ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا ذات در ذات ہم سفر رہ کر اجنبی اجنبی کو بھول گیا صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات میں اسے شام ہی کو بھول گیا
کچھ یاد کو تیری تازہ کرتے ہیں آج تم سے بات کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تم اس دھند کی مانند موجود ہو ہر جگہ چلو تمہیں آواز دینے کا ہم ارادہ کرتے ہیں (شاعرِ غروب)
شب جاگ کر یوں اداس ہونے سے کیا ہو گا اک شخص تھا چھوڑ گیا رونے سے کیا ہو گا ہاں مانا کے دل کو رنج دیے اس نے ہزار یوں آنسوؤں سے زخموں کو دھونے سے کیا ہو گا (شاعر غروب)