روٹی لینے تندور پر گیا تو دیکھا کہ تندور والے نے پنکھے کے ساتھ سگریٹ کی خالی ڈبیا باندھ رکھی تھی۔
میں اور پروفیسر آپس میں تکرار کرنے لگے۔
میرا کہنا تھا کہ پنکھے کا توازن بگڑ گیا ہے لہٰذا متوازن کرنے کے لئے ڈبیا باندھی گئی ہے جبکہ پروفیسر کا خیال تھا کہ پروں کی گردشی حرکت کو مطلوبہ رد عملی قوت مہیا کرنے کے لئے ڈبیا باندھی گئی ہے۔
ہاں ایک بات پر ہم دونوں متفق تھے کہ ڈبیا کا پروں کی آر پی ایم کی کمی بیشی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بحث طوالت پکڑنے لگی تو تندور والا کہنے لگا کہ صاحب میں بھی اپنا نظریہ پیش کروں کہ اس ایجاد کا میں ذمہ دار ہوں۔
ہم یک زبان ہو کر بولے کہو۔
وہ کہنے لگا کہ آٹے والے گودام میں بلی نے بچے دے رکھے ہیں، یہ ڈبیا میں نے ان کے کھیلنے کے لئے باندھ رکھی ہے۔
ہر بات پر نیوٹن بننے کی کوشش نہیں کرتے۔۔
منقول۔
تیڈی زیارت کرنڑ میڈا حق بنڑ دے
۔
میڈا حق نہ کھا میکو ں ملیا کر
یا تیرا تذکرہ کر ے ہر شخص
۔
یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے
"میں آپ کو کچھ بتانے جا رہا ہوں، خیالات کبھی ایماندار نہیں ہوتے، البتہ جذبات ہوتے ہیں"
شب بخیر
ہم پاکستانی اگر بلاوجہ کے غرور اور انّا کو تھوڑا کم کرلیں، ماتھے کی شکنوں کو خندہ پیشانی میں بدل لیں، تو ہمارے ریاستی معاملات، پروفیشنل اور عام زندگی میں مچائی بد تہذیبی کافی کم ہوسکتی ہے، تعمیر و ترقی کے کئی باب وا ہوسکتے ہیں لیکن ہماری " آکڑ" ہمارے راستے کا کانٹا ہے، ہمیں بہرحال نفرت ڈاٹ کام بننے سے باز آنا ہوگا۔ ورنہ ہم ایک دوسرے کے راستے روکتے خود بھی اجتماعی طور سے رُکے رہینگے۔۔۔!
تمـــہارا نام مـــیرے لب پے آتے آتےبچــــا"
دوکاندار نے پوچـھا تھـا۔ آپ کو کیا چاہیے۔
چیزیں ابتدا میں فیشن کہلاتی ہیں۔ اور مہنگی ہوتی ہیں۔پھر دھیرے دھیرے عام ہو جاتی ہیں تب ان کے دام بھی کم ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ آؤٹ ڈیٹڈ ہو کر متروک ہو جاتی ہیں۔ اور کاٹھ کباڑ میں بیچ دی جاتی ہیں۔ پھر یہ نیا جنم لیکر ونٹیج کہلاتی ہیں۔ اور پھر سے مہنگی ہو جاتی ہیں
بیوی کے ہوتے ہوئے بھی صاحب چُھٹّی کے دن کپڑے دھو رہے تھے۔۔۔۔
پڑوسن نے دیکھ لیا
ترس کے مارے سرگوشی میں کہنے لگی “ آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟”
آستین سے منہ صاف کرکے کہنے لگے : میں اس سے زیادہ کپڑے دھو نہیں سکتا
تمھاری قیمت
زعفران ، کستوری اور سونے سے کہیں زیادہ ہے
جب تم مسکراتی ہو تو تمھارا چہرا
نور کی مانند چمک اٹھتا ہے
تمھاری آنکھیں ستاروں جیسی ہیں
اور تمھاری مسکراہٹ ۔۔۔
تمھاری مسکراہٹ ۔۔
جنت میں لگے پھول جیسی۔۔۔
کیا کبھی تمھیں کسی نے بتایا کہ کس قدر انمول ہو تم!
صاحب شعور لوگ بتائیں اصل میں غلطی کس کی ہے
ایک صاحب نے گھر میں بیگم کے ساتھ کھانا شروع کیا دو تین نوالے ہی مشکل سے کھانے کے بعد انھوں نے شکایت کی۔۔
"یہ آج تم نے کھانے کا کیا حشر کردیا ہے, نا گوشت گلا ہے نا ہی سبزی ۔ مجھ سے تو کھانا ہی نہیں کھایا جارہا"۔۔
بیگم صاحبہ تنک کر بولیں۔۔
"غلطی اپنی اور غصہ مجھ پر اتار رہے ہو۔ یہ کھانا تو میرے بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہا۔"
میری غلطی۔۔۔؟؟
شوہر کا پارہ اور چڑھ گیا۔" کیا کھانا میں نے پکایا ہے۔۔۔۔؟؟؟"
کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتاب کس نے مجھے لاکر دی تھی۔۔۔؟؟
بیوی نے پلیٹ سے ہاتھ کھینچتے ہوئے جوابی وار کیا۔۔
اسی میں سے ایک پکوان کی ترکیب پڑھ کر میں نے یہ ڈش بنائی ہے۔اورسنو کہ وہ ترکیب چار آدمیوں کے لئے تھی , جبکہ ہم صرف دو ہیں۔۔
"اسی لئے میں نے ہر چیز آدھی آدھی کردی۔۔"
اور تو اور میں نے اتنی احتیاط برتی کے "پکنے کا وقت بھی آدھا رکھا۔"
اب تم ہی بتاؤ۔۔۔۔
"اتنی محنت اور احتیاط کے باوجود بھی سبزی اور گوشت گلیں نہیں تو غلطی میری ہے یا تمہاری۔۔۔۔؟؟؟"
تمہیں ہی کوئی اچھی سی پکوان کی کتاب لانی چاہیئے تھی کہ نہیں ؟؟؟.
دوستو آئیے ان دو الفاظ کے معنی سیکھیں ۔۔۔ برادرِ نسبتی کہتے ہیں بیوی کے بھائی کو ۔۔۔
جس کے بارے میں مثل مشہور ہے
ساری خدائی ایک طرف اور بیوی کا بھائی ایک طرف ۔۔۔۔
اس کے لیے سالا لفظ بھی بولا جاتا ہے ۔۔۔ لیکن یہ بولنے میں اتنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ اور اج کل تو اسے گالی کے طور پر بھی بولا جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے سالا لفظ بولنے سے احتراز کرنا چاہیے
خواہرِ نسبتی کہتے ہیں بیوی کی بہن کو ۔۔۔ اس کو سالی بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔ مگر سالی لفظ بھی بولنے میں اتنا اچھا نہیں لگتا
اس لیے مشرقی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے برادرِ نسبتی اور خواہر نسبتی کہنا چاہیے ۔۔۔ اور یہی دو الفاظ بولنے میں اچھے لگتے ہیں
اندرا گاندھی روس کے دورے کیلئے ماسکو ایئرپورٹ اتری. وہاں ایئرپورٹ پر اس کے استقبال کیلئے پروٹوکول کے مطابق نہ روسی وزیراعظم آیا تھا نہ کوئی دوسرا ہم منصب. اس وقت اندر کمار گجرال وہاں سفیر تھا. اندرا گاندھی نے سفیر صاحب سے کہا سیدھا اپنے سفارت خانے پر جائیں گے.
سفارت خانے کے آس پاس کافی بھارتی آبادی تھی. اندرا گاندھی نے ان سب کے بچوں کو بلایا اور ان کے ساتھ کھیلنے لگی. وہاں کریملن اندرا گاندھی کیلئے سجایا گیا تھا. جب اندرا گاندھی نہیں پہنچی تو روسی وزیراعظم کو اپنی غلطی سمجھ آگئی. وہ اپنے سینیر لوگوں کے ساتھ اندرا گاندھی کو لینے پہنچ گیا. اس نے معذرت کی اور
کہا یہ سب کسی انتظامی غلطی سے ہوا.
اندرا گاندھی نے تب کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی غصہ نہیں لیکن میں کروڑوں لوگوں کی نمائندہ بن کر یہاں آئی ہوں. وہ کروڑوں لوگ عزت کے مستحق ہیں. عزت ایسے ہی کرائی جاتی ہے لیکن یہ تب ہوتا ہے جب آپ خود کو عوام کا نمائندہ سمجھیں.
عزت دو طرفہ گلی ہے. ایک طرف سے آپ عزت دیتے ہیں تو دوسری طرف سے یہی عزت پلٹ کر آتی ہے. ہمارے اربابِ اختیار کی عزت دُنیا نے چھوڑ دی ہے. دُنیا ان کو بائیس کروڑ کی عوام کا نمائندہ سمجھ کر جائز عزت نہیں دیتی. یہ بھی اس بے عزتی پر راضی ہو کر بتاتے ہیں ہم خود کو عوامی نمائندہ سمجھتے ہی نہیں . البتہ اپنا ذاتی غصہ اپنی عوام پر یہ ضرور نکالتے ہیں.
یہ لفظوں کی شرارت ہے ،سمجھ کر کچھ بھی لکھنا تم۔۔۔
محبت لفظ ہےلیکن،یہ اکثر ہو بھی جاتی ہے۔۔۔
"محبت میں ہم بچوں کی طرح ہیں، توجہ ہمیں خوش کرتی ہے اور غفلت ہمیں رلا دیتی ہے۔ "
جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔۔۔
تم بھی اسے ضرور اچھے لگتے ہو۔۔۔
آج بازار میں ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہو گئی میں نے کہا یار تم تو کافی بوڑھے ہو گئے ہو
وہ بےغیرت بولا بابا جی آپ کو پہچانا نہیں
ناصر کاظمی کتوں سے بہت ڈرتے تھے۔ کتے کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل جاتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ پیٹ میں آٹھ ٹیکے لگوانے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنا سفر دو فرلانگ اور لمبا کر لے۔ انہوں نے چڑیوں‘ راستوں‘ گلیوں اور سڑکوں سے آشنائی پیدا کی مگر کتے سے راہ ورسم نہ بڑھا سکے۔ کبھی کبھی وہ اس خوف سے کسی نہ کسی کو اپنا ہم سفر بنا لیتے تھے جو انہیں گھر تک پہنچا آئے۔
شدید سردی کا موسم تھا۔ رات کو ایک بجے مجھے ہاسٹل کے چپڑاسی نے کہا کہ آپ کو ناصر کاظمی بلا رہے ہیں۔ میں نیچے اترا تو ولز ہوسٹل کے لان میں ناصر کاظمی ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے
کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پڑھ رہا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم پڑھ رہے ہو۔ رات کا قافلہ روانہ ہونے کو ہے۔‘‘
میں اپنے کمرے میں گیا۔ میرا روم میٹ دانش رضا سو رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اس کا اوورکوٹ اٹھایا جو اس نے پچھلی شام ہی لنڈے سے خریدا تھا اور نیچے اتر کر ناصر کاظمی کے ساتھ ہو لیا۔ انار کلی‘ سٹیشن‘ میکلوڈ روڈ مال سے ہوتے ہوئے ہم کرشن نگر میں داخل ہوئے۔ تین بج چکے تھے۔ کتے بوکھلائے ہوئے پھر رہے تھے۔ کتوں کے سلسلے میں‘ میں ناصر سے بھی زیادہ ڈرپوک تھا مگر میں نے کبھی ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ہم کتوں سے بچتے بچاتے ناصر کاظمی کے گھر تک آئے۔ انہوں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا وہ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain