے ہیں بالکل ترو تازہ ۔ ہر پل مسکراتے، خوشیاں بکھیرتے مگر پھر ہمارے سخت لہجے، طنز یا کڑوے الفاظ ان کی مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔ وہ ہمارے الفاظ اور لہجے کی گرمی نہیں سہہ پاتے اور گلاب کے پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، تازگی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کا احساس، ان کی باتیں ہمارے ارد گرد ہمیشہ رہتی ہیں۔ گلاب کی خوشبو کی طرح۔ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجیے۔ کہیں کوئی تازہ گلاب مرجھا نہ جائے۔ کسی کی مسکراہٹ آپ کی ایک جھڑکی، تلخ لہجے کی نظر نہ ہوجائے۔ کیونکہ کھلنے میں وقت لگتا ہے مگر مرجھانے کے لیے چند پل بھی کافی ہوتے ہیں۔ !
خوشیاں بانٹیں اور مسکراہٹیں تقسیم کریں آپ کی دی ہوئی ایک مسکراہٹ کسی کے لئے زندگی کی امید بن سکتی ہے۔

Offline
 

آپ کے گھر سے نکلی بات
ایک دن أپ کے گھر واپس ضرور آتی ھے
وہ اپنا اصل پتہ بھولتی نہیں ھے
پھر خواہ آپ کے گھر کا در بند ہو کھلا یا مقفل
اسے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا

Offline
 

تم نے میری نظمیں چرا کر اپنی دوست کو ایسے کیوں سنائیں جیسے وہ تمہاری ہوں، اے ڈاکیے؟
جناب، نظمیں ان کی ملکیت نہیں ہوتیں جو انہیں لکھتے ہیں، بلکہ ان کی ہوتی ہیں جو انہیں ضرورت کے وقت پاتے ہیں۔
مجھے ان نظموں کی ضرورت تھی

Offline
 

یوں بھی ہو سکتا ہے
کسی پرندے کو مچھلی سے محبت ہو جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ جا کر رہیں تو کہاں رہیں؟
کچھ ایسا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ایسی چیزوں کی چاہت کر بیٹھتے ہیں،جو اُن کیلئے بنی ہی نہیں ہوتیں،پھر آخر میں ایک کو اڑ جانا ہوتا ہے دوسرے کو غموں کے سمندر میں غرق ہونا پڑتا ہے

Offline
 

بیگم کہتی آج سحری میں مولی والے پراٹھے بنانے کا من ہے۔ میں نے کہا نہیں یار دفتر جانا ہے کولیگز کو کاہے کی سزا دوں۔ پھر بولی گوبھی والے بنا لوں؟ میں نے کہا آفرین، یعنی تم چاہ رہی کہ آج آفس میں کوئی اپنی کرسی پر نہ ٹک سکے ؟۔ بولی “ میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ کل سے ویک اینڈ ہے، ہفتہ اتوار آپ گھر ہوتے ہیں۔ان دنوں تو ہرگز نہیں بنا سکتی”۔
میں نے کہا کہ آخر تم نے یہ بنانے ہی کیوں ہیں ؟۔ بولی کہ میں چاہ رہی آپ کولیگز کی نظروں میں گر جائیں۔ میں نے حیران ہوتے پوچھا کہ آخر کیوں ؟۔ بولی “ جب سے آپ کی فارنر کولیگ ایملی آئی ہے میں نوٹ کر رہی ہوں کہ آپ زیادہ ہی تیار ہو کے آفس جانے لگے ہیں۔ پہلے تو اتنا نہیں ہوتے تھے آپ۔” دسو یار، ایسے منصوبے تو دشمن بھی نہیں بناتا ۔

Offline
 

میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں اندر کی خامشی نکلے۔
میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے
شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلیں
میں چاہتا ہوں تیرے عشق میں عجیییب ہو کچھ
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے
میں چاہتا ہوں صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کئیے جائیں
میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے

Offline
 

جب مِرے پاس تھے تم
میں نے کئی بار یہ سوچا، تم سے
آنکھ میں بِکھرے ھُوئے خواب کا احوال کہوں
کیسے کٹتے ھیں مِرے روز و مہ و سال کہوں
فیصلے اور عمل میں لیکن
ایک دیوار جو صدیوں سے کھڑی ھے، میں بھی
اُس میں روزن ھی بنانے کی تگ و دو میں رھا
سعیِ بیکارِ تمنا کی قلمرو میں رھا
اب جو تم بچھڑے ھو تو
دِن رات مِرے دِل میں عجب وھم سا رھتا ھے
کہ جیسے میں نے،
یونہی اِک خوف کو دیوار بنا رکھا تھا
دِل کو اِک نقطہء پرکار بنا رکھا تھا
سوچتا ھوں کہ اگر میں نے کبھی
تم کو اُس خواب کا احوال سُنایا ھوتا، تو بھلا کیا ھوتا!
حد سے حد تم مِری باتوں سے خفا ھو جاتے
اِک تمسخر کی ھنسی ھنس کے جُدا ھو جاتے

Offline
 

ہم نے پھول بھیجنے کے موسم میں
ایک دوسرے کو ہجر بھیجا۔
تم میرے ہونٹوں سے کسی ان چاہے اظہار کی طرح بچھڑ گئے۔
اور میں تمھاری آنکھوں سے آنسووں کی طرح بے دخل ہو گیا۔
کسی میز پر آج بھی دو موم بتیاں بڑی شدت سے جل رہی ہوں گی۔
مگر ہم روشنی کا مقدمہ ہار گئے تھے۔
دیکھو ہمارے اندر کتنی تاریکیاں بھری ہوئی ہیں۔
کیا تمھیں کوئی راستہ سجھائی دیتا ہے؟؟
میں بھول چکا ہوں دروازہ کس طرف تھا ؟؟