Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

اے موسم گر یہ چل اب کی با ر ہم ہی تیری انگلی پکڑ تے ھیں
تجھےگھر لے کے چلتے ھیں
جہا ں ہر چیز ویسی کی ویسی ھے جیسی اسے تو چھو ڑ آیا تھا
کو ئی بھی منظر نہیں بد لا
تیر ا کمر ہ بھی ویسا کا ویسا ھے
جس طر ح تو نے اسے دیکھا تھا
جس طر ح تو نے اسے چھو ڑا تھا
تیرے بستر کے پہلو میں رکھی میز پر دھر ا کا فی کا وہ مگ جس کے کنا رے پر وسو سو ں اور خو اہشو ں کی جھا گ کے دھبے نما یا ں ھیں

Offline
 

،
اور تیرے وہ چپل بھی رکھے ھیں
جن کے بے ثمر تلو ئو ں سے اب بھی وہ خو اب لپٹے ھیں
جو اتنا روندے جا نے پر اب تک سا نس لیتے ھیں ،
اور تیرے کپڑ ے جو غمو ں کی با رشو ں سے دھل کر آئے تھے ،
میر ی الما ریو ں کے ہینگر میں اب تک لٹکے ھیں ،
دریچے کے سا تھ والی د یوار پر لٹکی گھڑی اب بھی آ دھا منٹ پیچھے ہی رہتی ھے ،
اور کیلنڈ ر پر رکی تا ریخ نے اب تک آ نکھیں نہیں جپکھیں ،
،
وہ آ نکھیں جو تمنا سے ہر دم مسکر اتیں تھیں اب شا ئد کبھی مسکرا ئیں ،
ان آنکھو ں کے کنا روں پر نمی تم کو شا ئد نظر آئے

Offline
 

محترمہ کو علامہ اقبال بہت پسند تھے
ایک دن پوچھا : آپ کو علامہ کی کونسی نظم سب سے زیادہ پسند ہے؟
کہنے لگیں : ویسے تو اقبال کی سبھی نظمیں بہت اچھی ہیں اور اکثر تو مجھے زبانی یاد بھی ہیں مگر ان کی نظم شکوہ کا تو کوئی جواب ہی نہیں
میں نے پوچھا : اچھا! تو پھر شکوہ سے کوئ پسندیدہ شعر ہی سنا دیجیے ۔ ۔ ۔
کچھ دیر ذہن پر زور دینے کے بعد گویا ہوئیں
شکوہ نہیں کسی سے ، کسی سے گلہ نہیں
نصیب میں نہیں تھا جو ہم کو ملا نہیں
منقول

Offline
 

اور ہم بچھڑ گئے
ہم ملے
ایک دوسرے سے
اور ایک دوسرے کو
چاہنے کی حد کر دی،
ہم نے اشاروں کی
زبان سیکھی
اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں
دیکھتے رہے
شدت دکھانے کیلئے
ہر میسج کے آخر میں
فل سٹاپ لگایا،
ہم ایک دوسرے کی خوشی میں
خوش ہوئے
اور اداس ہوتے تھے ایک ساتھ۔
ہم نے ایک دوسرے کا
بچوں جیسے خیال رکھا،
ایک دوسرے کو نظمیں بھیجی
اور کچھ تصویریں بھی،

Offline
 

میلوں دوری سے ایک دوسرے کی
دھڑکنیں تیز کی
ہم نے کچھ نامکمل خواب بھی دیکھیں
اور ایک وش لسٹ بنائی
جو کہ وش لسٹ ہی رہی
ہم نے ایک دوسرے کو
پھول اور تتلی سے تشبیہ دی
ہم اتنے خوش تھے کہ ہمیں
اپنی ہی نظر لگ گئی۔
"اور ہم بچھڑ گئے"
لیکن ایک بات بتائیں
جو کبھی مکمل ملے ہی نہیں
وہ بچھڑ کیسے گئے ؟

Offline
 

منو بھائی نے فیض صاحب سے پوچھا۔ میں کس زبان میں شاعری کروں؟؟ ۔۔
فیض صاحب نے جواب میں فرمایا۔۔ جس زبان میں خواب دیکھتے ھو۔۔

Offline
 

ننانوے فیصد پاکستانی لڑکیوں کے نام کے آخر میں "آآآآآآآ ‛ کی پکار آتی ھے۔۔۔۔۔
یقین نہیں ھوتا تو ۔۔۔۔ اپنا نام پکار کے دیکھیں ذرا _____ !!!

Offline
 

میں ڈرتا ڈرتا میس میں داخل ہوا۔ بڑا کوٹ اتارا۔ پوستین اتاری۔ کھڑکی سے جھانکا۔ موڈی جونز انگھیٹھی کے پاس بیٹھا اپنے بچپن کے قصے سنا رہا تھا۔ کہ میں جب چھوٹا سا تھا۔ تو میرے بزرگوں نے میری آئندہ تعلیم کے بارے میں تصفیہ کرنا چاہا۔ کہ میں انجینئرنگ پڑھوں گا یا قانون ۔ دادا جان نے فرمایا کہ بچہ اپنی پسند خود بتائے گا۔ انہوں نے میری نرس آیا کے ایک ہاتھ میں ترازو دی اور دوسرے ہاتھ میں انجینئرنگ کا ایک آلا۔ اور فرمایا جو پسند آئےچن لو۔ میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ آخر کچھ دیر غور خوض کے بعد
جانتے ھو میں نے کیا کیا۔ میں نے کمال کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔۔
۔
میں آگے بڑھا اور میں نے نرس کو چن لیا۔
حماقتیں
شفیق الرحمن کی۔

Offline
 

دن اپنے آخر میں نتائج لاتے ھیں ۔ اور کچھ دنوں کے نتائج میں صرف شرمندگی ہوتی ھے ___________ شرمندگی جو ایک مثبت عمل ھے۔ لیکن ملتی صرف منفی عمل سے ھے

Offline
 

میں نیتی نماز عشق دی
تے مینوں آستایا وسوسیاں

Offline
 

ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی

Offline
 

ایک عزیزہ سے ہماری بے تکلفی تھی لہذا ہم نے ان سے کہا کہ آپ کی زیادتی ہے کہ پانچ سال پہلے بھی آپ تیس برس کی تھی اب بھی تیس برس کی خود کو بتاتی ہیں !
بولیں:
جناب انسان کی ایک زبان ہوتی ہے یہ نہیں کہ آج
کچھ کہا اور کل کچھ بیان دے دیا آپ پانچ سال بعد بھی
پوچھیں گے تو ان شاءاللہ یہی جواب ملے گا
ہم شرمندہ ہو کر رہ گئے……
ابن انشاء

Offline
 

مدحتِ گفتار کو سمجھو نہ اخلاقی سند
خوب کہنا اور ہے اور خوب ہونا اور ہے

Offline
 

اردو سے نا بلد ایک صاحب اپنے نوکر سے دو بطخیں منگوانا چاہتے تھے ۔
نوکر نے بطخ کبھی دیکھی نہیں تھی بلکہ بطخ کے نام سے بھی واقف نہیں تھا۔
ان صاحب نے سوچا دُکان دار کو چِٹھی لکھ کر دیں۔
اب ان کے سامنے مشکل یہ تھی کہ چٹھی میں کیا لکھیں۔
پہلے تو انہوں نے دُکان دار کو لکھا۔
میرے نوکر کے ذریعے دو بطائخ روانہ کیجیے۔
ان کو یہ کچھ عجیب لگا۔
پھر انہوں نے نے لکھا۔
براہ کرم! دو بطوخ روانہ کیجیے۔
یہ بھی کچھ عجیب لگا۔
تنگ آکر انہوں نے ذرا بڑا کاغذ لیا اور اس پر لکھا ۔
براہ کرم! ایک بطخ روانہ کیجیے اور اسی بطخ کے ہمراہ ایک اور بطخ روانہ کیجیے
منقول ۔۔۔۔

Offline
 

وہ کہہ نہیں سکتی..
اسکی بڑی بڑی آنکھیں اسکے دل کا حال سنا دیتی ہیں،
وہ جب رونا نہ بھی چاہے تو،
وہ آنکھیں ڈھیر سارے آنسو بہا دیتی ہیں۔
تم وہ آنکھیں پڑھ لوگے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔
وہ دن بھر بہت باتیں کرتی ہے،
کبھی دل اداس ہوجائے تو بس خاموش ہوجاتی ہے۔
اسکی خاموشی کے پیچھے ہمیشہ ایک طوفان ہوتا ہے،
تم اس طوفان کو روک لوگے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔
اسکا سانولا چہرہ سفید پڑھ جاتا ہے،
جب وہ دل میں بات لئے بیٹھی ہو۔
اسکی رنگت اسکے دل کی بیچینی بیان کرتی ہے،
تم وہ چہرہ سمجھ لو گے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔

Offline
 

ایک ٹیچر نے پیپر چیکنگ کی ڈیوٹی کی تو
وہ بتاتی ہیں کہ
ایک بچے نے پیپر میں 'ناسا' کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا۔
"ہمارے چہرے پر موجود دو سوراخوں کو پنجابی میں 'ناسا' کہتے ہیں۔
یہ سانس لینے اور سونگھنے کا کام کرتے ہیں۔
اردو میں اسے ناک کہتے ہیں"

Offline
 

زندگی کی ہر تلخ حقیقت کو صرف پہلی بار قبول کرنا مشکل ہوتا ھے۔لیکن گرمی ایسی تلخ حقیقت ھے جسے ہر سال قبول کرنا مشکل ہوتا ھے۔

Offline
 

جو کوئی جس راہ پر چلتا ہے اسے اسی راہ کے مسافر ملتے ہیں۔

Offline
 

پریتم ایسی پریت نہ کریو
جیسی کرے کھجُور
دُھوپ لگے تو سایہ نہ ھی
بھُوک لگے , پھل دُور
پریت کبیرا !! ایسی کریو
جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے
مرو تو , نہ چھوڑے ساتھ
پریت نا کریو پنچھی جیسی
جل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی
جل سوکھے مر جائے

Offline
 

تُو میرا ہے بھی نہیں... اور عالم یہ ہے کہ
.
.
.
میں تیرے کھو جانے کے خدشات میں گم ہوں