اے موسم گر یہ چل اب کی با ر ہم ہی تیری انگلی پکڑ تے ھیں
تجھےگھر لے کے چلتے ھیں
جہا ں ہر چیز ویسی کی ویسی ھے جیسی اسے تو چھو ڑ آیا تھا
کو ئی بھی منظر نہیں بد لا
تیر ا کمر ہ بھی ویسا کا ویسا ھے
جس طر ح تو نے اسے دیکھا تھا
جس طر ح تو نے اسے چھو ڑا تھا
تیرے بستر کے پہلو میں رکھی میز پر دھر ا کا فی کا وہ مگ جس کے کنا رے پر وسو سو ں اور خو اہشو ں کی جھا گ کے دھبے نما یا ں ھیں
،
اور تیرے وہ چپل بھی رکھے ھیں
جن کے بے ثمر تلو ئو ں سے اب بھی وہ خو اب لپٹے ھیں
جو اتنا روندے جا نے پر اب تک سا نس لیتے ھیں ،
اور تیرے کپڑ ے جو غمو ں کی با رشو ں سے دھل کر آئے تھے ،
میر ی الما ریو ں کے ہینگر میں اب تک لٹکے ھیں ،
دریچے کے سا تھ والی د یوار پر لٹکی گھڑی اب بھی آ دھا منٹ پیچھے ہی رہتی ھے ،
اور کیلنڈ ر پر رکی تا ریخ نے اب تک آ نکھیں نہیں جپکھیں ،
،
وہ آ نکھیں جو تمنا سے ہر دم مسکر اتیں تھیں اب شا ئد کبھی مسکرا ئیں ،
ان آنکھو ں کے کنا روں پر نمی تم کو شا ئد نظر آئے
محترمہ کو علامہ اقبال بہت پسند تھے
ایک دن پوچھا : آپ کو علامہ کی کونسی نظم سب سے زیادہ پسند ہے؟
کہنے لگیں : ویسے تو اقبال کی سبھی نظمیں بہت اچھی ہیں اور اکثر تو مجھے زبانی یاد بھی ہیں مگر ان کی نظم شکوہ کا تو کوئی جواب ہی نہیں
میں نے پوچھا : اچھا! تو پھر شکوہ سے کوئ پسندیدہ شعر ہی سنا دیجیے ۔ ۔ ۔
کچھ دیر ذہن پر زور دینے کے بعد گویا ہوئیں
شکوہ نہیں کسی سے ، کسی سے گلہ نہیں
نصیب میں نہیں تھا جو ہم کو ملا نہیں
منقول
اور ہم بچھڑ گئے
ہم ملے
ایک دوسرے سے
اور ایک دوسرے کو
چاہنے کی حد کر دی،
ہم نے اشاروں کی
زبان سیکھی
اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں
دیکھتے رہے
شدت دکھانے کیلئے
ہر میسج کے آخر میں
فل سٹاپ لگایا،
ہم ایک دوسرے کی خوشی میں
خوش ہوئے
اور اداس ہوتے تھے ایک ساتھ۔
ہم نے ایک دوسرے کا
بچوں جیسے خیال رکھا،
ایک دوسرے کو نظمیں بھیجی
اور کچھ تصویریں بھی،
میلوں دوری سے ایک دوسرے کی
دھڑکنیں تیز کی
ہم نے کچھ نامکمل خواب بھی دیکھیں
اور ایک وش لسٹ بنائی
جو کہ وش لسٹ ہی رہی
ہم نے ایک دوسرے کو
پھول اور تتلی سے تشبیہ دی
ہم اتنے خوش تھے کہ ہمیں
اپنی ہی نظر لگ گئی۔
"اور ہم بچھڑ گئے"
لیکن ایک بات بتائیں
جو کبھی مکمل ملے ہی نہیں
وہ بچھڑ کیسے گئے ؟
منو بھائی نے فیض صاحب سے پوچھا۔ میں کس زبان میں شاعری کروں؟؟ ۔۔
فیض صاحب نے جواب میں فرمایا۔۔ جس زبان میں خواب دیکھتے ھو۔۔
ننانوے فیصد پاکستانی لڑکیوں کے نام کے آخر میں "آآآآآآآ ‛ کی پکار آتی ھے۔۔۔۔۔
یقین نہیں ھوتا تو ۔۔۔۔ اپنا نام پکار کے دیکھیں ذرا _____ !!!
میں ڈرتا ڈرتا میس میں داخل ہوا۔ بڑا کوٹ اتارا۔ پوستین اتاری۔ کھڑکی سے جھانکا۔ موڈی جونز انگھیٹھی کے پاس بیٹھا اپنے بچپن کے قصے سنا رہا تھا۔ کہ میں جب چھوٹا سا تھا۔ تو میرے بزرگوں نے میری آئندہ تعلیم کے بارے میں تصفیہ کرنا چاہا۔ کہ میں انجینئرنگ پڑھوں گا یا قانون ۔ دادا جان نے فرمایا کہ بچہ اپنی پسند خود بتائے گا۔ انہوں نے میری نرس آیا کے ایک ہاتھ میں ترازو دی اور دوسرے ہاتھ میں انجینئرنگ کا ایک آلا۔ اور فرمایا جو پسند آئےچن لو۔ میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ آخر کچھ دیر غور خوض کے بعد
جانتے ھو میں نے کیا کیا۔ میں نے کمال کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔۔
۔
میں آگے بڑھا اور میں نے نرس کو چن لیا۔
حماقتیں
شفیق الرحمن کی۔
دن اپنے آخر میں نتائج لاتے ھیں ۔ اور کچھ دنوں کے نتائج میں صرف شرمندگی ہوتی ھے ___________ شرمندگی جو ایک مثبت عمل ھے۔ لیکن ملتی صرف منفی عمل سے ھے
میں نیتی نماز عشق دی
تے مینوں آستایا وسوسیاں
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
ایک عزیزہ سے ہماری بے تکلفی تھی لہذا ہم نے ان سے کہا کہ آپ کی زیادتی ہے کہ پانچ سال پہلے بھی آپ تیس برس کی تھی اب بھی تیس برس کی خود کو بتاتی ہیں !
بولیں:
جناب انسان کی ایک زبان ہوتی ہے یہ نہیں کہ آج
کچھ کہا اور کل کچھ بیان دے دیا آپ پانچ سال بعد بھی
پوچھیں گے تو ان شاءاللہ یہی جواب ملے گا
ہم شرمندہ ہو کر رہ گئے……
ابن انشاء
مدحتِ گفتار کو سمجھو نہ اخلاقی سند
خوب کہنا اور ہے اور خوب ہونا اور ہے
اردو سے نا بلد ایک صاحب اپنے نوکر سے دو بطخیں منگوانا چاہتے تھے ۔
نوکر نے بطخ کبھی دیکھی نہیں تھی بلکہ بطخ کے نام سے بھی واقف نہیں تھا۔
ان صاحب نے سوچا دُکان دار کو چِٹھی لکھ کر دیں۔
اب ان کے سامنے مشکل یہ تھی کہ چٹھی میں کیا لکھیں۔
پہلے تو انہوں نے دُکان دار کو لکھا۔
میرے نوکر کے ذریعے دو بطائخ روانہ کیجیے۔
ان کو یہ کچھ عجیب لگا۔
پھر انہوں نے نے لکھا۔
براہ کرم! دو بطوخ روانہ کیجیے۔
یہ بھی کچھ عجیب لگا۔
تنگ آکر انہوں نے ذرا بڑا کاغذ لیا اور اس پر لکھا ۔
براہ کرم! ایک بطخ روانہ کیجیے اور اسی بطخ کے ہمراہ ایک اور بطخ روانہ کیجیے
منقول ۔۔۔۔
وہ کہہ نہیں سکتی..
اسکی بڑی بڑی آنکھیں اسکے دل کا حال سنا دیتی ہیں،
وہ جب رونا نہ بھی چاہے تو،
وہ آنکھیں ڈھیر سارے آنسو بہا دیتی ہیں۔
تم وہ آنکھیں پڑھ لوگے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔
وہ دن بھر بہت باتیں کرتی ہے،
کبھی دل اداس ہوجائے تو بس خاموش ہوجاتی ہے۔
اسکی خاموشی کے پیچھے ہمیشہ ایک طوفان ہوتا ہے،
تم اس طوفان کو روک لوگے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔
اسکا سانولا چہرہ سفید پڑھ جاتا ہے،
جب وہ دل میں بات لئے بیٹھی ہو۔
اسکی رنگت اسکے دل کی بیچینی بیان کرتی ہے،
تم وہ چہرہ سمجھ لو گے نا ؟
وہ کیا ہے نا،
وہ کہہ نہیں سکتی۔
ایک ٹیچر نے پیپر چیکنگ کی ڈیوٹی کی تو
وہ بتاتی ہیں کہ
ایک بچے نے پیپر میں 'ناسا' کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا۔
"ہمارے چہرے پر موجود دو سوراخوں کو پنجابی میں 'ناسا' کہتے ہیں۔
یہ سانس لینے اور سونگھنے کا کام کرتے ہیں۔
اردو میں اسے ناک کہتے ہیں"
زندگی کی ہر تلخ حقیقت کو صرف پہلی بار قبول کرنا مشکل ہوتا ھے۔لیکن گرمی ایسی تلخ حقیقت ھے جسے ہر سال قبول کرنا مشکل ہوتا ھے۔
جو کوئی جس راہ پر چلتا ہے اسے اسی راہ کے مسافر ملتے ہیں۔
پریتم ایسی پریت نہ کریو
جیسی کرے کھجُور
دُھوپ لگے تو سایہ نہ ھی
بھُوک لگے , پھل دُور
پریت کبیرا !! ایسی کریو
جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے
مرو تو , نہ چھوڑے ساتھ
پریت نا کریو پنچھی جیسی
جل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی
جل سوکھے مر جائے
تُو میرا ہے بھی نہیں... اور عالم یہ ہے کہ
.
.
.
میں تیرے کھو جانے کے خدشات میں گم ہوں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain