Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا ”کیا سمندر پر کوئی جہاز کھڑا ہے"
“وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا
”جناب دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیاتھا ‘ اس میں جانور‘ خوراک اور کپڑا لدا ہے‘ اس کے کپتان کا نام یہ ہے‘ یہ چھ ماہ میں یہاں پہنچا‘ یہ چار دن مزید یہاں ٹھہرے گا‘ یہاں سے ایران جائے گا اور وہاں ایک ماہ رکے گا اور اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں اور میرا مشورہ ہے ہمیں بحری جہازوں پر ٹیکس بڑھا دینا چاہئے“
بادشاہ نے یہ سن کر حجام کی طرف دیکھا
حجام نے چپ چاپ استرااٹھایا اور عرض کیا
”مولا خوش رکھے ! کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں

Offline
 

اک اسی با ت کا تو رونا ہے۔
۔
۔
۔
چا ئیے وہ کہ جو نہیں ملتا

Offline
 

مجھے ایک بار ٹرین سے لاھور جانے کا اتفاق ہوا میں جس ڈبے میں سفر کر رہا تھا اس میں ایک بوڑھا بھی بیٹھا تھا۔ اس کی عمر مجھ سے کافی زیادہ تھی اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس کے جسم سے عجیب سی سمیل آ رہی تھی ایسے لگتا تھا کہ وہ دن بھر جسمانی مشقت کرتا رہا ہے اور بار بار کپڑے پسینے میں شرابور ہونے کی وجہ سے اس سے ایسی ھمک آ رہی ہے۔میں حسب عادت اس سے باتیں کرنے لگا گو طبیعت نہیں چاہ رہی تھا تجسس کی حس بیدار ہوئی او اس سے باتیں کرنے لگا

Offline
 

۔میں نے پوچھا بابا کہاں جانا ہے؟ وہ مسکرایا اور بولا گھر۔
اب میں تلملایا بھی لیکن مجھے لگا کہ وہ کوئی عام شخص نہیں کوئی بابا ہے جو اس نے مجھے اتنا مختصر اور جامع جواب دیا ہے۔
میں اس کے قریب ہو گیا اور پوچھا
"جوانی اچھی ہوتی ہے کہ بڑھاپا"
اس نے کہا جوانوں کے لیے بڑھاپا اور بوڑھوں کے لیے جوانی۔
میں نے کہا وہ کیسے ؟
بولا " بوڑھے اگر جوان ہو جائیں تو شاید وہ پہلے والی غلطیاں کبھی نہ دہرائیں اور اگر جوان بوڑھوںکو تجربے کے طور پر لیں تو ان کی جوانی بے داغ اور بے عیب گزرے۔
اس بوسیدہ کپڑوں والے بوڑھے نے اتنی وزنی بات کر دی کہ بڑے مفکر اور دانشور ایسی بات نہیں کر سکتے۔
اشفاق احمد

Offline
 

سب کی آنکھوں سے حل نہیں ہوتا کیا معمہ ہے اس کی آنکھوں میں
حسن آدھا ہے مسکراہٹ میں اور پورا ہے اس کی آنکھوں میں

Offline
 

جب آپ زندگی سے خوش ھونا چاھیں اور زندگی اسکی اجازت بھی نہ دے تو کوئی بو نگی مار لیا کرو
شب بخیر

Offline
 

میری فالو لِسٹ میں کوئی ایک آدھ نیک بندہ یا بندی بھی نہیں؟
جس کی دُعا میں اثر ہو :
اگر ہے تو دُعا کریں مجھے کوئی ایک نیک بندی ٹکر جائے
وہ بھی زندگی بھر کیلئے- آمین
نوٹ:☜ نیک کے ساتھ ساتھ، خوبصورت، پڑھی لکھی اور دھیمے مزاج والی بھی شامل سمجھا جائے، اور بہت خاص یہ کہ میرا احترام و خیال کرے اور لوڈ شیڈنگ کے دوران میرے لیے مور پنکھ جھلا کرے

Offline
 

کلر سینس کی کہانی _________
بھائی وہ اولیو گرین والہ تو دکھائیں ذرا ۔
کونسا یہ والا باجی ___ ؟؟
ارے نہیں ۔ یہ تو اسپرنگ گرین ھے۔وہ ادھر وآلا۔
یہ ___ ؟؟
اوہو نہیں ۔ یہ تو پیرٹ گرین ھے۔وہ کینڈی پنک کے ساتھ والہ۔
یہ والا جی ؟
( قدرے جھنجھلاتے ہوئے) بھئی یہ تو سی گرین ھے
یہ تو نہیں کہہ رہیں آپ ؟؟
اففف۔ میں اولیو گرین کہہ رہی ہوں اور آپ ____ !!!
جی

Offline
 

یہ ۔۔۔۔ ( دکاندار ہچکچاتے ہوئے)
یہ ایمرلڈ گرین ھے۔ ( دانت پیستی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ) وہ لائلک شیڈ کے ساتھ ھے ناں ریڈ روبی اس کے ساتھ جو سٹرابیری پنک ھےاور اس کے ساتھ جو کولا براؤن ھے۔ اس کے بالکل نیچے میجنٹا کے ساتھ جو کریپ کلر ھے ناں۔ اور اس کے ساتھ جو لیمونیڈ ھے۔ان کے درمیان وآلا ھے اولیو گرین ۔
دکاندار ۔ ( سمجھتے ہوئے ) اوئے نوید ایدھر آ _____ باجی نوں او کھٹے رنگ دے نال جڑا ہرے رنگ دا پرنٹ اے او دکھا

Offline
 

یادیں بھی اون کے رنگین گولوں کی مانند ھوتی ھیں۔۔۔بس سرا پکڑنے کی دیر ھے کھلتی ھی چلی جاتی ھیں۔۔

Offline
 

"ڈانٹ ڈپٹ" سے کام نہ چلے تو "ڈنڈا" بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے
پاکستان میں اردو کی ایک کتاب کے جی میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے ، جس میں "ڈ" سے ڈاکٹر بتایا گیا ہے
حیرت ہے کہ نصاب تیار کرنے والوں کو حرف "ڈ" سے اردو کا کوئی لفظ ہی نہ مل سکا اور "ڈ" سے ڈاکٹر (جو کہ اردو زبان کا لفظ ہی نہیں ہے) پر گزارہ کر لیا گیا
اب سوشل میڈیا پر "ڈھول" پیٹ کراس بات کا "ڈھنڈورا" کرنا پڑ رہا ہے کہ "ڈ" کے الفاظ "ڈالنا" کوئی اتنا مشکل امر بھی نہیں ہے

Offline
 

اگر آپ کی ناراضی کا "ڈر" نہ ہو تو "ڈ" کو ذرا "ڈھونڈنا" شروع کریں
*"ڈانٹ ڈپٹ" سے کام نہ چلے تو "ڈنڈا" بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے ۔ "ڈ" سے "ڈھول" نہ پیٹیں، "ڈگڈگی" نہ بجائیں، الفاظ کا "ڈھیر"
اکھٹا نہ کریں تو بھی اردو کے کنویں سے ایک آدھ "ڈول" ہی کافی ہوگا۔
"ڈبہ" سے "ڈبیا" تک، "ڈراؤنے" قوانین سے لے کر تعلیم کے "ڈاکوؤں" تک، امیروں کے "ڈیروں" سے لے کر غریب کی "ڈیوڑھی" تک اور پھولوں کی "ڈالی" سے لے کر سانپ کے "ڈسنے" تک "ڈ" ہر جگہ دستیاب ہے
سوچا "ڈبڈباتی" آنکھوں سے یہ "ڈاک"، بغیر کسی "ڈاکیہ" اور "ڈاک خانے" کے آپ تک پہنچا دوں کہ لفظوں کی مالا شاید نصاب کی کوتاہیوں کی "ڈھال" ثابت ہو"....!!!

Offline
 

ایک لڑکی دو پاگل
کچھ نفسیات کے طلبا ایک پاگل خانے میں ریسرچ کے لئے گئے۔۔وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک فرقت زدہ نوجوان ایک ربڑ کی گڑیا کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔۔۔ گاہے بگاہے وہ گڑیا کو چومتا ہے اور کہتا ہے کہ روبی۔۔۔ روبی۔۔۔ پلیز آ جائو۔۔میری پیاری! تم بن میری دنیا اندھیری ہے۔۔۔۔۔۔ پلیز آ جائو۔۔۔طلبا پر اس المناک منظر کا گہرا اثر پڑا۔۔۔ انہوں نے ڈاکٹر سے اس نوجوان کی کہانی پوچھی۔۔۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ نوجوان ایک روبی نامی لڑکی سے محبت کرتا تھا۔۔ وہ بھی اس کی محبت کا دم بھرتی تھی۔۔۔دونوں میں شادی کے عہد و پیمان بھی ہو چکے تھے لیکن اس لڑکی نے اس نوجوان سے بیوفائی کی۔۔۔ اس

Offline
 

نے اسے چھوڑ کر دوسرے نوجوان سے شادی کرلی۔۔۔ اس صدمے نے اس نوجوان کا دماغ فیل کر دیا اور اب یہ اس گڑیا کو سینے سے لگا کر کبھی روتا ہے کبھی آہیں بھرتا ہے۔۔۔۔۔یہ دردناک کہانی سن کر طلبا کا گروہ آگے چل دیا۔۔۔۔دو چار کمرے گزرنے کے بعد ان کو ایک اور نوجوان ایک کوٹھری میں بند نظر آیا، جو دیواروں سے سر ٹکراتا تھا، گریبان پھاڑا ہوا تھا، کبھی اپنے گالوں پر طماچے مارتا تھا، منہ سے غصہ کی شدت میں تھوک نکل رہا تھا،، بار بار چلاتا تھا'' دفع ہو جائو، نکل جائو میری زندگی سے، لعنت ہو تم پر۔۔۔ گیٹ لاسٹ''۔۔۔ ڈاکٹر نے اس نوجوان کی کوٹھری کے سامنے رک کر کہا ۔۔'' اور یہ وہ نوجوان ہے جس سے روبی نے شادی کی تھی

Offline
 

اسے کیا چاند سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ساجد
وہ اپنی کھڑکیوں کو بند کیوں دن رات رکھتا ھے

Offline
 

ایکس ۔ حرف آخر نہیں ھے۔
زندگی ایکس کے بعد آپ کو وائی اور زی کا آپشن بھی دیتی ھے۔
زندگی میں گنجائش رکھیں ۔
یہ آپ کو آسانیاں دے گی ۔

Offline
 

بکھیرتا کون ھے گلی میں خشک پتوں کو
ھوا کی بات مت کرنا ھوا تو پاگل ھے

Offline
 

تتلیاں پکڑنے کو دور جا نا پڑتا ہے

Offline
 

زندگی کتنی مختصر ھے۔ کتنی چھوٹی ھے۔ خواب ، خواہشیں، فرائض ، ذمہ داریاں اور مقاصد کتنے بڑے ہیں۔ کتنے وسیع ھیں۔ ہم ہر صبح تھنگز ٹو ڈو کی طویل لسٹ کے ساتھ اٹھتے ھیں۔ اور گھنٹے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لسٹ کے ساتھ ٹک مارک لگاتے چلے جاتے ھیں۔ پھر بھی رات گئے تک ان میں سے بہت سے کام پینڈنگ کی لسٹ میں چلے جاتے ھیں۔ یوں چوبیس گھنٹے کام کرنے کے باوجود پینڈنگ لسٹ کا گراف بڑھتا ہی چلا جاتا ھے۔ اور ڈن لسٹ کا گراف کہیں نیچے ہی رہ جاتا ھے۔ ہم اس گراف کو برابر کرنے کے چکر میں ہانپنے لگتے ھیں ۔ تھکنے لگتے

Offline
 

ہیں۔ اپنی سانسیں تک درست نہیں کر پاتے۔ کہ اچانک سے واپسی کا بزر بج اٹھتا ھے۔ لال بتی جل جاتی ھے۔ اور ہمیں سب کچھ ادھورا چھوڑ کر جانا پڑتا ھے۔ نہ چاہتے ھوئے بھی۔ یوں ایک ادھورا انسان ادھورے مقاصد کے ساتھ ادھوری زندگی گزار کر چلا جاتا ھے۔ اور پیچھے صرف ایک گونج رہ جاتی ھے۔
ان الانسان فی الخُسر