ایتھوپیا کے بندروں اور بھیڑیوں میں بہت دوستی ہے. ایتھوپیا کے بڑے سائز کے بندروں کی خوراک گھاس ہے جبکہ بھیڑیا گوشت خور ہے. بظاہر فطرتاً تو بندر کو بھیڑیا دیکھتے ہی دوڑ لگا دینی چاہئے ہے لیکن ایتھوپیا کے بندر اور بھیڑیے گھاس کے میدانوں میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں. دور سے آپ دیکھیں گے تو بندروں کا غول گھاس کھا رہا ہو گا جبکہ بھیڑیے ان کے ساتھ ایسے ٹہل رہے ہوں گے جیسے ان کے رکھوالے ہوں.
لیکن بات اتنی سادہ نہیں
ہے. بھیڑیے گھاس میں چھپے چوہوں پر نظر رکھ رہے ہوتے ہیں. بندر جب اونچی گھاس اکھاڑنے لگتے ہیں تو چوہے گھبرا کر بھاگتے ہیں. بھیڑئے ان چوہوں کا شکار کرتے ہیں. طویل تعلق نے بھیڑیوں کو یہ عقل سکھا دی ہے کہ بندروں کو نہیں چھیڑنا. خوراک چوہوں سے پوری کرو. اسی لئے ایتھوپیا کے بندر اور بھیڑیے باہم شیر و شکر ہیں.
ایک پاکستانی جاپان گیا اور اس کی ترقی و تعمیر کے نظم و ضبط سے متاثر ہو کر اس نے اپنے جاپانی دوست سے کہا تم لوگ واقعی عقل مند ہو. جاپانی دوست نے کہا نہیں جناب عقل مند تو آپ لوگ ہیں. ہمارے ہاں ہر دس میں سے ایک عقل مند نو بے وقوف ہوتے ہیں. ہم اس ایک عقل مند کو لیڈر بنا دیتے
ہیں. وہی پھر ہمیں چلاتا ہے. تمہارے ملک میں نو عقل مند ایک بے وقوف ہوتا ہے. بس تم لوگ اسی ایک بے وقوف کو لیڈر بنا دیتے ہو.
پتہ نہیں جاپانی سچ کہا رہا تھا کہ نہیں لیکن یہاں کے بھیڑیوں نے بندروں کو البتہ دوست ضرور بنا لیا ہے. غریب عوام اس میدان کے چوہے بن گئے ہیں. مہنگائی کے سانپ ہوں یا طاقتور بھیڑیے سب ہی ان کو کاٹ کھا رہے ہیں. عوامی نمائندے ہمارے وہ بندر ہیں جن کے ہاتھ میں ماچس ہے اور وہ چوہوں کو ڈرا ڈرا کر بھیڑیوں کے سامنے ڈال رہے ہیں. یہ عقل مند بندر یہ نہیں سوچ رہے جس دن میدان میں چوہے ختم ہو جائیں گے پھر بھیڑئے کس کو کھائیں گے.؟
یہ جو سینے میں لیے کربِ درُوں ز ندہ ہوں
کوئی امید سی باقی ہے کہ یوں زندہ ہوں
شہر کا شہر تماشائی بنا بیٹھا ہے
اور میں بن کے تماشائے جنوں زندہ ہوں
میری دھڑکن کی گواہی تو میرے حق میں نہیں
ایک احساس سا رہتا ہے کہ ہوں زندہ ہوں
کیا بتاؤں تجھے اسباب جیئے جانے کے
مجھ کو خود بھی نہیں معلوم کہ کیوں زندہ ہوں
اپنے ہونے کی خبر کس کو سناؤں ساگر
کوئی زندہ ہو تو میں اس سے کہوں زندہ ہوں
کسان سے کام کرتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر میں گھڑی کھو گئی. یہ کوئی قیمتی گھڑی نہ تھی لیکن اس کی جذباتی قیمت بہت زیادہ تھی کیونکہ یہ کسان کو اس کے والد مرحوم کا تحفہ تھا. کسان بھوسے کے ڈھیر میں گھڑی ڈھونڈنے لگا. لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا.
تھک ہار کر کسان نے باہر کھیلتے گاوں کے بچوں کو آواز دی اور کہا جو میری گھڑی اس ڈھیر میں سے ڈھونڈ کر دے گا اسے انعام ملے گا. بچوں کو کھیل کا شاندار میدان مل گیا کچھ ہی دیر میں انہوں نے اس ڈھیر کو پھیلا کر رکھ دیا لیکن گھڑی نہ ملی. بچے تھک ہار کر اکتا کر جانے لگے. کسان بھی مایوس ہوگیا اور گودام کا دروازہ بند کرنے لگا تو ایک بچے نے کہا مجھے بس ایک چانس اور
دو.
کسان دروازے پر بیٹھ گیا اور بچے سے کہا جاو ایک کوشش اور کر لو. اندر اب خاموشی تھی. کچھ دیر بعد بچہ گھڑی اٹھائے باہر آیا کسان نے حیرت سے پوچھا یہ کہاں سے ملی.؟ بچے نے کہا میں نے اس دفعہ گھڑی نہیں ڈھونڈی بلکہ خاموشی سے بیٹھ کر اس کی ٹک ٹک سنی پھر جس طرف سے آواز آئی اسی سمت گیا اور یہ بھوسے میں مل گئی.
ایک سنگ تراش سے کسی نے پوچھا تم ایک پتھریلی چٹان میں سے ایک خوبصورت مجسمہ کیسے تخلیق کر لیتے ہو. سنگ تراش نے کہا خوبصورتی تو اس میں ہوتی ہے میں تو بس اس چٹان سے فالتو اور غیر ضروری حصے الگ کرتا ہوں. ہماری خوشیاں بھی ہمارے اندر ہوتی ہیں ہمیں بس ان پر چھائی فالتو اور غیر ضروری تفکرات کا گرد و غبار صاف کرنا ہوتا ہے.
یہ سب ایک پرسکون دماغ کا کھیل ہے. دماغ میں اگر سکون ہوگا تو یہ بھوسے کے ڈھیر میں بھی اپ کو خوشی اور راستہ تلاش کر کے دے دے گا
آئینہ پھیلا رہا ہے خود فریبی کا مرض
ہر کسی سے کہہ رہا ہے. آپ سا کوئی نہیں!
میں کون ہوں ۔۔۔۔ ؟
میں گمنام رات میں چلنے والی تیز ہوا میں
پھڑ پھڑاتا ہوا رات کا وہ چراغ ہوں جسے گہری کالی رات کے اندھیروں سے تنہا لڑتے ہوئے کسی بھی حالت میں روشن رہنا یے۔
میں پت جھڑ کا شکار بنتا ہو کسی دور جنگل کے ویرانے میں لگے درخت کا وہ آخری پتہ ہوں جسے خزاں رت میں چلنے والی یخ بستہ ہوائیں اپنی پوری طاقت سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش میں ہوں۔۔۔
میں برسوں سے بند لائبریری کے کونے میں پڑی گردآلود الماری کے ٹوٹے ہوئے شیلف پہ دھول مٹی سے اٹی ہوئی کسی گمنام کتاب کا وہ آخر صفحہ ہوں جس پہ صرف اتنا لکھا ہوا ہو ۔۔
ختم شد
دِل کی یادداشت بہت مضبوط ھوتی ھے
کبھی کُچھ نہیـــں بُھولتا۔۔
نصیب، اچھا، بُرا، مسئلے، روگ یا کوئی بھی اندیشہ مجھے نہ بتلاؤ، مجھے اُس سے محبت ہے تو ہے..۔
دھوبی کی بیوی بادشاہ کے گھر میں کام کرتی تھی اور بڑی خوش نظر آرہی تھی ، تب ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ آج تم اتنی خوش کیوں ہو۔*
*دھوبن نے کہا کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔*
*ملکہ نے اسکو مٹھائی پیش کرتے ہو کہا،*
*دَھنُوں کی پیدائش کی خوشی میں کھاؤ۔*
*اتنے میں بادشاہ بھی کمرے میں داخل ہوا۔*
*ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا*
*آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں کوئی خاص وجہ ہے؟*
*ملکہ نے کہا!*
*سلطان یہ لیں مٹھائی کھائیں*
*آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔*
*اس لیئے خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے.... !!*
*بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی۔*
*بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آو۔*
*بادشاہ باہر دربار میں آیا تو
*بادشاہ بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو۔۔۔*
*واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔*
*بادشاہ مزید خوش ہونے۔*
*بادشاہ نے کہا سبکو مٹھائی بانٹ دو۔*
*مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا!*
*بادشاہ سلامت یہ آج مٹھائی کس خوشی میں آئی ہے؟*
*بادشاہ نے کہا!*
*کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔*
*ایک مشیر نے چپکے سے وزیر اعظم سے پوچھا!*
*وزیر با تدبیر ویسے یہ دھنوں ہے کیا..؟*
*وزیراعظم نے کہا!*
*کہ مجھے تو علم نہیں یہ دھنوں کیا بلا ہے،*
*بادشاہ سے پوچهتا ہوں۔*
*وزیر اعظم نے ہمت کر کے پوچھا!*
*بادشاہ سلامت ویسے یہ دھنوں ہے کون؟*
*بادشاہ سلامت تھوڑا سا گھبرائے اور سوچنے لگے کہ واقعی پہلے معلوم تو کرنا چاہیے تھا کہ یہ دھنُوں کون ہے؟*
*بادشاہ نے کہا!*
*مجھے تو علم نہیں کہ یہ کون ہے... ۔*
*میری بیوی آج خوش تهی وجہ پوچھی تو*
اس نے کہا!*
*کہ ٓآج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔*
*اس لیئے میں اسکی خوشی کی وجہ سے خوش ہوا۔*
*بادشاہ گھر آیا اور بیوی سے پوچھا....*
*ملکہ عالیہ یہ دھنوں کون تھا؟ جس کی وجہ سے آپ اتنی خوش تھی اور ہم بھی خوش ہیں۔*
*ملکہ عالیہ نے کہا!*
*کہ مجھے تو علم نہیں کہ دھنوں کون ہے؟*
*یہ تو دھوبن بڑی خوش تھی اُس نے بتایا۔*
*آج دھنوں پیدا ہوا ہے۔*
*اس لیئے میں بھی خوش ہو کر اسکی خوشی میں شریک ہوئی۔*
*دھوبی کی بیوی کو بلایا اور پوچھا!*
تیرا ستیاناس ہو*.
*یہ تو بتا کہ یہ دھنوں کون ہے؟*
*جس کی وجہ سے ہم نے پوری سلطنت میں مٹھائیاں بانٹی۔!*
*دھوبن بولی!*
*یہ دَھنُوں ہماری گدھی کا بچہ ہے*
*جو کل پیدا ہوا ہے۔*
*ایسا ہی حال ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا ہے۔۔۔۔۔۔!!*
*جو بھی خبر ملتی ہے۔*
*بغیر تصدیق کے فورا سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے*
مصرع اول
اسے کیوں دیا ہم نے دل، جو ہے بے مہری میں کامل، جسے عادت ھے جفا کی، جسے چڑ مہر و وفا کی، جسے آتا نہیں آنا، غم و حسرت کا مٹانا، جو ستم میں ہے یگانہ، جسے کہتا ہے زمانہ، بے مہر دغا باز جفا، پیش فسوں ساز ستم خانہ، ہر انداز غضب جس کا، ھر اک ناز قلق و رنج کا، موجد ستم و جور کا، استاد جو جفا کاری میں ماہر، جو ستم کیش و ستمگر، جسے آتی نہیں الفت، جو سمجھتا نھیں چاھت، جو تسلی کو نہ سمجھے، جو تشفی کو نہ جانے، نہ کرے قول کو پورا، کرے ہر کام ادھورا، یہی دن رات تصور ہے، کی نا حق اسے چاہا، وہ نہ آئے نہ بلائے، نہ رہ و رسم بڑھاۓ، نہ لگی دل کی بجھائے
، نہ کوئی بات سنائے، جو کہو کچھ تو خفا ہو کے کہے شکوے کی ضرورت ہے؟ جو یہی ہے تو نہ چاہو، جو نہ چاہو گے تو کیا ہے، نہ نباھو گے تو کیا ہے، بہت اتراؤ نہ دل دے کے، کہ یہ کس کام کا دل ہے، میں جو چاھوں تو ابھی اسے رکھ دوں تلووں سے مسل کر، ابھی منہ دیکھتے رہ جاو گے کہ ھیں! ان کو ہوا کیا؟ یوں ہی میرا دل لے کے میرے ہاتھ سے کھویا
مصرعہ ثانی:
بس اسی دھیان میں ہم تھے کہ ہوئی پاؤں کی آہٹ نظر اٹھی تو یہ دیکھا کہ چلا آتا ہے وہ زہرہ جبیں ماہ مبیں طرفہ حسیں پردہ نشیں در ثمیں دل کا مکیں ساتھ مگر کوئی نھیں دھک سے ہوا دل کہ یہ اس وقت کیا اس سے جو پوچھا کے بتا خیر تو ہے
کیوں ادھر آیا تو جواب اس نے دیا ہنس کے کہ یونہی، تجھے کیا کام جو تو پوچھ رہا ہے کوئی قاضی ہے کہ مفتی ہے آ کے پھر بیٹھ گیا میرے پاس وہ داب کے زانو بس ادھر دیکھ ادھر دیکھ میرے دل کو ٹٹولا پر وہاں دل کا پتہ کب تھا جو ملتا اس نے ناچار کہا مجھ سے کہ کیوں جی کوئی اور بھی دل ہے؟ ہمیں عادت ہے ستانے کی جلانے کی دکھانے کی مٹانے کی اگر دو تو بڑا کام کرو سن کے یہ بات کہا میں نے کہ کچھ خیر تو ہے؟ ایک دل تھا سو تو لے ہی گیا دو کہیں ہوتے ہیں بھی اس دنیا میں جو تو لینے کو آیا تو وہ بولا کہ اجی جاؤ ذرا جی کو تو شرماؤ بڑا حکم اٹھایا، کہیں
دیتے ہیں جواب ایسا ٹکا سا، ارے توبہ ارے توبہ چلو بیٹھے رہو باتیں نہ بناو تم یونہی منہ سے کہتے تھے ہٹو جاؤ محبت کا بھلا نام ڈبوؤ گے
اگر تم سے ایک تارا گم ہو گیا، تو کیا ہوا؟
آسمان پورا تاروں سے بھرا ہوا ۔ اگر بھرے آسمان میں سے بھی کوئی تارا تیری قسمت میں نہیں،
تو کون جانتا ہے شاید چاند تیرا نصیب ہو۔!
ایک کارٹون فلم میں ہیرو کو قلعہ کے ایک ایسے بلند برجی پر لاکر پھینک دیا جاتا ہے جسکا صرف ایک دروازہ ہوتا ہے. اندر ایک بزرگ کارٹون پہلے سے قید بیٹھا ہوتا ہے. ہیرو اٹھ کر دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے " دروازہ کھولو". اور دروازہ کھل جاتا ہے.
پرانا بابا کارٹون تب کیمرے کی طرف منہ کر کہ آنکھیں پھیلا کر کہتا ہے کیا دروازہ کھولنے کا صرف کہنا ہی تھا.؟ اور یہ ایک جملہ اس کردار کو کامیڈی بنا دیتا ہے. مطلب چونکہ وہ دروازہ کھولنے کا
کہہ نہیں سکا اس لئے اس نے عمر اس بلند برج کی قید میں گزار دی. لیکن یہ کامیڈی ہم سب کے ساتھ زندگی میں ہوتی ہے. ہم بہت سی باتیں کہہ نہیں پاتے اور زندگی اپنے ہی فرض کی ہوئی باتوں میں گرفتار گزار جاتے ہیں.
بہت سے لوگوں نے اپنی محبتیں اس خود ساختہ قید میں کھو دیں. وہ بس اپنی محبت کا کہہ ہی تو نہ پائے تھے . زندگی کے کتنے مواقع ہم صرف اس لئے ضائع کر دیتے ہیں کیونکہ جھجھک کر ہم یہ کہہ نہیں پاتے میں دستیاب ہوں. زندگی کامیڈی البتہ تب بنتی ہے جب ہم اس سب کا ذمہ دار ان کو سمجھ لیں جنہوں نےہم سے پہلے پہل کر دی تھی. جن کیلئے دروازہ پہلے کھل گیا تھا.
میچیوریٹی بھی ایک نعمت ہے، جس عمر میں حاصل ہو جائے
بچپنا یہ ہے کہ من پسند چیز، من پسند رویوں پر اصرار کیا جائے۔ زبردستی کی جائے۔ مرضی کے نتائج نہ ملیں تو اپنا خون جلایا جائے، زور و شور سے اختلاف و جھگڑا کیا جائے۔ ان چیزوں پر کڑھا جائے جن پر سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں
جبکہ،
میچیوریٹی آجائے تو بلاوجہ اختلاف کرنا وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ کوئی اختلاف کرے تو خوش دلی سے قبول کرکے اگنور کیا جائے۔
کوئی ساتھ چلے تو ویلکم، نہ چلے تو "وش یو گڈ لک" کہہ کر آرام سے آگے بڑھ جایا جائے۔
انسان میچیوریٹی کی نعمت حاصل کرلے تو رات سکون کی نیند آتی ہے
شب بخیر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain