اس نصیحت کو حاصل کرنے کے لئے مجھے گھنٹوں محنت کرنی پڑی- جیسے کہ ایک بوند کی اُمید میں سوکھے ہوئے لیموں کو دبا دبا کر انگلیاں تھک جاتی ہیں -
ہم دونوں مسجد نبویؐ میں بیٹھے تھے - مسجد نبویؐ میں وہ ہمارا آخری دن تھا-
میں نے کہا " اس مقدس زمین سے کچھ لے کر جانا چاہیے-
اچھا ؟ وہ بولا-
ایسی چیز جو زندگی بھر ساتھ رہے -
ہاں، وہ بولا- زندگی بھر ساتھ رہے-
کیا حرج ہے- اس نے جواب دیا-
کیا لے کر جاؤں -
کیا لے جانا چاہتے ہیں آپ ؟
کوئی ایسی چیز جسے میں نباہ سکوں-
ہاں یہ تو ہے-
صوم و صلوت نہیں لے جا سکتا-
کیوں؟
مجھ سے نبھے گا نہیں-
اچھا
مشکل ہے، بے قاعدہ آدمی کے لئے مشکل ہے-
ہاں بے قاعدہ آدمی کے لئے مشکل ہے-
کوئی کردار کی بات ہو-
ہاں کردار کی بات ہو-
کردار کی بات سب سے بڑی سنت نہیں کیا-
ہاں سب سے بڑی سنت ہے-
مثلاََ کیا ہو؟ میں نے پوچھا-
کیا ہو؟ وہ سوچ میں پڑ گیا... کیا ہو سکتا ہے-
مثلاَ یہ کہ دل میں کسی کے بارے میں میل نہ آنے دوں گا، کچھ ایسا ہو- کیوں کیا خیال ہے-
ہاں کچھ ایسا ہو- وہ بولا-
کوئی واضح بات ہو- جس کے خدوخال واضح ہوں-
ہوں ،وہ بولا- ایک بات سمجھ میں آتی ہے-
وہ کیا ؟
اگر آپ پسند کریں تو-
ہے کیا؟ میں نے پوچھا-
" یہ کہ دوسروں سے خُوش نہ رہ سکا تو کم از کم کسی سے ناخوش نہ رہوں گا- "
دفعتاَ مجھے خیال آیا کہ یہی تو قدرت اللّٰہ کے کردار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے- وہ ہر شخص سے خُوش رہتا ہے- میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی سے ناخوش ہو-
ممتاز مفتی،
آج تک آپ نے سنے ہونگے لڑکوں کے لگائے جانے والے چونے۔۔
آج میں آپکو بتاتا ہوں لڑکیوں کے چونے
سامنے بریانی کی پلیٹ۔۔۔جانو کی فون کال ۔۔ کیمرہ+ایکشن+لائٹس+ڈائیلاگ
کیوں دوں میں آپکو سلام کا جواب۔۔۔صبح کا کچھ نہیں کھایا میں نے۔۔۔آپکی ایک فون کال کا انتظار کرتے کسی دن مر ہی جاؤنگی میں۔۔بھول کے بھی جنازے کو کندھا مت دینا کہیں آپکا سہارا سمجھ کر دوبارہ زندہ ہی نہ ہوجاؤں
نوٹ۔۔۔۔۔اچھے اور برے انسان دونوں اطراف ہوتے ہیں۔۔لڑکے چونا لگاتے ہیں تو لڑکیاں چونا نہیں تو چونی لگا لیتی ہونگی۔۔گھٹ ت فیر کڑیاں وی نئیں
دوسرا نوٹ۔۔۔اوپر بیان کی گئی بات حقیقت ہے ۔۔۔۔اگر یہ حقیقت ہضم نہ ہو تو ۔۔۔سکرول کیجیئے اور آگے نکل جائیئے۔۔۔
ڈاکٹر:دکھاؤ کہاں تکلیف ہو رہی ہے؟
مریض: یہ دیکھیں اس نےپوسٹ سین کر کے چھوڑ دی.
اگر آپ بہترین ذہانت کے حامل ہیں تو اس سوال کا درست جواب 15 سیکنڈ میں دے دیں گے لیکن اگر ٹائم زیادہ لیتے ہیں اور دُرست جواب دیتے ہیں تو اِس کا مطلب آپ کے دماغ کے خُلیے تجزیاتی لحاظ سے سُست ہیں
سوال یہ ہے
ایک آدمی ایک دوکان سے 500 روپے کا نوٹ چُرا لیتا ہے اور پھر وہی نوٹ دوکاندار کو دے کر اُس سے 300 روپے کا سامان خرید لیتا ہے اور 200 روپے بقایا لے لیتا ہے
تو بتائیں دوکاندار کو کتنا نقصان ہوا ؟
میں خود سے بھاگ کے خود میں پناہ لیتا ہوں
عجیب حلقہ دارالامان ہے یہ بھی۔
انسان کی برداشت کی آخری حد سے عشق کی ابتدا ہوتی ہے – یہ معاملہ کیا ہے ؟
کیوں کسی کی یاد، آپ کو بے چین و مضطرب کیے رکھتی ہے –
ایسی یاد جس میں آمد ہو ، آورد نہیں
جس میں سچائی ہو، ڈھونگ نہیں
– جس میں عشق ہو ، ہوس نہیں
– کسی نے کیا خوب کہا ہے ” عشق نہ پوچھے ذات ”
عشق کچھ نہیں دیکھتا ، مذہب ہو، عمر ہو، وقت ہو.زمان ہو یا مکان ہو، ممکن ہو یا نہ ممکن ہو ، بس ہو جاتا ہے ، جی ہاں، ہو جاتا ہے – اور کچھ بدنصیبی کہیے
اور کچھ خوش نصیبی – ملن ہو جائے تو کیا کہنے، نہ ہو تو بندا اچھا خاص نکما اور “کچھ کام نہ جوگا” بن جاتا ہے –
ایک لاشعوری شکست سی ہو جاتی ہے، انسان اس گمان سے ہی باہر نہیں نکل پاتا کے اس کی عشق میں ہار ہو گئی ہے – آخر کیوں کسی کی یاد اس کو بے وقت آتی رہتی ہے ؟ یہ سوال اسے جینے نہیں دیتا، وہ مکڑی کے جال میں کشمکش کی حالت میں پھڑپھڑاتا سا رہ جاتا ہے – اور سونے پر سہاگہ ، اگر یکطرفہ ہو جایے تو انا للہ پڑھ لیجیے – عجیب گلے پڑھنے والی چیز ہے یہ، آپ خود کو لاکھ باز رکھیں، بزرگوں کی نصیحتیں سنیں، مذہب میں دل لگایئں ، یا کسی اور سے ٹانکا لگا لیں، بار بار خود کو جتنا مرضی کہیں ” اوے ، بندے دا پتر بن ” مگر دل بندے دا پتر نہیں بندا —اور عشق زدہ ہو کر، جان اپنی جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے ،
دوست ، کتاب ، راستہ اور سوچ
غلط هوں تو گمراه کر دیتے هیں
میرا یہ وجود ہو کم سے کم،
کہیں ریت پر کسی نقش سا،،
تو بنائے تو میں___بنا کروں،
تو مٹائے تو میں__مِٹا کروں
کچھ خاص اور منفرد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گھر سے نکلنے کے بجائے اپنے کمروں میں ہی سکون پاتے ہیں۔ جب وہ کہیں جاتے ہیں، تو اپنی پسندیدہ تنہائی کو یاد کرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے چند ہی قریبی دوست ہوتے ہیں اور وہ بہت کم کسی سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کے فون ہمیشہ سائلنٹ پر ہوتے ہیں، نہ وہ کسی کے کال کا انتظار کرتے ہیں، نہ میسج کا۔ بلکہ، کسی کے بات کرنے یا گھلنے ملنے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جواپنے جذبات میں انتخابی ہوتے ہیں، کتابوں، سمندر، صحرا، سردیوں اور سکون سے محبت کرتے ہیں۔ اندھیرا اور تنہائی ان کے لیے نشہ آور ہوتی ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں اور اپنے خیالات میں مگن رہتے ہیں، کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں، اور ہم بہت کم ہیں۔ ہمیں سمجھنے والے بھی صرف ہم جیسے ہی ہوتے ہیں۔
عورت چیختے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور بولی میں غلام بن کر تھک چکی ہوں ! میں کھانا پکاتی ہوں، صفائی کرتی ہوں اور کپڑے دھوتی ہوں۔
صرف مرد ہی کیوں آزاد ہیں؟
شوہر نے کہا کیا میں واقعی آزاد ہوں؟
جبکہ تمہاری آنکھوں نے مجھے قید کر رکھا ہے اور وہ شرما کر کچن میں چلی گئی
امریکی مصنفہ اور صحافی "ایرما بومبیک" نے لکھا
میرے والد کچھ نہیں کرتے تھے، پھر بھی مجھے ان کی اتنی کمی کیوں محسوس ہوئی؟
- جب میں چھوٹی تھی، تو مجھے لگتا تھا کہ والد فریج کے بلب کی طرح ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں فریج کا بلب ہوتا ہے، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جب ہم فریج کا دروازہ بند کرتے ہیں تو وہ کیا کرتا ہے۔
- میرے والد ہر صبح گھر سے نکلتے تھے، اور شام کو واپس آکر ہمیں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
- جب کوئی اچار کا مرتبان نہیں کھول پاتا تھا تو وہ اسے کھول دیتے تھے۔
- وہ گھر میں واحد شخص تھے جو اکیلے تہہ خانے میں جانے سے نہیں ڈرتے تھے۔
- شیو کرتے وقت وہ اپنے چہرے کو زخمی کر لیتے تھے، لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر انہیں چومتا
یا ان کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔
- جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو وہی فارمیسی جاکر دوائی لاتے تھے۔
- وہ ہمیشہ مصروف رہتے، گھر کے دروازے کے پاس گلاب کی شاخیں کاٹتے رہتے، اور ہم انہیں کانٹوں کی چبھن سے تکلیف میں دیکھتے۔
- وہ میرے سکیٹ بورڈ کے پہیوں کو چکنا کرتے تاکہ وہ تیزی سے چل سکے۔
- جب مجھے اپنی سائیکل ملی، تو وہی اسے پکڑتے اور میرے ساتھ دوڑتے، اور ایک ہزار کلومیٹر تک دوڑنے کے بعد میں نے اسے خود سنبھالنا سیکھا۔
- وہی میری سکول کی رپورٹ کارڈز پر دستخط کرتے تھے۔
- انہوں نے میری بے شمار تصویریں کھینچیں، لیکن خود کسی میں نظر نہیں آئے۔
- وہی میری ماں کی ڈھیلی کپڑے لٹکانے کی رسیوں کو ٹھیک کرتے تھے۔
- مجھے دوسرے بچوں کے والدین سے ڈر لگتا تھا، لیکن اپنے والد سے
نہیں۔
- ایک بار میں نے ان کے لئے چائے بنائی، جو دراصل میٹھے پانی کا ایک گلاس تھا، اور انہوں نے چھوٹے سے کرسی پر بیٹھ کر اسے لذیذ کہا اور بہت آرام دہ نظر آئے۔
- جب میں "گھر گھر" کھیلتی تھی، تو میں "گڑیا ماں" کو بہت سے کام دیتی تھی، لیکن "گڑیا باپ" کو کیا کام دوں، یہ نہیں جانتی تھی۔ اس لئے میں اسے کہتی کہ میں کام پر جا رہا ہوں، اور پھر اسے بستر کے نیچے پھینک دیتی۔
ایک صبح، جب میں نو سال کی تھی، میرے والد کام پر جانے کے لئے نہیں اٹھے۔ وہ اسپتال گئے اور اگلے دن انتقال کر گئے۔
میں اپنے کمرے میں گئی، اور بستر کے نیچے "گڑیا باپ" کو تلاش کیا، جب میں نے اسے پایا، تو اس کی دھول جھاڑی، اور اسے بستر پر رکھا۔
مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کا جانا مجھے اتنا درد دے گا، لیکن ان کا جانا اب بھی مجھے بہت تکلیف دیتا ہے، اور مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔
چٙلو
جُولٙاہٙوں کے پٙاس چلتے ہیں
جِن کی مٙحبّت میں
نٙفاسٙت ہے
کیونکہ وہ سٙارا دِن دٙھاگٙوں کو جوڑتے ہیں
تٙوڑنا تو اُنہوں نے سِیکٙھا ہی نہیں٠٠٠
وہ مجھے کیوں چاہے اور کیوں یاد کرے
بھلا یکطرفہ محبت کی بھی کوئی اوقات ھوتی ہے
اس سے زیادہ کرے بھی تو کیا
لفظوں سے آگ نہیں بجھتی
نظموں سے زخم نہیں بھرتے۔۔۔
غلطی سے چلا گیا ہوگا
شوکت تھانوی کی جب پہلی غزل چھپی تو انہوں نے رسالہ کھول کر میز پر رکھ دیا تاکہ آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے۔
مگر شامت اعمال سب سے پہلے ان کے والد صاحب کی نظر پڑی،
انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا گویا کہ چور پکڑ لیا ہو۔
والدہ صاحبہ کو بلا کر انہوں نے کہا آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں۔
ہمیشہ غیر کی عزت تیری محفل میں ہوتی ہے
تیرے کوچے میں جا کر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں یہ وہاں جاتا ہی کیوں ہے کس سے پوچھ کر جاتا ہے؟
والدہ بیچاری خوفزدہ آواز میں بولیں۔
”غلطی سے چلا گیا ہو گا"
میں چہچہانا سیکھوں گا اور ایک اداس چڑیا سے باتیں کروں گا جس کی پسند کی شادی نہیں ہوئی ہو گی .
میں اس چڑیا سے گھونسلہ بنانا سیکھوں گا کہ محبت کیسی بُنی جاتی ہے .
اسے بتاؤں گا کہ ہم انسان زمینوں پہ قبضہ کیسے کرتے ہیں پھر کیسے ان پہ امیروں کے لیے ہاؤسنگ سکیمیں بناتے ہیں .
میں اسے ایک جھونپڑی کے دکھ بتاؤں گا جس کی دیواریں شاپر کی ہوتی ہیں ۔۔۔
میں چیونٹیوں کی زبان سیکھوں گا اور ایک لنگڑی چیونٹی سے باتیں کروں گا جس کی ٹانگ تیز ہوا کے چلنے سے ٹوٹی ہو گی
میں اس چیونٹی سے اپنے وزن سے سات گنا بھاری روٹی کا چھوٹا ذرہ اٹھانا سیکھوں گا.
میں اسے بتاؤں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain