جب سعادت حسن منٹو فسادات کی وجہ سے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آنے لگے تو ان کے ایک دوست شیام چڈا نے شراب کی بوتل میز سے اٹھاتے ہوئے اُن سے پوچھا "ویسے بھی تم کون سے اتنے مسلمان ہو کہ تم پاکستان جا رہےہو منٹو نے جواب دیا: " اتنا تو ہوں کہ مارا جا سکوں "
اس لیے مردوں کے ساتھ عورت کی جسمانی صحت اور زرخیزی ماپنے کا سب سے بہترین حل یہی تھا کہ وہ اس کی جسامت پر فوکس کرتے اور اس کے نتیجے میں مرد اس بات پر یقین کرنے لگا کہ عورت کے کمر اور کولہوں کا متناسب ہونا اسکی صحت اور زرخیزی کی علامت ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات مرد کے دماغ میں اس قدر پختہ ہو گئی کہ یہ مرد کی جبلت کا حصہ بن گئی۔ مرد کے لیے عورت کی صحت اور زرخیزی ماپنے کا یہ واحد سگنل نہیں ہے بلکہ اور بھی ہے لیکن وہ پھر کبھی۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت بھی مرد میں بعض چیزیں دیکھتی ہے اور وہ اس میں مرد سے کروڑوں گنا زیادہ محتاط ہے کیونکہ اس نے ایک ہی مرد کے بچہ کو پھر کئی سال پالنا ہوتا ہے۔ اس لیے عورت بہت زیادہ Choosy ہے اور آسانی سے کسی بھی چیز کو سلیکٹ نہیں کرتی ہے کیونکہ یہ چیز ارتقائی سفر کے دوران اس کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ تفصیل بعد میں
دنیا بھر میں مختلف ممالک کے لوگوں پر ہوئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کو وہ عورتیں زیادہ پسند ہوتی ہے جن کا Waist to hip ratio یعنی کہ کمر اور کولہوں کا تناسب 0.6 سے 0.8 کے درمیان پایا جاتا ہو۔ جو سب سے پسندیدہ ترین ہے وہ 0.7 Whr ہے۔ اس بات کو اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو مردوں کو پتلی کمر والی عورتیں زیادہ پسند ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ استثنیٰ یعنی کہ Exceptions موجود ہے لیکن مردوں کی زیادہ تر پسند وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ دراصل یہ سب انسان کے ارتقائی سفر کے دوران مردوں کی شخصیت کا حصہ بنا ہے۔ مردوں کو اپنی نسل کے پھیلاؤ کے لیے ایک صحتمند اور زرخیز (Fertile) عورت درکار ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ تھا کہ انسانی عورت باقی جانوروں کے مادہ کی طرح اپنی زرخیزی یعنی Fertility کی واضح نشانیاں نہیں دکھاتی ہے۔ continue