میچیوریٹی بھی ایک نعمت ہے، جس عمر میں حاصل ہو جائے
بچپنا یہ ہے کہ من پسند چیز، من پسند رویوں پر اصرار کیا جائے۔ زبردستی کی جائے۔ مرضی کے نتائج نہ ملیں تو اپنا خون جلایا جائے، زور و شور سے اختلاف و جھگڑا کیا جائے۔ ان چیزوں پر کڑھا جائے جن پر سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں
جبکہ،
میچیوریٹی آجائے تو بلاوجہ اختلاف کرنا وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ کوئی اختلاف کرے تو خوش دلی سے قبول کرکے اگنور کیا جائے۔
کوئی ساتھ چلے تو ویلکم، نہ چلے تو "وش یو گڈ لک" کہہ کر آرام سے آگے بڑھ جایا جائے۔
انسان میچیوریٹی کی نعمت حاصل کرلے تو رات سکون کی نیند آتی ہے
شب بخیر
سچ تو یہ ہے کہ انسان ہی انسان کی دوا ہے
اگر کوئی دُکھ دیتا ہے تو کوئی سکون بن جاتا ہے ،
کوئی نفرت کرتا ہے ،تو کوئی محبت دے کر حساب برابر کر دیتا ہے ،کوئی رلاتا ہے ،تو کوئی مسکرانے کی وجہ بن جاتا ہے ،کوئی ٹھوکر لگا کر گِرا دیتا ہے ،تو کوئی انتہائی محبت سے سہارا بن جاتا ہے
دل میں جو ہے وہ سب کچھ نہیں کہا جاسکتا تو خدا نے آہیں، آنسو، لمبی نیند، ٹھنڈی مسکراہٹ اور ہاتھ کی کپکپاہٹ کو پیدا کیا۔
شادی سے پہلے لڑکیوں کی جن بڑی بڑی آنکھوں کی لوگ تعریف کرتے ہیں شادی کے بعد انہیں سننا پڑتا ہے۔
مج دیاں اکھاں والی کویں ڈیلے کڈ کڈ گلاں کر دی آ
پوتا دادا کو اپنے خواب سنا رہا تھا. دادا میں بہت بڑا کرکٹ کا کھلاڑی بنوں گا. سارا ملک مجھے پہچانے گا. میں ایک بڑا گھر بناوں گا بڑی سی گاڑی ہوگی. آپ لوگ باہر جب نکلیں گے تو سب بولیں گے یہ فلاں پلئیر کی فیملی ہے. اور یہ خواب طویل ہوتا چلا گیا. دادا خاموشی سے پوتے کی کہانی سن رہا تھا کہ ایک خوبصورت رنگوں سے سجی تتلی آنگن میں آگئی.
دادا نے پوتے سے کہا بیٹا اس تتلی کو پکڑ لو. پوتا تتلی کے پیچھے پڑ گیا. تتلی بیٹھ جاتی بچہ دبے قدموں قریب جاتا تو یہ اُڑ جاتی. کافی کشمکش کے بعد تتلی گھر کے آنگن سے نکل گئی. بچہ بھی اس کے پیچھے نکل گیا. کافی دیر کے بعد بچہ ہانپتے کاپتے خالی ہاتھ واہس آگیا. دادا نے کہا بیٹا تتلی کہاں ہے.؟ پوتے نے کہا دادا میں نے بہت کوشش کی. بہت بھاگا لیکن تتلی ہاتھ نہ آئی.
دادا نے
کہا بیٹا فرض کیا تم چاہو کہ یہ تتلی ہی نہیں بہت ساری تتلیاں ہمارے آنگن میں ہر وقت رہیں تو تم کیا کرو گے.؟ پوتے سے کوئی جواب بن نہ پایا تب دادا نے کہا تم اس گھر کے آنگن کو باغ بنا دو. تتلیاں خود یہاں آئیں گی یہی حال ہمارے خوابوں خواہشوں کا بھی ہوتا ہے. تم خواہشات کے پیچھے بھاگے تو زندگی بھر بھاگتے رہو گے ہاتھ کچھ نہ آئے گا.
کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے خواب اس کے پیچھے چلیں تب اسے اپنی ذات میں گلشن بننا ہوتا ہے. ہنر تعلیم قابلیت اہلیت اور ڈسپلن یہ سب مل کر ہماری ذات کو گلستان بنا دیتے ہیں. یہ آپ کو وہ بنا دیتے ہیں جہاں دُنیا آپ کے پیچھے آتی ہے. لیکن اگر صرف خواہشات اور خواب ہی ہوں تب آپ دُنیا کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہوں گے. دُنیا پھر پکڑائی نہیں دیتی.
ہماری ایک بڑی نسل تتلیوں کے تعاقب میں بہت دور نکل گئی ہے. کیونکہ ہمارے آنگن ہی اجاڑ ہیں.
نادﺭﺍ ﮐﮯ رﯾﮑﺎﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﺎ ﺗﻨﺎﺳﺐ ﺻﺮﻑ 5 ﻓﯿﺼﺪ ﮬﮯ.
عزمِ مُسلسل.
پولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی۔
اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا تھا۔
وہ ٹیویشن پڑھا کے گزر بسر کرتی تھی۔
19
برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی بچی کو پڑھاتی تھی۔
بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی، چنانچہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
جب لڑکے کی ماں کو اس معاملے کا پتہ چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا۔ اس نے آواز دے کے سارے نوکر جمع کئے اور چلا کر کہا، دیکھو
یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے۔ جس کے جوتوں کے تلووں میں سوراخ ہیں۔ اور جسے 24 گھنٹے میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے، اور وہ بھی ہمارے گھر سے۔
یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے۔
یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے۔ تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا اور خاتون دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی۔ مانیا کو یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی الٹ دی ہو۔ وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہوگئی۔ اور اس نے اسی پورچ میں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا، وہ زندگی میں اتنی عزت، اتنی شہرت کمائے گی، کہ پورا پولینڈ اس کے نام سے پہچانا جائے گا۔
یہ سن 1891ء تھا۔ وہ پولینڈ سے پیرس آئی۔ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا،
اور فزکس پڑھنا شروع کردی۔
وہ دن میں 20 گھنٹے پڑھتی تھی۔ اس کے پاس پیسہ دھیلا تھا نہیں، جو کچھ جمع پونجی تھی، وہ اسی میں گزر بسر کرتی تھی۔ وہ روز صرف ایک شلنگ خرچ کرتی تھی ( یعنی چند پیسے ) اس کے کمرے میں بجلی، گیس اور کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی۔ وہ برفیلے موسموں کی راتیں کپکپا کر گزارتی تھی۔ جب سردی برداشت سے باہر ہو جاتی تھی، تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی تھی۔ آدھے بستر پر بچھاتی تھی، اور آدھے اپنے اوپر اوڑھ کے لیٹ جاتی تھی۔ پھر بھی گزارہ نہ ہوتا، تو وہ اپنی ساری کتابیں حتیٰ کہ اپنی کرسی تک اپنے اوپر گرا لیتی تھی۔
پورے پانچ برس اس نے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور مکھن کے سوا کچھ نہ کھایا۔
نقاہت کا یہ عالم ہوتا تھا
وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتی تھی، لیکن جب ہوش آتا تھا، تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خود کو تسلی دے لیتی تھی۔
وہ ایک روز کلاس میں بے ہوش ہوگئی، ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا، آپ کو دواء کی بجائے دودھ کے ایک گلاس
۔ کی ضرورت ہے۔
اس نے یونیورسٹی ہی میں پائری نام کے ایک سائنس دان سے شادی کر لی تھی۔
وہ سائنس دان بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا۔
شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ دو سائیکل تھے۔ وہ غربت کے اسی عالم کے دوران پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی۔
مانیا نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا تھا۔
اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائے گی یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے۔ یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام تھا۔ لیکن وہ اس پر جت گئی۔
تجربات کے دوران اس نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا، جو یورینیم کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا زیادہ
روشنی پیدا کرتا ہے۔ اور اس کی شعاعیں لکڑی، پتھر، تانبے اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں، اس نے اس کا نام ریڈیم رکھا۔
یہ سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔
لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا، مانیا اور پائری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا، جس کی چھت سلامت تھی اور نہ ہی فرش۔
اور وہ چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے۔
انہوں نے تن و تنہا 8 ٹن لوہا پگھلایا۔ اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کی۔
یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں۔
بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے۔ لیکن وہ کام میں جتی رہی، اور اس نے ہار نہ مانی۔
یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی۔
یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئی۔
ہم آج جسے شعاعوں
کا علاج کہتے ہیں، یہ مانیا ہی کی ایجاد تھی۔
اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی، تو آج کیسنر کے تمام مریض مر جاتے۔
یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا۔
جس کی زندگی پر 30 فلمیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔
اور جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آنے پہ سر سے ٹوپی اتار اس ملک کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیش کش کی، تو اس نے پتہ ہے کیا کہا؟
اس نے کہا۔ میں یہ دریافت صرف اس کمپنی کو دوں گی، جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی۔
جی ہاں! وہ امیر پولش عورت جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا تھا۔ وہ عورت کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھی اور وہ اس وقت بستر مرگ پر پڑی تھی۔
غلطیوں کو نظر انداز فرما دیجئے گا
انگریزی اور ہم
ہمارے سکول میں چَھٹی کلاس سے اے بی سی شروع کرائی جاتی تھی۔
مجھے یاد ہے تب ہم سب کپ کو سپ پڑھا کرتے تھے۔
اس انگریزی کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر ’ٹیچر بھی اسی کو صحیح سمجھتے تھے اور نمبر بھی اچھے مل جایا کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھےانفارچونیٹلی کے سپیلنگ یاد نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایا، پورے لفظ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور یوں سپیلنگ یاد ہوگئے۔
زمانہ طالبعلمی میں بھی میری انگلش ایسی ہی تھی
جیسی آج ہے۔ سو میں نے ایک ماہر سے انگریزی ٹیویشن پڑھنا شروع کردی۔ موصوف خود بی اے کے سٹوڈنٹ تھے اور بڑی تسلی سےہی یوج کو “ہیوجی” پڑھایا کرتے تھے۔
الحمد لِلّٰہ ان کی تعلیم کے نتیجے میں ہم دونوں انگریزی میں امتیازی نمبروں سے ناکام ہوا کرتے تھے۔
یقین کیجئے جب گورمے ریسٹورنٹ بھی کھلا تھا تو اکثریت اسے ’’گورنمنٹ‘‘ سمجھی تھی۔آج بھی’’شیورلے‘‘ کار کا نام ’’شیورلیٹ‘‘ زبان زد عام ہے،
ویسے ایسی انگریزی پڑھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔”چمِسٹری اور کنالج” سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے
کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔
پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔
”ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی”۔
جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں”سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے”۔
مجھے تسلیم ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اسی لیے ابھی تک “ڈاکٹرائن” کو لیڈی ڈاکٹر سمجھتا ہوں۔ اللہ جانتا ہے میں تو ایک عرصے تک سکول کو “سچول”
اور کالج کو”کولیگ” اور ایشیاء کو “آسیہ “پڑھتا رہا ہوں۔
بلکہ مجھے تو ’ٹیچریں‘ اور ’ٹِچّریں‘ بھی اکثر ایک جیسی ہی لگتی ہیں۔
انگریزی کو ذبح کیے بغیر مزا ہی نہیں آتا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ہماری”کیئرلیسِیوں” کی وجہ سے انگریزی کا تلفظ خراب ہورہا ہے۔ میرا خیال ہے غلط کہتا ہے، انگریزی کی بوٹیاں نوچنے کی لذت بے مثال ہے۔ جو مزا”موویاں” دیکھنے میں ہے وہ موویز میں کہاں۔ ویسے بھی انگریزی خود بھی ایک پہیلی ہے،بندہ پوچھے جب کٹ ہے، تو پُٹ، پَٹ کیوں نہیں؟؟؟ ۔۔۔ مختلف ملکوں کے نام بھی عجیب و غریب ہیں۔”شام “کا نام ایوننگ کی بجائے سی ریا کیوں ہے؟ یورپ کے سپیلنگ ای کہاں سے ساتھ آگیا؟؟؟ بینکاک کو لکھنے کا کیا تُک ہے؟ بلاوجہ جی اندر گھسا یا ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جتنا ہو سکے انگریزی کو ٹھیک کریں !!!
تمہارا تعلق تو مجھ سے ایسا تھا ؛ جیسے بچپن میں کہیں کھیلتے کھیلتے کوئی کسی کو سٹیچو کہے اور پهر عمر بھر اس کو مڑ کر نہ دیکھے
آگر زندگی میں کچھ بنا چاہتے ہو
تو مجھے فالو کرکے میرے فین بن جاو
کتنے عجیب ہوتے ہیں نا کچھ لوگ
کہ جب ہم انہیں محبت اور عقیدت دیتے ہیں تو وہ ہم سے ،ہماری محبت سے ہماری تعریفوں سے بالکل بے نیاز نظر آتے ہیں۔
جیسے انہیں کوئی فرق ہی نا پڑتا ہو، لیکن ہماری زرا سی بے اعتنائی برتنے پہ برہم ہو جاتے ہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain