لوگ تو مجبور ہیں ماریں گے پتھر
کیوں نہ شیشوں سے کہہ دیں ٹوٹا نہ کریں ۔
ہم نے آغوش محبت سے یہ سیکھا ہے سبق
جس نے زندہ نہیں رہنا وہ محبت کرلے۔
جانے کس عمر میں جائے گی یہ عادت اپنی
رُوٹھنا اُس سے تواوروں سے الجھتے رہنا۔
آنسو بھی میری آنکھ کے اب خُشک ہوگئے
تونے میرے خلوص کی قیمت بھی چھین لی۔
ترس جاؤ گے ہمارے منہ سے سننے کو ایک ایک لفظ
پیار کی بات توکیا ، ہم شکایت بھی نہ کریں گے۔
چل دوست، کسی انجان بستی میں چلیں
اس نگرمیں تو سبھی ہم سے خفارہتے ہیں۔
جو روشنی میں کھڑے ہیں وہ جانتے ہی نہیں
ہواچلے تو چراغوں کی زندگی کیا ہے۔
اِک ٹوٹی پھوٹی کشتی اِک خشک سمندر دیکھا
کل شب میں نے جھانک کے اپنے اندر دیکھا۔
تم قافلے محبت کے کچھ دیر روک لو
آتے ہیں ہم بھی پاؤں سے کانٹے نکال کر۔
یہ نہ پوچھ شکایتیں کتنی ہیں تم سے
تو بتا تیرا کوئی اور ستم باقی تو نہیں۔
چیخ اُ ٹھتا ہے میرے اندر بھی کچھ
جب میں کہتا ہوں کہ کو ئی با ت نہیں۔
تمہاری بے رُخی پر بھی لُٹا دی زندگی ہم نے
اگر تم مہربان ہوتے ۔۔ہمارا حال کیا ہوتا۔
کو ئی بھی میرے پاس نہیں تھا دِلاسے کے لئے
میں اپنی ہی با نہوں میں سر رکھ کر خو ب رویا۔
ہماری ساری یادیں سنبھا ل کر رکھنا
ہم نہ ہو نگے تو کام آ ئیں گی۔
پچھتا ؤ گے بہت ہم سے بچھڑ کر مان جا ؤ
یہ چا ہت کے سجدے ہیں قضا سوچ کر کرنا۔
اُسے بتا دینا کسی کی زندگی تم تھے
اُ سے یہ بھی بتا دینا با لآ خر مر گیا کو ئی۔
آ ؤ ۔۔آ نکھیں ملا کر دیکھتے ہیں
کون ۔۔کتنا اُداس رہتا ہے۔
کتنا مشکل ہو تا ہے اس شخص کو منا نا
جو نا را ض بھی نہ ہو اور بات بھی نہ کرے۔
بہت بے بس ہو جا تا ہے انسان جب
کسی کا ہو بھی نہیں سکتا اور اسے کھو بھی نہیں سکتا۔
ٹوٹ کر چا ہنے والے اکثر
ٹو ٹ کر ہی رہ جا تے ہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain