Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

میرا یہ وجود ہو کم سے کم،
کہیں ریت پر کسی نقش سا،،
تو بنائے تو میں___بنا کروں،
تو مٹائے تو میں__مِٹا کروں

Offline
 

کچھ خاص اور منفرد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گھر سے نکلنے کے بجائے اپنے کمروں میں ہی سکون پاتے ہیں۔ جب وہ کہیں جاتے ہیں، تو اپنی پسندیدہ تنہائی کو یاد کرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے چند ہی قریبی دوست ہوتے ہیں اور وہ بہت کم کسی سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کے فون ہمیشہ سائلنٹ پر ہوتے ہیں، نہ وہ کسی کے کال کا انتظار کرتے ہیں، نہ میسج کا۔ بلکہ، کسی کے بات کرنے یا گھلنے ملنے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جواپنے جذبات میں انتخابی ہوتے ہیں، کتابوں، سمندر، صحرا، سردیوں اور سکون سے محبت کرتے ہیں۔ اندھیرا اور تنہائی ان کے لیے نشہ آور ہوتی ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں اور اپنے خیالات میں مگن رہتے ہیں، کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں، اور ہم بہت کم ہیں۔ ہمیں سمجھنے والے بھی صرف ہم جیسے ہی ہوتے ہیں۔

Offline
 

عورت چیختے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور بولی میں غلام بن کر تھک چکی ہوں ! میں کھانا پکاتی ہوں، صفائی کرتی ہوں اور کپڑے دھوتی ہوں۔
صرف مرد ہی کیوں آزاد ہیں؟
شوہر نے کہا کیا میں واقعی آزاد ہوں؟
جبکہ تمہاری آنکھوں نے مجھے قید کر رکھا ہے اور وہ شرما کر کچن میں چلی گئی

Offline
 

امریکی مصنفہ اور صحافی "ایرما بومبیک" نے لکھا
میرے والد کچھ نہیں کرتے تھے، پھر بھی مجھے ان کی اتنی کمی کیوں محسوس ہوئی؟
- جب میں چھوٹی تھی، تو مجھے لگتا تھا کہ والد فریج کے بلب کی طرح ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں فریج کا بلب ہوتا ہے، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جب ہم فریج کا دروازہ بند کرتے ہیں تو وہ کیا کرتا ہے۔
- میرے والد ہر صبح گھر سے نکلتے تھے، اور شام کو واپس آکر ہمیں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
- جب کوئی اچار کا مرتبان نہیں کھول پاتا تھا تو وہ اسے کھول دیتے تھے۔
- وہ گھر میں واحد شخص تھے جو اکیلے تہہ خانے میں جانے سے نہیں ڈرتے تھے۔
- شیو کرتے وقت وہ اپنے چہرے کو زخمی کر لیتے تھے، لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر انہیں چومتا

Offline
 

یا ان کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔
- جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو وہی فارمیسی جاکر دوائی لاتے تھے۔
- وہ ہمیشہ مصروف رہتے، گھر کے دروازے کے پاس گلاب کی شاخیں کاٹتے رہتے، اور ہم انہیں کانٹوں کی چبھن سے تکلیف میں دیکھتے۔
- وہ میرے سکیٹ بورڈ کے پہیوں کو چکنا کرتے تاکہ وہ تیزی سے چل سکے۔
- جب مجھے اپنی سائیکل ملی، تو وہی اسے پکڑتے اور میرے ساتھ دوڑتے، اور ایک ہزار کلومیٹر تک دوڑنے کے بعد میں نے اسے خود سنبھالنا سیکھا۔
- وہی میری سکول کی رپورٹ کارڈز پر دستخط کرتے تھے۔
- انہوں نے میری بے شمار تصویریں کھینچیں، لیکن خود کسی میں نظر نہیں آئے۔
- وہی میری ماں کی ڈھیلی کپڑے لٹکانے کی رسیوں کو ٹھیک کرتے تھے۔
- مجھے دوسرے بچوں کے والدین سے ڈر لگتا تھا، لیکن اپنے والد سے

Offline
 

نہیں۔
- ایک بار میں نے ان کے لئے چائے بنائی، جو دراصل میٹھے پانی کا ایک گلاس تھا، اور انہوں نے چھوٹے سے کرسی پر بیٹھ کر اسے لذیذ کہا اور بہت آرام دہ نظر آئے۔
- جب میں "گھر گھر" کھیلتی تھی، تو میں "گڑیا ماں" کو بہت سے کام دیتی تھی، لیکن "گڑیا باپ" کو کیا کام دوں، یہ نہیں جانتی تھی۔ اس لئے میں اسے کہتی کہ میں کام پر جا رہا ہوں، اور پھر اسے بستر کے نیچے پھینک دیتی۔
ایک صبح، جب میں نو سال کی تھی، میرے والد کام پر جانے کے لئے نہیں اٹھے۔ وہ اسپتال گئے اور اگلے دن انتقال کر گئے۔
میں اپنے کمرے میں گئی، اور بستر کے نیچے "گڑیا باپ" کو تلاش کیا، جب میں نے اسے پایا، تو اس کی دھول جھاڑی، اور اسے بستر پر رکھا۔
مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کا جانا مجھے اتنا درد دے گا، لیکن ان کا جانا اب بھی مجھے بہت تکلیف دیتا ہے، اور مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔

Offline
 

چٙلو
جُولٙاہٙوں کے پٙاس چلتے ہیں
جِن کی مٙحبّت میں
نٙفاسٙت ہے
کیونکہ وہ سٙارا دِن دٙھاگٙوں کو جوڑتے ہیں
تٙوڑنا تو اُنہوں نے سِیکٙھا ہی نہیں٠٠٠

Offline
 

وہ مجھے کیوں چاہے اور کیوں یاد کرے
بھلا یکطرفہ محبت کی بھی کوئی اوقات ھوتی ہے

Offline
 

اس سے زیادہ کرے بھی تو کیا
لفظوں سے آگ نہیں بجھتی
نظموں سے زخم نہیں بھرتے۔۔۔

Offline
 

غلطی سے چلا گیا ہوگا
شوکت تھانوی کی جب پہلی غزل چھپی تو انہوں نے رسالہ کھول کر میز پر رکھ دیا تاکہ آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے۔
مگر شامت اعمال سب سے پہلے ان کے والد صاحب کی نظر پڑی،
انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا گویا کہ چور پکڑ لیا ہو۔
والدہ صاحبہ کو بلا کر انہوں نے کہا آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں۔
ہمیشہ غیر کی عزت تیری محفل میں ہوتی ہے
تیرے کوچے میں جا کر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں یہ وہاں جاتا ہی کیوں ہے کس سے پوچھ کر جاتا ہے؟
والدہ بیچاری خوفزدہ آواز میں بولیں۔
”غلطی سے چلا گیا ہو گا"

Offline
 

میں چہچہانا سیکھوں گا اور ایک اداس چڑیا سے باتیں کروں گا جس کی پسند کی شادی نہیں ہوئی ہو گی .
میں اس چڑیا سے گھونسلہ بنانا سیکھوں گا کہ محبت کیسی بُنی جاتی ہے .
اسے بتاؤں گا کہ ہم انسان زمینوں پہ قبضہ کیسے کرتے ہیں پھر کیسے ان پہ امیروں کے لیے ہاؤسنگ سکیمیں بناتے ہیں .
میں اسے ایک جھونپڑی کے دکھ بتاؤں گا جس کی دیواریں شاپر کی ہوتی ہیں ۔۔۔
میں چیونٹیوں کی زبان سیکھوں گا اور ایک لنگڑی چیونٹی سے باتیں کروں گا جس کی ٹانگ تیز ہوا کے چلنے سے ٹوٹی ہو گی
میں اس چیونٹی سے اپنے وزن سے سات گنا بھاری روٹی کا چھوٹا ذرہ اٹھانا سیکھوں گا.
میں اسے بتاؤں

Offline
 

گا کہ ہم انسانوں کو کتنی اقسام کی بھوک لگتی ہے ، اور ہماری بھوک معدے کے سائز سے کتنی بڑی ہوتی ہے۔
میں تتلیوں کی زبان سیکھوں گا ، پھولوں سے باتیں کروں گا اور کانٹوں سے لطیفے سنوں گا ۔
میں انہیں بتاؤں گا کہ ہم انسان تم پھولوں کو حسن کے استعارے کے طور پہ استعمال کرتے ہیں ۔
اسی لیے ہمارے ہاں ہر طرح کا حسن دولت کی نذر ہو جاتا ہے۔
میں کائناتی خاموشی کی زبان سیکھوں گا اور کہکشاؤں سے باتیں کرنے کے لیے " بلیک ہولز" کے دروازوں سے گزروں گا۔
میں دُور کسی ویران سی جگہ پہ جا کر جہاں کوئی بھی نہیں ہو گا ۔۔۔
خدا کو ہر سیکھی گئی زبان میں پکاروں گا !!
کہاں ہو ۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔ مجھ سے ملتے کیوں نہیں؟؟
اور رونے لگ جاؤں گا۔۔۔
بچوں کی زبان میں

Offline
 

وہ سامنے ہو تو موضوع گفتگو نہ ملے
۔
وہ لو ٹ جا ئے تو ہر گفتگو اسی سے۔
شب بخیر
۔۔۔

Offline
 

کیا تم جانتے ہو
کہ بچھڑنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں
ایک وہ,
جو مر جاتے ہیں
اور دوسرے وہ,
جو مرتے تو نہیں لیکن کسی وجہ سے ہمیشہ کے لئے دور چلے جاتے ہیں!
مرنے والوں کا غم منانے کے بہت سے آسان طریقے ہیں
کوئی روتا ہے, بین کرتا ہے, تو کسی کو اپنے بال نوچ کر تسکین ملتی ہے.
یہاں تک کہ میں نے بہت سے لوگوں کو سینہ کوبی کرتے بھی دیکھا ہے.
مرنے والوں کے دکھ میں یہ کہہ دینا بھی

Offline
 

تسکین کا ایک پہلو ہے کہ
"کُل نفس ذائقة الموت"
موت پر کسی کا بس نہیں
لیکن
زندہ بچھڑ جانے والوں کا غم منانا ہم دنیا دار لوگوں کے لئے اتنا سہل نہیں.
ہم نہ تو مجنوں کی طرح صحرا نوردی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بال نوچ سکتے ہیں.
اگر دیوانہ وار بین کرینگے تو دنیا رونے کا سبب دریافت کرے گی.
اس پر یہ تسلی بھی تو نہیں کہ بچھڑنے والا خدا کی پناہوں میں واپس لوٹ گیا ہے
اگر تمہارے پاس ایسا کوئی فارمولہ ہے جس سے آہ و فغاں کئے بغیر, زندہ بچھڑنے والوں کے غم میں کمی لائی جا سکے
تو خدارا مجھے بھی لکھ بھیجو..
میں شدت سے تمہارے جواب کا منتظر ھوں

Offline
 

میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ تمھارا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟
کہنے لگی کہ پیلا کلر۔
محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کی پسند سے بھی محبت کی جائے
کال میسجز پہ ایک طویل عرصہ بات چیت کے بعد آج اس سے ملاقات کا دن آ ہی چکا تھا۔
میں نے اس کی پسند کا خاص خیال رکھا تھا۔
اسے پیلا کلر پسند تھا۔
میں نے اسپیشل پیلے کپڑے سلوائے تھے اس دن کے لیے
پھر پیلی کیپ پہنی۔
پہلی گھڑی بازو پہ پہنی۔
پیلے جوتے پاؤں کی زینت بنائے۔
اور

Offline
 

تو اور دو تین دن تک برش نہیں کیا کہ دانتوں کا رنگ بھی اس کی پسند کا ہو جائے۔
آخر اسے دیکھ کے مسکراہٹیں ہی تو بکھریں گی
مکمل تیاری کے پیلی ٹیکسی میں بیٹھ کےجائے مقررہ پہ پہنچا تو وہ میرے پسندیدہ کلر یعنی سفید کلر کے لباس میں ملبوس پہلے سے موجود تھی
مجھے دیکھ کے حیرت سے اس کا منہ کھل گیا اور اس کے دانت بھی میرے پسندیدہ کلر یعنی سفید کی ترجمانی کر رہے تھے۔
اتنی محبت اور چاہت میرے لیے حیران کن تھی
مجھے پوچھنے لگی کہ یہ کیا بن کے آئے ہو
عرض کیا کہ تمھیں پیلا کلر پسند تھا نا اسی لیے بس تمھاری پسند کا خیال رکھا ہے۔
اور ساتھ ہی مسکرا دیا۔
اور مسکراہٹ سے جیسے ہی اس نے میری محبت

Offline
 

کی ایک اور نشانی دیکھی تو نظریں جھکا لی۔
شاید محبت سے مرعوب ہو گئی تھی۔
میں نے سوال کیا کہ کیسا لگ رہا ہوں ان پیلی چیزوں میں؟
کہنے لگی جیسے "کڑی" میں جلا ہوا پکوڑا لگتا ہے۔
برجستہ جواب دیا کہ تم بھی کسی میت سے کم نہیں لگ رہی اس سفید لباس میں۔
کہنے لگی تمھارے لیے میں میت ہوں اب۔۔
اور جانے لگی۔
پیچھے سے آواز دی کہ اپنے پسندیدہ کلر کی انگوٹھی تو لیتی جاؤ جو تمھارے لیے اسپیشل لایا تھا۔
وہ فوراً واپس پلٹی جیسے کڑی میں پکوڑا نہیں بلکہ بریانی میں لیگ پیس دیکھ لیا ہو۔
لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی اور وہ پیلی انگوٹھی جو پورے 30 روپے کی لی تھی ریڑھی سے اسے پاس ہی کے کچرا دان میں پھینکا اور نکل آیا وہاں سے۔
آخری نظر جو میری اس پہ پڑی تو وہ کچرا دان میں جھانک رہی تھی۔
منقول

Offline
 

ایک نوجوان کہتا ہے
میرا کسی بات پر اپنے والد سے کچھ ایسا اختلاف ہوا کہ ہماری آوازیں ہی اونچی ہو گئیں۔ میرے ہاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے میں ان کے سامنے میز پر بیٹے اور دروازہ دھڑام سے بند کرتے ہوئے اپنے
کمرے میں آگیا۔
بستر پر گر کر ہونے والی اس بحث پر ایسا دماغ الجھا کہ نیند ہی اڑ گئی۔ صبح یونیورسٹی گیا تو بھی دماغ کل والے واقعے پر اٹکا رہا۔ ندامت اور خجالت کے مارے، دوپہر تک صبر جواب دے گیا، میں نے موبائل نکالا اور اپنے اباجی
کو یوں پیغام بھیجا:

Offline
 

ہے کہ پاؤں کا تلوہ پاؤں کے اوپر کے حصے سے زیادہ نرم ہوتا ہے، گھر آ رہا ہوں، قدم بوسی کرنے دیجیئے گا تاکہ کہاوت کی تصدیق ہو سکے۔"
میں جب گھر پہنچا تو ابا جی صحن میں کھڑے میرا ہی انتظار کر رہے تھے، اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے سے لگایا اور کہا: قدم بوسی کی تو میں تمہیں اجازت نہیں دیتا، تاہم کہاوت بالکل سچی ہے کیونکہ جب تم چھوٹے سے تھے تو میں خود جب تیرے پاوں چوما کرتا تھا تو مجھے پاؤں کے تلوے اوپر والے ھے سے زیادہ نرم لگا کرتے تھے۔ یہ سن کر رونے کی اب میری باری تھی۔
والدین کی قدر کرو اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے