حد ادب گلزار کو خط لکھو کہ تمہاری نظمیں کسی بھی طور ڈپریشن کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں جان کیٹس اور نزار قبانی کو ای میل کرو کہ تمہیں پڑھنے والے رومانیت کی بجائے خودکشی پہ مائل ہو رہے ہیں حافی کو بتاؤ کہ جب اک بستر کسی جسم کی سلوٹوں کی تھکن سے چور ہو گیا تو نیند کی گولیاں ایجاد ہوئیں لوگ اب راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے نہیں بلکہ آسمان کو شکوہ کناں نظروں سے تکتے رہتے ہیں چاند پہ جانے والوں کو تنبیہہ کرو کہ ٹیکنالوجی کی رفتار آہستہ رکھیں تمہارے قدموں کے نیچے انسانیت مسلتی جا رہی ہے
میں چھوٹاسا تھا مسجد میں اعلان ہوا فلاں ابن فلاں فوت ہو گیا میں نے ماں سے پوچھا ماں بندہ مرتا کیسے ہے ؟؟ ماں نے بتایا ہائی ہوتی ہے اور بندہ مر جاتا ہے۔ پھر پوچھا ماں یہ ہائی کیسے ہوتی ہے؟؟ ماں بولیں جب بندہ ٹائم پر دودھ نہیں پیتا، کھانانہیں کھاتا تو ہائی ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا مجھے بھی ہائی ہو گی تو مر جاوں گا؟؟ ماں تھی جواب نہیں دے سکی ماتھا چوم کر بولیں تم وقت پر دودھ پیا کرو کھانا کھایا کرو تمھیں ہائی نہیں ہوگی۔ آج سوچتا ہوں ماں سے پوچھوں ماں مجھے ہائی بہت ہوتی ہے میں مرتا کیوں نہیں۔؟؟؟
کوئی نہیں ہے جو اس کو جا کر یقین دلائے کہ اب بھی اس کے گماں میں اکثر ذرا سی آہٹ پہ چونکتے ہیں. جو اس کی قامت کے شک میں ڈالے ہم اس کو مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں .. ...
برگد پچھلی گلی کے کونے والے سنسان مکان میں بالاخر لوگ بس گئے ہیں۔تم تو کہتی تھیں کہ برگد کا درخت اس گھر کو بسنے نہیں دیتا ہے؟؟ کہ برگد اپنے پرانے مالک کے انتظار میں ہے۔ وہ اپنے مکان میں کسی اور کو نہیں بسائے گا۔ پر نئے مکینوں نے برگد پر جھولا لگایا ہے۔اس کی چھاوں میں چارپائیاں ڈالی ہیں۔ انھوں نے برگد سے دوستی کر لی ہے یا شاید برگد نے ان سے دوستی کر لی ہے۔ شاید برگد بھی تھک گیا ہو، تنہائی برگد کی شام کا سبب بن رہی ہو، وحشت اسے کھوکلا کر رہی ہو، اکیلا پن جڑوں کو کاٹ ڈالتا ہے، دل بوڑھا کر دیتا ہے۔ سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم مجھے برگد مت ہونے دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم میرے دل کے بوڑھا ہونے سے پہلے لوٹ آنا۔۔۔ شب بخیر ۔۔ ۔