دیکھی ہے بے رخی کی آج انتہا ہم نے
ہم پر نظر پڑی تو محفل سے اٹھ گئے
غم بھی دئیے تو یوں کہ نہ واپس لئے کبھی
ان کے ہماری ذات پہ احسان ہی رہے
ہم اپنے درد کا شکوہ ان سے کیسے کریں فراز
محبت تو ہم نے کی ہے وہ تو بے قصور ہے
جی تو چاہتا ہے کبھی آگ لگا کر دل کو
پھر کہیں دو ر کھڑے ہو کر تماشا دیکھوں
تحریر میں آجائے اگر لفظ جدائی
محسوس یوں ہوتا ہے قلم ٹوٹ رہا ہے
پھر نہ ہمت ہو ئی سوا لوں کی
اتنا مختصر جواب ملا۔
محبت کی حقیقت سے ہم خوب واقف تھے
بس یو نہی شو ق سا تھا زندگی برباد کرنے کا۔
پیا ر وہ ہے جس میں کسے کے ملنے کی امید بھی نہ ہو
پھر بھی انتظار اُسی کا ہو۔
کس کس ادا سے مانگا ہے تمہیں رب سے
آ ہ ! کبھی مجھے سجدوں میں سسکتا ہوا دیکھ۔
جا نے کیا ایسی بھی چا ہت ہمیں تم سے تھی
ہم نے آ خری خوا ہش میں بھی تیری محبت مانگی۔
تنہا ئی میں جو چُومتا ہے میرے نام کے حروف
محفل میں وہ شخص میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔
میں نے کہا بہت پیا ر آ تا ہے تم پے محسنؔ
وہ مسکرا کے بو لے تمہیں اس کے سوا آ تا بھی کیا ہے۔
بے بس کر دیتا ہے قانونِ محبت ورنہ
میں تمہیں اتنا چا ہوں کہ انتہا کر دوں۔
کچھ اس ادا سے تو ڑے ہیں تعلق اس شخص نے
کہ اِک مدت سے ڈ ھو نڈ رہا ہو ں قصور اپنا۔
میری یا دوں سے اگر بچ نکلوتو وعدہ ہے میرا تم سے
میں خو د دُنیا سے کہہ دُوں گا کمی میری وفا میں تھی۔
لو گ شور سے اُ ٹھ جا تے ہیں
مجھے سونے نہیں دیتی خا مو شی تیری۔
وہ بات بات پر دیتا ہے پرندوں کی مثال
صاف صاف نہیں کہتا کہ میرا شہر چھوڑ دو۔
ہم سے محبتوں کی نما ئش نہ ہو سکے گی
بس اتنا جانتے ہیں کہ تجھے چا ہتے ہیں ہم۔
تیری محفل سے اٹھے کسی کو خبر نہ تھی
بس تیرا مڑ مڑکر دیکھنا ہمیں بدنام کر گیا۔
خو د کو بھی بیچ ڈالا ہم نے پھر بھی نہ ملی
بازارِ محبت میں وفا سب سے مہنگی نکلی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain