اندر داخل ہوئے۔ مجھے خدا حافظ کہا اور دروازہ بند کر لیا۔ میں واپسی کے لئے پلٹا تو دس کتوں کا ایک جاندار دستہ میرے سامنے کھڑا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا تو وہ بھونکنے لگے۔ میں چلا تو پیچھے دوڑے۔ میں دوڑا تو انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ناصر کاظمی کا گھر بالکل چند قدم پر تھا۔ مجھے اور تو کچھ سوجھا نہیں میں نے اوورکوٹ اتار کر چاروں طرف لہرایا تو کتے اور شیر ہو گئے۔ اپنے اس دفاعی قدم میں میں نے ذرا تیزی دکھائی تو کوٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک کتے پر جا گرا اور گرا بھی اس طرح کہ اوورکوٹ کے بازوؤں میں اس کا سر پھنس گیا۔ وہ اس وقت آفت ناگہانی سے گھبرا گیا اور اوورکوٹ کے بازو سے
اپنا سر نکالنے کے لئے چاروں طرف گھومنے لگا۔ کتے کو اپنے سر کی پریشانی تھی۔ مجھے اس کوٹ کی پریشانی تھی جو دانش رضا نے کل خریدا تھا۔ کتے کے چاروں طرف چکر لگانے سے سب کتے کوٹ کو اک بلا سمجھ کر بھاگ گئے اور میں کتے سے کوٹ چھیننے کی تگ ودو کرنے لگا۔ کتا 50 گز کے دائرے میں دیر تک بھاگتا رہا اور میں کتے کے پیچھے دوڑتا رہا۔ آخر کتے نے زور لگا کر سر کو کوٹ کے بازو سے نکالا۔ کوٹ اچھل کر دور جا گرا۔ کتے کے چہرے پر بلا کا خوف تھا۔ اس نے چند لمحے کوٹ کے بے ترتیب بکھرے بازوؤں کو دیکھا اور پھر بھونکنے کی بجائے ایک خوفناک چیخ مار کر بھاگ گیا۔ میں نے جا کر کوٹ اٹھایا تو ناصر کاظمی نے اپنی کھڑکی سے جھانک کر کہا:
’’یار کتے سے بچنے کا یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔ گڈ‘ میں یوں ہی ڈرتا رہا۔ کل میں بھی ایک اوورکوٹ خریدوں گا۔‘‘ اور کھڑکی بند کر لی۔
-پروفیسر عقیل روبی
اک تیرا ہی خیال ہے میرے پاس۔
ورنہ کون ہنستا ہے اکیلے بیٹھ کر۔
شب بخیر
کیا وجہ ھے ۔ کہ ہمیں زندگی میں ہمیشہ مغرور برتاؤ کرنیوالے لوگ ہی پرکشش لگتے ھیں۔ اور دوستانہ مزاج رکھنے والوں کو ہم قابل اعتناء نہیں سمجھتے۔ کیا یہاں بھی علم معاشیات کا وہ اصول لاگو ہوتا ھے۔ کہ جو چیز مقدار یا تعداد میں زیادہ ہوتی ھے۔ قیمت میں ارزاں ہو جاتی ھے۔ یا پھر خدا کی بنائی یہ متجسس مخلوق ہمیشہ اسرار کے پردوں میں جھانکنا چاہتی ھے۔ جو جتنا دور ھے۔ اتنا ہی پرکشش ھے۔ یا پھر انسان سدا کا متجسس ھے۔ جسے جان کر اور جانچ کر فتح کرلیتا ھے۔ اسے بے وقعت کرکے نئے جزیروں کی دریافت کو نکل پڑتا ھے
کاٹو ں ادھر سے تو پھو ٹتا ھے ادھر سے،
پھیل گیا مجھ میں و ہ سر طا ن کی صو ر ت
...
چنار اور اخروٹ کے درخت کے درمیان مکالمہ
کسی درد مند کے کام آ, کسی ڈوبتے کو اچھال دے
کہتے ھیں کہ پرانے زمانے میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے منبر بنائے جاتے تھے اِس لئے کہ اُس کی لکڑی بہت مضبوط اور پائیدار ھوتی ھے۔ یہ پھل دار بھی ھوتا ھے اور سایہ بھی کافی گھنا ھوتا ھے۔
دوسری طرف چنار کا درخت ھے جس سے پرانے زمانے میں دار (پھانسی گھاٹ) بنائے جاتے تھے۔ اِس میں کوئی پھل بھی نہیں لگتا اور کوئی خاص نہیں ھوتا۔
ایران کے مشہور تُرک نژاد شاعر شہریارؔ نے اِن دو درختوں میں بحث کو بہت خوبصورتی سے شعر میں کچھ یوں ڈھالا ھے
( منبر نے طعنہ بھرے لہجے میں چنار کے درخت سے کہا
اے بے پھل کے درخت! کس زعم میں اپنی گردن اکڑائے کھڑے ھو؟
تمہیں نہیں لگتا کہ درختوں کی برادری میں تم باعث ننگ و بدنامی ھو ؟
کہ تم سے صرف پھانسی گھاٹ ھی بنائے جاتے ھیں
( اُس دلیر درخت کو بہت غصّہ آیا، اُس نے منبر کی جانب اپنا رُخ موڑ کے کہا)
اگر تمہارے منبر اِتنے ھی فائدہ مند ھوتے تو لوگوں کو پھانسی سے جھولنے کی نوبت ھی نہ آتی
~ حکایاتِ دلنشینِ فارسی
سوزِ رومی
تو برائے وصل کردن آمدی،
نے برائے فصل کردن آمدی!
“آپ کو اس دنیا میں جدائی اور نفاق پھیلانے کے لیے نہیں، بلکہ اتحاد اور محبت پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
مولانا جلال الدین رومی
مَیں جانتا ھوں ببُول اور گلاب کے معنی
ببُول یعنی زمانہ ، گلاب یعنی تُو !
کہاں یہ ذرّہء تاریک بخت یعنی مَیں
کہاں وہ نُور بھرا ماھتاب یعنی تُو !
مولا خوش رکھے 🤣🤣🤣
یہ بادشاہ کا عزیز ترین حجام تھا
یہ روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتاتھا ‘ اس دوران بادشاہ سلطنت کے امور بھی سرانجام دیتا رہتا اور حجامت اور شیو بھی کرواتا رہتا تھا ۔
ایک دن نائی نے بادشاہ سے عرض کیا
”حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب ہوں‘ میں آپ کا وفادار بھی ہوں‘ آپ اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے“
بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا
”میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ٹیسٹ دینا ہوگا“
نائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا
”آپ حکم کیجئے“
بادشاہ بولا
”بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہے مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو“
نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا ”جی جہاز وہاں کھڑا ہے“
بادشاہ نے پوچھا ”یہ جہاز کب آیا“ نائی دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا‘ واپس آیا اور بتایا ”دو دن پہلے آیا“
بادشاہ نے کہا ”یہ بتاﺅ یہ جہاز کہاں سے آیا“ نائی تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا‘ واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا ”جہاز پر کیا لدا ہے“
نائی چوتھی بار سمندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
قصہ مختصر نائی شام تک سمندر اور محل کے چکر لگا لگا کر تھک گیا
اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا ”کیا سمندر پر کوئی جہاز کھڑا ہے"
“وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا
”جناب دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیاتھا ‘ اس میں جانور‘ خوراک اور کپڑا لدا ہے‘ اس کے کپتان کا نام یہ ہے‘ یہ چھ ماہ میں یہاں پہنچا‘ یہ چار دن مزید یہاں ٹھہرے گا‘ یہاں سے ایران جائے گا اور وہاں ایک ماہ رکے گا اور اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں اور میرا مشورہ ہے ہمیں بحری جہازوں پر ٹیکس بڑھا دینا چاہئے“
بادشاہ نے یہ سن کر حجام کی طرف دیکھا
حجام نے چپ چاپ استرااٹھایا اور عرض کیا
”مولا خوش رکھے ! کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں
اک اسی با ت کا تو رونا ہے۔
۔
۔
۔
چا ئیے وہ کہ جو نہیں ملتا
مجھے ایک بار ٹرین سے لاھور جانے کا اتفاق ہوا میں جس ڈبے میں سفر کر رہا تھا اس میں ایک بوڑھا بھی بیٹھا تھا۔ اس کی عمر مجھ سے کافی زیادہ تھی اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس کے جسم سے عجیب سی سمیل آ رہی تھی ایسے لگتا تھا کہ وہ دن بھر جسمانی مشقت کرتا رہا ہے اور بار بار کپڑے پسینے میں شرابور ہونے کی وجہ سے اس سے ایسی ھمک آ رہی ہے۔میں حسب عادت اس سے باتیں کرنے لگا گو طبیعت نہیں چاہ رہی تھا تجسس کی حس بیدار ہوئی او اس سے باتیں کرنے لگا
۔میں نے پوچھا بابا کہاں جانا ہے؟ وہ مسکرایا اور بولا گھر۔
اب میں تلملایا بھی لیکن مجھے لگا کہ وہ کوئی عام شخص نہیں کوئی بابا ہے جو اس نے مجھے اتنا مختصر اور جامع جواب دیا ہے۔
میں اس کے قریب ہو گیا اور پوچھا
"جوانی اچھی ہوتی ہے کہ بڑھاپا"
اس نے کہا جوانوں کے لیے بڑھاپا اور بوڑھوں کے لیے جوانی۔
میں نے کہا وہ کیسے ؟
بولا " بوڑھے اگر جوان ہو جائیں تو شاید وہ پہلے والی غلطیاں کبھی نہ دہرائیں اور اگر جوان بوڑھوںکو تجربے کے طور پر لیں تو ان کی جوانی بے داغ اور بے عیب گزرے۔
اس بوسیدہ کپڑوں والے بوڑھے نے اتنی وزنی بات کر دی کہ بڑے مفکر اور دانشور ایسی بات نہیں کر سکتے۔
اشفاق احمد
سب کی آنکھوں سے حل نہیں ہوتا کیا معمہ ہے اس کی آنکھوں میں
حسن آدھا ہے مسکراہٹ میں اور پورا ہے اس کی آنکھوں میں
جب آپ زندگی سے خوش ھونا چاھیں اور زندگی اسکی اجازت بھی نہ دے تو کوئی بو نگی مار لیا کرو
شب بخیر
میری فالو لِسٹ میں کوئی ایک آدھ نیک بندہ یا بندی بھی نہیں؟
جس کی دُعا میں اثر ہو :
اگر ہے تو دُعا کریں مجھے کوئی ایک نیک بندی ٹکر جائے
وہ بھی زندگی بھر کیلئے- آمین
نوٹ:☜ نیک کے ساتھ ساتھ، خوبصورت، پڑھی لکھی اور دھیمے مزاج والی بھی شامل سمجھا جائے، اور بہت خاص یہ کہ میرا احترام و خیال کرے اور لوڈ شیڈنگ کے دوران میرے لیے مور پنکھ جھلا کرے
کلر سینس کی کہانی _________
بھائی وہ اولیو گرین والہ تو دکھائیں ذرا ۔
کونسا یہ والا باجی ___ ؟؟
ارے نہیں ۔ یہ تو اسپرنگ گرین ھے۔وہ ادھر وآلا۔
یہ ___ ؟؟
اوہو نہیں ۔ یہ تو پیرٹ گرین ھے۔وہ کینڈی پنک کے ساتھ والہ۔
یہ والا جی ؟
( قدرے جھنجھلاتے ہوئے) بھئی یہ تو سی گرین ھے
یہ تو نہیں کہہ رہیں آپ ؟؟
اففف۔ میں اولیو گرین کہہ رہی ہوں اور آپ ____ !!!
جی
یہ ۔۔۔۔ ( دکاندار ہچکچاتے ہوئے)
یہ ایمرلڈ گرین ھے۔ ( دانت پیستی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ) وہ لائلک شیڈ کے ساتھ ھے ناں ریڈ روبی اس کے ساتھ جو سٹرابیری پنک ھےاور اس کے ساتھ جو کولا براؤن ھے۔ اس کے بالکل نیچے میجنٹا کے ساتھ جو کریپ کلر ھے ناں۔ اور اس کے ساتھ جو لیمونیڈ ھے۔ان کے درمیان وآلا ھے اولیو گرین ۔
دکاندار ۔ ( سمجھتے ہوئے ) اوئے نوید ایدھر آ _____ باجی نوں او کھٹے رنگ دے نال جڑا ہرے رنگ دا پرنٹ اے او دکھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain