ایک بار ابنِ صفی سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اتنے جاسوسی ناول لکھے ہیں۔ کبھی خود بھی جاسوسی کی ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایک بار ان کے گھر میں چوری ہو گئی تھی۔ چور گھر کا سارا قیمتی سامان چرا کر لے گئے تھے۔ انہوں نے تھانے میں رپورٹ لکھوا دی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ چنانچہ انہوں نے خود سراغ لگانے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے گھر کا چپا چپا چھان مارا کہ کوئی ایسی چیز ہاتھ لگے جس سے سراغ لگایا جاسکے۔ تلاشی کے دوران انہیں گھر کی ڈیوڑھی سے لانڈری کی ایک رسید ملی۔ انہوں
نے سمجھ لیا کہ ایک سرا ہاتھ لگ گیا۔ ابنِ صفی نے اسے خاموشی سے اٹھا لیا اور جا کر پولیس اسٹیشن میں جمع کر دیا۔ اور یہ شک ظاہر کیا کہ چور کی جیب سے یہ رسید گر گئی ہے پولیس نے اپنے کئی آدمیوں کو لانڈری پر کھڑا کر دیا کہ جب بھی وہ شخص اپنے کپڑے لینے آئے ،تو اسے گرفتار کر لیا جائے۔ ابن ِصفی رسید پر پڑی ہوئی تاریخ کو پولیس اسٹیشن میں جا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس ان کے بہنوئی کو گرفتار کر کے لے آئی اور انہیں بتایا کہ یہ رسید کے کپڑے لینے آئے تھے۔ تب ابن ِصفی بہت شرمندہ ہوئے اور انہوں نے بہنوئی سے معافی مانگی اور یہ تہیہ کر لیا کہ آئندہ جاسوسی نہیں کریں گے اور صرف جاسوسی ناول ہی لکھیں گے۔ ~کتاب’’ابنِ صفی‘‘ ~
ہری چند اختر جوش صاحب سے ملنے گئے، جاتے ہی پوچھا، “جناب! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟“ جوش صاحب نے فرمایا، “آپ تو غلط اردو بولتے ہیں، یہ آپ نے کیسے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں، جب کہ میرا تو ایک مزاج ہے نا کہ بہت سے مزاج۔“ کچھ دن بعد اختر کی پھر جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے فرمایا، “ابھی ابھی جگن ناتھ آزاد صاحب کے والد تشریف لائے تھے۔“ اس پر اختر صاحب نے فرمایا، “کتنے؟“
خدا اس شخص پہ مہربان رہے جس نے کہا "حتیٰ کہ اک خوشبو بھی انسان کو ماضی میں لے جاتی ہے ۔" اس خوشبو کے تعاقب میں لازم نہیں عہدِ رفتہ کو آواز دینا سہل ٹھہرے ۔ یادوں کا آزاد شہر کیسی صدائیں دینے لگے کِسے معلوم
1970 کی بات ہے کہ تیز گام میں سفر کر رہا تھا۔ مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے ایک دوست سے ملنا ہے۔ تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیز گام ہے دینہ سے گزرے گی مگر رُکے گی نہیں۔ یہ سن کر میں گھبرا گیا مگر مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں دینہ اسٹیشن سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین آہستہ ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اتر کر آگے کی طرف بھاگ پڑنا۔ جس طرف ٹرین جا رہی ہے اس طرح کرو گے تو تم گِرو
گے نہیں۔ دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا۔ اب دینہ آتے ہی ٹرین آہستہ ہوئی تو میں ان کے بتانے کے مطابق پلیٹ فارم پر کُودا اور کچھ زیادہ ہی تیزی سے دوڑ گیا۔ اتنا تیز دوڑا کہ اگلے ڈبے تک جا پہنچا۔ اگلے ڈبے کے کچھ مسافر دروازے میں کھڑے تھے۔ مسافروں میں سے کسی نے میرا ہاتھ پکڑا تو کسی نے شرٹ پکڑی اور مجھے کھینچ کر ٹرین میں چڑھا لیا۔ اب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور سب مسافر کہے رہے تھے تیرا نصیب اچھا ہے جو تجھے یہ گاڑی مل گئی۔ ورنہ یہ تیزگام ہے اور دینہ میں نہیں رُکتی۔
چلیں اب خواتین کی ڈکشنری سے کچھ ایسے الفاظ سیکھتے ہیں جو مردوں کو صحیح سے نہیں پتہ!! ہاں=نہیں نہیں=ہاں شاید=نہیں آئی ایم سوری= افسوس تو تہمیں کرنا ہوگا ضرورت ہے = مجھے چاہیے یہ جو دل کرے وہ کرو= بعد میں پچھتانا پڑے گا مجھے بات کرنی= مجھے گلے شکوے کرنے ہیں میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں= شدید غصّہ ہوں پاگل! یہ کچن تنگ ہے=نیا گھر چاہیے مجھے عجیب آواز سنائی دی= مجھے دیکھنا تھا کہ جاگ تو نہیں رہے تھے تم پیار کرتے ہو نا= شاپنگ کراؤ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو= کوئی بونگی ماری ہے آج میں بس دو منٹ میں آئی = دو گھنٹے سو جاؤ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو= بس میری ہی مانو تم سن رہے ہو نا= بس اب بہت ہوگیا، تمہیں بتاتی ہوں
میں نے زندگی میں کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا "پیچھے مُڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں" لیکن تم میرے ماضی کی وہ واحد آواز ہو جسے مُڑ کر, پیچھے دیکھ کر کبھی پتھر کا ہو جانے کا جی چاہتا ہے۔۔۔ معصوم مسکراہٹ۔۔
کون کہتا ہے کہ کسی شخص سے ایک بار محبت ہونے کے بعد اس سے نفرت ہوسکتی ہے ۔ جو کہتا ہےوہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ہے۔ Cycle of Replacement میں صرف محبت کی ریپلیسمنٹ نہیں ہوتی ۔خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہوتا ہے۔ہم کبھی بھی اسے اپنے وجود سے نکال کر باہر نہیں پھینک سکتے .تہ در تہہ اس کے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں' کہتے جاتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ قریب آتا جاتا ہے اور وہ ہمارے دل و دماغ کے اس حصے میں جا پہنچتا ہے کہ کبھی اس کو وہاں سے نکالنا پڑے تو پھر اس کے بعد ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
کبھی آپ نے تعلقات کی کیمسٹری پر غور کیا ہے؟ وہ تعلقات جہاں خون کا یا رحم کا رشتہ نہیں ہوتا۔ جہاں احساس، خیال، محبت اور چاہت کا بے لوث رشتہ بغیر کسی کوشش کے قائم ہو جاتا ہے۔ ایسے رشتے کی موجودگی آپ کو سکون کا وہ نرم گرم احساس دلاتی ہے جو سرما کی بارش میں بھیگے جسم کو گرم لباس اور کافی کا کپ ملنے پر ہوتا ہے۔ ان کی طرف سے خوشی غم کا خیال رکھا جانا آپ کے دل کو تشکر کی پھوار میں ہلکا پھلکا کر دیتا ہے۔ ان کا بغیر کچھ جتائے آپ کے دل پر مرہم رکھنے کی کوشش کرنا درد کو جیسے فراموش کر
دیتا ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں کے پاس ایسے انمول تعلق موجود ہیں وہ ان کی قدر کریں اور جن کے پاس یہ نعمت نہیں ہے۔ وہ بجائے افسردہ اور بے مایہ محسوس کرنے کے ،کسی کے لئے ایسا تعلق، رشتہ بن جائیں جہاں سے دوسروں کو راحت ملتی رہے۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ کوئی آپ کے لئے دستیاب کیوں نہیں ہے۔ آپ پہل کرنا شروع کر دیں۔ تسلی دینے میں، دکھ سکھ بانٹنے میں، دلاسہ دینے،حوصلہ افزائی کرنے میں پہل کریں۔ وہ کندھا بن جائیں جہاں تھکے ماندے وجود سہارا لے سکیں۔ یقین کریں زندگی بہت آسان ہو جائے گی. منقول
اُن کو بھی ہم سے ویسی ہی محبت ہو ضروری تو نہیں ایک سی دونوں کی حالت ہو ضروری تو نہیں میری تنہائیاں کرتی ہیں جنھیں یاد صدا اُن کو بھی میری ضرورت ہو ضروری تو نہیں مسکرانے سے بھی ہوتا ہے بیان غمِ دل مجھ کو رونے کی بھی عادت ہو ضروری تو نہیں
موت تو نجات ھے ۔ امید سےنجات ‛ خوف سے نجات ‛ کچھ ہو جانے سے ‛ کچھ کھو جانے سے ‛ کچھ پا لینے کے طمع سے ‛ کسی تعلق کے ٹوٹ جانے سے ‛ کسی کو پالینے کی جستجو سے‛ محتاجی سے ‛ مقاصد کی تھکا دینے والی دوڑ سے ‛ قلیل لمحوں کی یہ تکلیف ہمیشہ کی تکلیفوں سے نجات ھے۔ نجانے پھر بھی انسان اس کے وارد ہونے سے ڈرتا کیوں ھے۔
آج میں نے تمہیں بہت خاموشی سے یاد کیا۔ اتنی خاموشی سے کہ کسی کو کوئی خبر نہ ہوئی۔ میں نے تمہیں یاد کیا اور میری آنکھیں نم نہیں ہوئیں۔ میں نے کوئی واویلا نہیں کیا۔ لیکن میں نے تمہیں یاد کیا۔ جب میں صبح جاگا، جب میں نے تمہارا انتظار کیا، جب میں کام کرتا رہا۔ میں نے تمہیں یاد کیا جب میں گھر پہ تھا، جب میں سڑک پہ تھا۔ جب میں روشنی میں تھا اور جب میں اندھیرے میں تھا۔ میں نے تمہیں بہت خاموشی سے یاد کیا، لیکن کہیں اندر، اس یاد کا شور بہت بلند تھا۔ شب بخیر