Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں مین تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ہواؤں میں ، اوس قطروں کے آئینوں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں خاک ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی راکھ دریا میں ڈال دینا
میں راکھ بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا

Offline
 

میں جیئے ھوئے لمحے کو ایک بار پھر سے جینا چاہتا ھوں۔میں ان دھندلے نقوش کی تجسیم چاہتا ھوں۔جو ماضی کے گرداب میں کھو چکے ھیں۔میں اس گیت کو ایک بار پھر سے سننا چاہتا ھوں۔جسے ماں لوری کہہ کر اپنی نا ہموار آواز میں میرے کانوں میں انڈیل دیتی۔
اور میں اس ہںوا سے ملنا چاہتا ہوں۔جو دو کمروں کے مختصر مکان کے چوبارے کی بالکونی میں نومبر کی گیلی راتوں میں اس وقت مجھ سے ملتی۔جب شام کی نیلی سہاگن رات کی بیوہ کا روپ دھار کر اپنی کالی قبا میں ستاروں کے آنسو بھر لیتی۔تب یہ ہوا میری بغلوں میں یوں گھسنے کی

Offline
 

کوشش کرتی کہ میرے لاغر وجود پہ لٹکتی قمیض غبارہ بن جاتی۔ہوا کی یہ اخلاق باختگی میرے کمزور وجود میں ٹھنڈی پھریری بن کر دوڑتی۔تب میں ھوا کے وجود کو دیکھنا چاہتا۔جو طویل گلی کے آخری سرے پر بجلی کے کھمبے پر اس مومی لفافے کے ترنگے صورت مجھے نظر آتی۔جو کبھی کسی بچے۔کی گڈی تھا۔ایک عرصے تک میرے ذہن میں ھوا۔کی یہی صورت رہی۔
اور میں اپنی تمام راتوں کی مسلی ہوئی نیند تیاگ کر اس

Offline
 

شب کو ادھار لانا چاہتا ھوں۔جب مختصر سے کمرے میں بچوں کی کثرت میں امی کو سب سے فالتو میں ہی نظر آتا۔اور امی مجھے اٹھا کر دادی کی بغل میں انڈیل دیتی۔اور دادی مجھے لاکر اس کمرے کی کشادہ کھاٹ پر انڈیل دیتی ۔جس کے دیوار ودر سے زرد بلب کی روشنی بہہ رہی ہوتی۔تب دادی ﷲ سے راز ونیاز میں مصروف ہوجاتی۔اور ہل ہل کر وجد کے عالم میں وظائف پڑھتی۔اور دادی کے ھونٹوں کی حرکت سے آزاد ہونیوالی کھس پھس کھس پھس سے کمرے کی خاموشی ایکطرف چپ چاپ کھڑی ہانپتی رہتی۔اور جب دادی اس راز ونیاز سے فارغ ہو چکتی۔تو مجھ پر پھونک کا ایک لمبا جھونکا چھوڑ کر اپنے پہلو میں لٹا کر اپنے کھردرے ہاتھوں کی ہتھیلی میرے چہرے کے نیچے رکھ دیتی۔جن کی پشت کریلے کے کھال سے زیادہ جھریاں لیئے تھی۔اور لمس کھجور سے زیادہ میٹھا۔تب دادی مجھے وہ کہانی سناتی جو بار

Offline
 

بار سننے سے پہلے گھس پٹی اور مزید سننے سے پھٹی پرانی ہو چکی تھی۔میں یہ پھٹی پرانی کہانی سنتے اور دادی کے۔رضائی سے زیادہ نرم پوپلے وجود کو محسوس کرتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتا۔میں دادی کے اس پوپلے وجود کی گرمی کو اپنے اس ہسپانوی کمبل میں ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔جو میرے پرفیوم کی مہک سے معطر ھے۔
اور میں سانس لینا چاہتا ہوں۔اس فضا میں جو دادی کے حقے کے چلم سے اٹھنے والے دھوئیں سے کسیلی ھے۔جو مشرقی سمت میں اس دیوار کے ساتھ رکھا ھے۔جس کے اوپر روشندان کی سیمنٹ کی جالی سے ہر صبح تین شعاعیں اترتی ہیں۔جو غبار سے بھری ہوتی ہیں۔میری آنکھیں ان ذرات سے باتیں کرتی ہیں۔اور میں اپنی انگلیوں کے درمیان آخری سانسیں لیتے کیوبا کے سگارکے تمباکو کی نفیس تلخی میں گڑ کی چاشنی کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔میں آخری بار اسطرح سے رونا چاہتا ھوں۔جیسے پہلی بار رویا تھا

Offline
 

مجھے ہمیشہ سے لگتا ھے۔تصویروں کی بھی ایک دنیا ہوتی ھے۔ تصویروں میں بسنے والے یہ کردار اتنے بھی چپ اور ساکت نہیں ہوتے جتنے یہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو بس یہ جھوٹ موٹھ اداکاری کرتے ہیں۔ ورنہ یہ ہم سے نظر بچا کر ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں۔ خالی کمروں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور قہقہے بھی لگاتے ہیں۔اور ہماری غیر موجودگی میں ہماری چغلیاں بھی کرتے ہیں۔ بس جونہی خاموش راہداریوں میں قدموں کی آہٹ پاتے ہیں ۔ پھر ایک دم سے پہلے کی طرح ہوجاتے ہیں۔ چپ
صامت اور ایستادہ !!!
تصویروں سے محبت کے نام

Offline
 

شاموں سے کیا رشتہ ھے
سورج کی کیا لگتی ھو

Offline
 

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
...

Offline
 

باتیں سمجھ نہیں پاتے ہیں لوگ
دکھ تو پھر بے زبان ھوتے ھیں
...

Offline
 

مصلحت کہتی ہے وہ آۓ تو کیوں آۓ یہاں
دل کا یہ حال کہ ہر آہٹ پہ دھڑک جاتا ہے۔

Offline
 

ہمارا کیا ہے , جو ہوتا ہے جی اُداس بہت
تو گُل تراشتے ہیں ، تِتلیاں بناتے ہیں

Offline
 

اکیلے کس طرح حل کریں
عشق اجتماعی مسئلہ ھے

Offline
 

رنجِ شبِ فراق کی مٹ جائیں سختیاں
یوں ہی اگـــــر خیال تیرا مہــــرباں رھے

Offline
 

جذباتی بندہ اپنی زندگی کے اصول بنا بھی لے تو اس پر زیادہ دیر عمل نہیں کر سکتا۔ رات کو سونے سے پہلے خود کو اچھا خاصا موٹیویشنل لیکچر دے کر سوئے گا۔ لیکن اگلے ہی دن اسے کسی نہ کسی بات پر غصہ آجاتا کسی نا کسی بات پر اوور ایکسائٹڈ ہوجاتا ھے کسی بات پر خوَامخوا خوش ہو جاتا کسی پہ بے وجہ پیار آجاتا ھے کھڑے کھڑے نیک بننے کا شوق ہو جاتا ھے اور __ اور پھر اصول کھڑے کے کھڑے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ایک دوسرے کا

Offline
 

اک دنیا
بھول بھلیاں سی
اک گونگا، بہرا، اندھا دل

Offline
 

معاشرتی رویوں میں عزت کی بارگیننگ آج بھی بارٹر سسٹم پہ رائج ھے۔ یعنی لو اور دو

Offline
 

ایک دن کی بات
ہم باپ بیٹا ہر کام اکٹھے کرتے۔ تاش کھیلتے ، ٹی وی دیکھتے ، ساتھ فلم دیکھنے سینما جاتے، حتیٰ کہ کم عمر لڑکیوں کی طرح سوٹ بھی ایک جیسے سلواتے۔
اُن کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوۓ اگر دوسری جانب سے کوئی شاعر ، ادیب یا کوئی اور مانوس چہرہ نظر آتا
تو ممتاز مفتی رُک جاتے اور نہایت تپاک اور گرم جوشی سے باآوازِ بلند صدا لگاتے
" او یار تم کہاں ۔ ملتے ہی نہیں ہو ، کہاں غائب رہتے ہو۔ کمال آدمی ہو یار ملا تو کرو۔ "
جونہی وہ شخص رخصت ہوتا تو ممتاز مفتی نہایت سنجیدگی سے مجھ سے مخاطب ہوکر

Offline
 

پوچھتے،
" یار عکسی یہ کون تھا ؟ "
اِس پر ہم سب گھر والے ان کا بڑا مذاق اُڑاتے۔ لیکن ساری زندگی وہ یہی پوچھتے رہے " یار عکسی یہ کون تھا ؟ "
کہتے ہیں کہ انگریزی مصنف جی کے چسٹرٹن اکثر گھر کا راستہ بھول جاتے اور سڑکوں پر اجنبی لوگوں سے پوچھتے کہ آپ کو جی کے چسٹرٹن کا گھر معلوم ہے؟
عکسی مفتی صاحب کی کتاب " ایک دن کی بات " سے اقتباس

Offline
 

نیند وہ ٹکٹ ھے جو خوابوں کے رستے ان سے بھی ملا دیتی ھے جن سے اس دنیا میں ملاقات ممکن ہی نہیں ہوتی یا وہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہوتے _________!!!
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد نہیں ہوتی

Offline
 

لاکھ موسم نے رونقیں بخشی
ہم تیرے قحط سے نہیں نکلے