Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

خواب دیکھے تھے جو
سب بکھر جائیں گے
ایسا کرنا نہیں
سب کی سنںا مگر تم بکھرنا نہیں
مسئلے سب کے سب ہیں سفید و سیاہ
مسئلوں میں کبھی رنگ بھرنا نہیں
دل میں گر پیار ہو لب پہ اقرار ہو
پیار ہی پیار بس حرف اظہار ہو
گر انا یہ کہے دل نہ مل پائیں گے
اس پہ مت جائیو
کھوٹی ہے یہ انا اس سے کچھ نہ بنا
دل کی باتیں سنو فاصلے سے سہی
پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو
راستہ ایک ہے مدعا ایک ہے
ایک ہمارا ہی کیا

Offline
 

ساری دنیا کا ہی سلسلہ ایک ہے
ایک آئے تھے ہم ایک آئے تھے تم
ایک ہے یہ سفر
بھیڑ کتنی بھی ہو
اپنی اپنی جگہ ہر کوئی ایک ہے
نام ہیں گو جدا ، پر خدا ایک ہے
بس خدا کی طرح سب کی سنتے رہو ،پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
کہنے سننے سے تو کچھ بدلتا نہیں
رات جاتی نہیں دن ٹہرتا نہیں
ہونے والا ہے کیا کچھ بھی کھلتا نہیں۔
وقت کم ہے بہت
اتنے کم وقت میں
جس قدر کر سکو پیار کرتے چلو
اور کچھ نہ کہو۔

Offline
 

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

Offline
 

سوچوں تو ساری عمر محبت میں کٹ گئی
دیکھوں تو ایک شخص بھی میرا نہیں ہوا

Offline
 

نجا نے کس سمت سے آ جا ئے و ہ آنیو ا لا ،
میں نے ہر سمت سے دیو ار گر ا ر کھی ھے...

Offline
 

اِسے خلوص کہـو - - - - - یا ہماری نادانی
جو کوئی ہنس کے ملا اُس سے دوستی کر لی

Offline
 

ہاتھ میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
ہم کو زیبا نہیں کہ تم سے کہیں
دل کسی وجہ سے دُکھی ہے مگر
کچھ بھی ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ذہن اُلجھا ہوا ہے کچھ دن سے
لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
ورنہ اب تک نہ کہہ چکے ہوتے ؟
کبھی چاہا نہیں کہ تم سے کہیں !
تم سے کہنا ہوا تو کہہ دیں گے
ہم سے کہنا نہیں کہ تم سے کہیں
خامشی ، اشک ، روگ ، مرگ ، فرار
ایک رستہ نہیں کہ تم سے کہیں
یہ تمہاری پرانی عادت ہے
پہلی دفعہ نہیں کہ تم سے کہیں
تم کو آتا نہیں کہ ہم سے کہو
ہم سے ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں
کہے دیتے ہیں دل کی بات ۔۔ چلو
خیر ۔۔ بنتا نہیں کہ تم سے کہیں
یونہی اک کیفیت سی ہے جواد
کوئی قصہ نہیں کہ تم سے کہیں

Offline
 

دیکھو تمہاری انا نے کیا کیا کسی نے محبت کرنا چھوڑ دی

Offline
 

ترے نہ آنے کا سن کر بہت اداس ہوا
وہ آدمی جو ترے انتظار میں بھی نہ تھا

Offline
 

ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رھا ھو پہلی بار سمندر

Offline
 

شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے، چــھین کر آنکھیــــــں

Offline
 

دیکھوں جو آسماں سے تو اتنی بڑی زمیں
اتنی بڑی زمین پر چھوٹا سا اک شہر
چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال
سڑکوں کے ایک جال میں ویران سی گلی
ویراں گلی کے موڑ پر تنہا سا اک شجر
تنہا شجر کے سایے میں چھوٹا سا اک مکاں
چھوٹے سے اک مکان میں کچی زمیں کا صحن
کچی زمیں کے صحن میں کھلتا ہوا گلاب
کھلتے ہوئے گلاب میں مہکا ہوا بدن
مہکے ہوئے بدن میں سمندر سا ایک دل
اس دل کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں
یوں ہے کہ اس زمیں سے بڑا ہو گیا ہوں میں

Offline
 

ہمیں بھی شوق نہیں تھا داستان سنانے کا
فراز اس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی

Offline
 

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

Offline
 

جانے کس سمت سے آتی ہے اچانک تیری یاد
اور پھر کچھ بھی سمٹنے میں نہیں آتا ہے

Offline
 

ہزار باندھ لئے آ گہی نے حصار
تیرا خیال نہ جانے کہاں سے آتاہے

Offline
 

وہ پرندہ جسے پرواز سے فرصت ہی نہ تھی
اب
جو تنہا ہے تو دیوار پہ آ بیٹھا ہے

Offline
 

ذہن میں سوچوں کا ہجوم لگا ہوا ہے
اور کہنے کو زبان میں فقط ایک لفظ بھی نہیں

Offline
 

نہ چاہنے پہ بھی تجھ کو خدا سے مانگ لیا
یہ حال ہے دلِ بے مدّعا کے ہوتے ہوئے

Offline
 

ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر