اونٹ کو اللہ نے صحرا کیلئے بنایا ہے. اس ریتیلے دشت میں نہ تو اس کے پاوں ریت میں دھنستے ہیں. نہ اڑتی ریت اس کی آنکھوں کی دوہری پلکوں کی جھالر سے اسے پریشان کرتی ہے. اس کے ہونٹ اور منہ صحرائی جھاڑ جھنکار کے کانٹوں سے زخمی نہیں ہوتے اور پانی یہ طویل وقت کیلئے اپنے جسم میں ہی ذخیرہ کر سکتا ہے. اونٹ کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا صدیاں قبل بدو لوگوں نے کیسے اسے سدھا لیا. کیونکہ آج بھی صحرا میں آپ اونٹ کو پکڑ نہیں سکتے. البتہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اونٹ کا منہ ہر وقت چل رہا ہوتا ہے تو یہ اس رسی کو ہی چبا لیتا ہے جس سے ان کو باندھ کر رکھا جاتا.بدو یہ جانتے تھے.
بدو تب رسی کے آخر سرے پر نمک لگا لیتے. اونٹ جب اس تیز نمکین رسی کو منہ میں ڈالتا تو اس کے تلخ ذائقہ پر فوراً منہ سے نکال لیتا. اونٹ آزادی کی سوچ ہی چھوڑ دیتا. صحرا میں بدو اس پر وزن لاد کر قافلوں میں چلتے ان کی گردن کی گھنٹیاں بج رہی ہوتی آگے پیچھے بدو گیت گاتے اور اونٹ اسے ہی زندگی مان لیتا. عام انسان بھی نہ تو آنسو پسند کرتا ہے نہ ہی پسینہ چونکہ یہ دونوں بھی نمکین ہیں. ہمیں نمک "حسب ذائقہ" چاہئے ہے. زندگی جہاں کچھ تلخ ہوتی ہے، ہمیں رولاتی یا ہمارا پسینہ نکالنے لگتی ہے ہم بھی اونٹ کی طرح اس سے جان چڑھانا چاہتے ہیں. ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور وقت ہمارے گلے میں بھی پٹہ ڈال کر اس قافلے میں شامل کر دیتا ہے جو زندگی نہیں جیتے بلکہ زندگی ان پر بیت جاتی ہے.
جھکی ہوئی یہ جبیں ہے "حضور" دیکھیں ناں ہمارا قلب حزیں ہے "حضور" دیکھیں ناں کسی کا کوئی تو ہوتا ہے اتنے لوگوں میں ہمارا کوئی نہیں ہے "حضور" دیکھیں ناں ہماری آنکھ میں خوشیوں کا رقص ہوتا تھا اب ان میں درد مکیں ہے "حضور" دیکھیں ناں ہمیں نکالا گیا پہلے آسمانوں سے اور اب تو تنگ زمیں ہے "حضور" دیکھیں ناں دلِ حزیں کا فقط آپ کی نظر کے سوا کوئی علاج نہیں ہے "حضور" دیکھیں ناں "حضور" کوئی نہیں ہے آپ کہ سوا میرا "حضور" کوئی نہیں ہے "حضور" دیکھیں ناں
سنو۔۔۔ کیا تم نے کبھی سرحد دیکھی ہے سرحد کے ایک پار اپنا گھر ہوتا ہے کچھ اجنبی سی خوشیاں کچھ شناساں غم ہوتے ہیں تھوڑے پرائے سے اپنے کچھ اپنوں جیسے پرائے ہوتے ہیں جب کہ سرحد کے دوسرے پار گھائل کرنے والا جانی دشمن کانٹوں والی آڑ, خندقیں اور پہرے دار میں بھی آج ایک ایسی سرحد پر کھڑا ہوں میری اور تمہاری محبت کی سرحد سرحد کے اس پار میرا سب کچھ ہے کامیابیاں، کامرانیاں
شادمانیاں عزت ، دولت ، شہرت کے سُکھ مگر سرحد کے اس پار گھات لگائے بیٹھی ایک دشمن محبت زندان ، قید اور قفس رسوائیوں کی خندق اور بدنامیوں کی خاک دار تار اور میں ڈھلتی شام کے سائے تلے اس سرحد کے بیچ کھڑا یہ سوچ رہا ہوں کہ واپس لوٹ جاؤں یا محبت کی یہ سرحد پار کرلوں کیونکہ سرحد کے اس جانب میرا سب کچھ ہیں جب کہ سرحد کے اس پار تم ہو