Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

دوستو آئیے ان دو الفاظ کے معنی سیکھیں ۔۔۔ برادرِ نسبتی کہتے ہیں بیوی کے بھائی کو ۔۔۔
جس کے بارے میں مثل مشہور ہے
ساری خدائی ایک طرف اور بیوی کا بھائی ایک طرف ۔۔۔۔
اس کے لیے سالا لفظ بھی بولا جاتا ہے ۔۔۔ لیکن یہ بولنے میں اتنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ اور اج کل تو اسے گالی کے طور پر بھی بولا جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے سالا لفظ بولنے سے احتراز کرنا چاہیے
خواہرِ نسبتی کہتے ہیں بیوی کی بہن کو ۔۔۔ اس کو سالی بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔ مگر سالی لفظ بھی بولنے میں اتنا اچھا نہیں لگتا
اس لیے مشرقی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے برادرِ نسبتی اور خواہر نسبتی کہنا چاہیے ۔۔۔ اور یہی دو الفاظ بولنے میں اچھے لگتے ہیں

Offline
 

اندرا گاندھی روس کے دورے کیلئے ماسکو ایئرپورٹ اتری. وہاں ایئرپورٹ پر اس کے استقبال کیلئے پروٹوکول کے مطابق نہ روسی وزیراعظم آیا تھا نہ کوئی دوسرا ہم منصب. اس وقت اندر کمار گجرال وہاں سفیر تھا. اندرا گاندھی نے سفیر صاحب سے کہا سیدھا اپنے سفارت خانے پر جائیں گے.
سفارت خانے کے آس پاس کافی بھارتی آبادی تھی. اندرا گاندھی نے ان سب کے بچوں کو بلایا اور ان کے ساتھ کھیلنے لگی. وہاں کریملن اندرا گاندھی کیلئے سجایا گیا تھا. جب اندرا گاندھی نہیں پہنچی تو روسی وزیراعظم کو اپنی غلطی سمجھ آگئی. وہ اپنے سینیر لوگوں کے ساتھ اندرا گاندھی کو لینے پہنچ گیا. اس نے معذرت کی اور

Offline
 

کہا یہ سب کسی انتظامی غلطی سے ہوا.
اندرا گاندھی نے تب کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی غصہ نہیں لیکن میں کروڑوں لوگوں کی نمائندہ بن کر یہاں آئی ہوں. وہ کروڑوں لوگ عزت کے مستحق ہیں. عزت ایسے ہی کرائی جاتی ہے لیکن یہ تب ہوتا ہے جب آپ خود کو عوام کا نمائندہ سمجھیں.
عزت دو طرفہ گلی ہے. ایک طرف سے آپ عزت دیتے ہیں تو دوسری طرف سے یہی عزت پلٹ کر آتی ہے. ہمارے اربابِ اختیار کی عزت دُنیا نے چھوڑ دی ہے. دُنیا ان کو بائیس کروڑ کی عوام کا نمائندہ سمجھ کر جائز عزت نہیں دیتی. یہ بھی اس بے عزتی پر راضی ہو کر بتاتے ہیں ہم خود کو عوامی نمائندہ سمجھتے ہی نہیں . البتہ اپنا ذاتی غصہ اپنی عوام پر یہ ضرور نکالتے ہیں.

Offline
 

یہ لفظوں کی شرارت ہے ،سمجھ کر کچھ بھی لکھنا تم۔۔۔
محبت لفظ ہےلیکن،یہ اکثر ہو بھی جاتی ہے۔۔۔

Offline
 

"محبت میں ہم بچوں کی طرح ہیں، توجہ ہمیں خوش کرتی ہے اور غفلت ہمیں رلا دیتی ہے۔ "

Offline
 

جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔۔۔
تم بھی اسے ضرور اچھے لگتے ہو۔۔۔

Offline
 

آج بازار میں ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہو گئی میں نے کہا یار تم تو کافی بوڑھے ہو گئے ہو
وہ بےغیرت بولا بابا جی آپ کو پہچانا نہیں

Offline
 

ناصر کاظمی کتوں سے بہت ڈرتے تھے۔ کتے کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل جاتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ پیٹ میں آٹھ ٹیکے لگوانے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنا سفر دو فرلانگ اور لمبا کر لے۔ انہوں نے چڑیوں‘ راستوں‘ گلیوں اور سڑکوں سے آشنائی پیدا کی مگر کتے سے راہ ورسم نہ بڑھا سکے۔ کبھی کبھی وہ اس خوف سے کسی نہ کسی کو اپنا ہم سفر بنا لیتے تھے جو انہیں گھر تک پہنچا آئے۔
شدید سردی کا موسم تھا۔ رات کو ایک بجے مجھے ہاسٹل کے چپڑاسی نے کہا کہ آپ کو ناصر کاظمی بلا رہے ہیں۔ میں نیچے اترا تو ولز ہوسٹل کے لان میں ناصر کاظمی ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے

Offline
 

کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پڑھ رہا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم پڑھ رہے ہو۔ رات کا قافلہ روانہ ہونے کو ہے۔‘‘
میں اپنے کمرے میں گیا۔ میرا روم میٹ دانش رضا سو رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اس کا اوورکوٹ اٹھایا جو اس نے پچھلی شام ہی لنڈے سے خریدا تھا اور نیچے اتر کر ناصر کاظمی کے ساتھ ہو لیا۔ انار کلی‘ سٹیشن‘ میکلوڈ روڈ مال سے ہوتے ہوئے ہم کرشن نگر میں داخل ہوئے۔ تین بج چکے تھے۔ کتے بوکھلائے ہوئے پھر رہے تھے۔ کتوں کے سلسلے میں‘ میں ناصر سے بھی زیادہ ڈرپوک تھا مگر میں نے کبھی ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ہم کتوں سے بچتے بچاتے ناصر کاظمی کے گھر تک آئے۔ انہوں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا وہ

Offline
 

اندر داخل ہوئے۔ مجھے خدا حافظ کہا اور دروازہ بند کر لیا۔ میں واپسی کے لئے پلٹا تو دس کتوں کا ایک جاندار دستہ میرے سامنے کھڑا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا تو وہ بھونکنے لگے۔ میں چلا تو پیچھے دوڑے۔ میں دوڑا تو انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ناصر کاظمی کا گھر بالکل چند قدم پر تھا۔ مجھے اور تو کچھ سوجھا نہیں میں نے اوورکوٹ اتار کر چاروں طرف لہرایا تو کتے اور شیر ہو گئے۔ اپنے اس دفاعی قدم میں میں نے ذرا تیزی دکھائی تو کوٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک کتے پر جا گرا اور گرا بھی اس طرح کہ اوورکوٹ کے بازوؤں میں اس کا سر پھنس گیا۔ وہ اس وقت آفت ناگہانی سے گھبرا گیا اور اوورکوٹ کے بازو سے

Offline
 

اپنا سر نکالنے کے لئے چاروں طرف گھومنے لگا۔ کتے کو اپنے سر کی پریشانی تھی۔ مجھے اس کوٹ کی پریشانی تھی جو دانش رضا نے کل خریدا تھا۔ کتے کے چاروں طرف چکر لگانے سے سب کتے کوٹ کو اک بلا سمجھ کر بھاگ گئے اور میں کتے سے کوٹ چھیننے کی تگ ودو کرنے لگا۔ کتا 50 گز کے دائرے میں دیر تک بھاگتا رہا اور میں کتے کے پیچھے دوڑتا رہا۔ آخر کتے نے زور لگا کر سر کو کوٹ کے بازو سے نکالا۔ کوٹ اچھل کر دور جا گرا۔ کتے کے چہرے پر بلا کا خوف تھا۔ اس نے چند لمحے کوٹ کے بے ترتیب بکھرے بازوؤں کو دیکھا اور پھر بھونکنے کی بجائے ایک خوفناک چیخ مار کر بھاگ گیا۔ میں نے جا کر کوٹ اٹھایا تو ناصر کاظمی نے اپنی کھڑکی سے جھانک کر کہا:
’’یار کتے سے بچنے کا یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔ گڈ‘ میں یوں ہی ڈرتا رہا۔ کل میں بھی ایک اوورکوٹ خریدوں گا۔‘‘ اور کھڑکی بند کر لی۔
-پروفیسر عقیل روبی

Offline
 

اک تیرا ہی خیال ہے میرے پاس۔
ورنہ کون ہنستا ہے اکیلے بیٹھ کر۔
شب بخیر

Offline
 

کیا وجہ ھے ۔ کہ ہمیں زندگی میں ہمیشہ مغرور برتاؤ کرنیوالے لوگ ہی پرکشش لگتے ھیں۔ اور دوستانہ مزاج رکھنے والوں کو ہم قابل اعتناء نہیں سمجھتے۔ کیا یہاں بھی علم معاشیات کا وہ اصول لاگو ہوتا ھے۔ کہ جو چیز مقدار یا تعداد میں زیادہ ہوتی ھے۔ قیمت میں ارزاں ہو جاتی ھے۔ یا پھر خدا کی بنائی یہ متجسس مخلوق ہمیشہ اسرار کے پردوں میں جھانکنا چاہتی ھے۔ جو جتنا دور ھے۔ اتنا ہی پرکشش ھے۔ یا پھر انسان سدا کا متجسس ھے۔ جسے جان کر اور جانچ کر فتح کرلیتا ھے۔ اسے بے وقعت کرکے نئے جزیروں کی دریافت کو نکل پڑتا ھے

Offline
 

کاٹو ں ادھر سے تو پھو ٹتا ھے ادھر سے،
پھیل گیا مجھ میں و ہ سر طا ن کی صو ر ت
...

Offline
 

چنار اور اخروٹ کے درخت کے درمیان مکالمہ
کسی درد مند کے کام آ, کسی ڈوبتے کو اچھال دے
کہتے ھیں کہ پرانے زمانے میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے منبر بنائے جاتے تھے اِس لئے کہ اُس کی لکڑی بہت مضبوط اور پائیدار ھوتی ھے۔ یہ پھل دار بھی ھوتا ھے اور سایہ بھی کافی گھنا ھوتا ھے۔
دوسری طرف چنار کا درخت ھے جس سے پرانے زمانے میں دار (پھانسی گھاٹ) بنائے جاتے تھے۔ اِس میں کوئی پھل بھی نہیں لگتا اور کوئی خاص نہیں ھوتا۔

Offline
 

ایران کے مشہور تُرک نژاد شاعر شہریارؔ نے اِن دو درختوں میں بحث کو بہت خوبصورتی سے شعر میں کچھ یوں ڈھالا ھے
( منبر نے طعنہ بھرے لہجے میں چنار کے درخت سے کہا
اے بے پھل کے درخت! کس زعم میں اپنی گردن اکڑائے کھڑے ھو؟
تمہیں نہیں لگتا کہ درختوں کی برادری میں تم باعث ننگ و بدنامی ھو ؟
کہ تم سے صرف پھانسی گھاٹ ھی بنائے جاتے ھیں
( اُس دلیر درخت کو بہت غصّہ آیا، اُس نے منبر کی جانب اپنا رُخ موڑ کے کہا)
اگر تمہارے منبر اِتنے ھی فائدہ مند ھوتے تو لوگوں کو پھانسی سے جھولنے کی نوبت ھی نہ آتی
~ حکایاتِ دلنشینِ فارسی
سوزِ رومی

Offline
 

تو برائے وصل کردن آمدی،
نے برائے فصل کردن آمدی!
“آپ کو اس دنیا میں جدائی اور نفاق پھیلانے کے لیے نہیں، بلکہ اتحاد اور محبت پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
مولانا جلال الدین رومی

Offline
 

مَیں جانتا ھوں ببُول اور گلاب کے معنی
ببُول یعنی زمانہ ، گلاب یعنی تُو !
کہاں یہ ذرّہء تاریک بخت یعنی مَیں
کہاں وہ نُور بھرا ماھتاب یعنی تُو !

Offline
 

مولا خوش رکھے 🤣🤣🤣
یہ بادشاہ کا عزیز ترین حجام تھا
یہ روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتاتھا ‘ اس دوران بادشاہ سلطنت کے امور بھی سرانجام دیتا رہتا اور حجامت اور شیو بھی کرواتا رہتا تھا ۔
ایک دن نائی نے بادشاہ سے عرض کیا
”حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب ہوں‘ میں آپ کا وفادار بھی ہوں‘ آپ اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے“
بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا
”میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ٹیسٹ دینا ہوگا“
نائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا
”آپ حکم کیجئے“

Offline
 

بادشاہ بولا
”بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہے مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو“
نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا ”جی جہاز وہاں کھڑا ہے“
بادشاہ نے پوچھا ”یہ جہاز کب آیا“ نائی دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا‘ واپس آیا اور بتایا ”دو دن پہلے آیا“
بادشاہ نے کہا ”یہ بتاﺅ یہ جہاز کہاں سے آیا“ نائی تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا‘ واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا ”جہاز پر کیا لدا ہے“
نائی چوتھی بار سمندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
قصہ مختصر نائی شام تک سمندر اور محل کے چکر لگا لگا کر تھک گیا