مرشد میری تو منتیں بھی ابھی باقی تھی
اتنی جلدی وہ شخص بچھڑ گیا مجھ سے
کچھ لوگ تحفے بھی کمال دتیے ہیں
وحشتیں، تنہائیاں، الجھنیں، رسوائیاں
اک عشق نگر کی وادی تھی
جہاں پیار کی ندیا بہتی تھی
کچھ دل والے بھی رہتے تھے
جو پیار کی باتیں کرتے تھے
اور بہار کا موسم آتا تھا
پھول پیار کے کھلتے تھے
اک دن وہ بستی اجڑ گئی
اور سب کی ہستی بکھر گی
فر ہر اک دل کو روگ لگا
جیون بھر کا سوگ لگا
دیوانے پھرتے تھے اورکہتے تھے
اقرار کسی سے نہ کرنا
تم پیار کسی سے نہ کرنا
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺍْﮌﯼ ﻣﯿﺮﯼ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻋﺬﺍﺏ ﭼﮑﮭﮯ ہیں
جُدا ہوئے تو جُدائی میں یہ کمال بھی تھا ۔۔
کہ اُس سے رابطہ ٹوٹا تھا ۔۔۔ بحال بھی تھا
اکتوبر رہ گیا آدھا______ نومبر آنے والا ہے
تیری یادوں کو لے کر پھر، دسمبر آنے والا ہے
تیرا بچھڑنا کوئی عام واقعہ نہ تھا
کئی برس لگے خود کو یقین دلاتے ہوئے
جس دن موت آئے گی وہ دن ان تمام دنوں سے افضل ہو گا جن دنوں میں کئی بار مرنا پڑتا ہے
اور پھر جب
دل کی مرادیں پوری نہ ہوں تو انسان دماغی مریض بنتا جاتا ہے
یہ اُداس شاعری اس پر تمہاری یاد ۔
اک تو سزا سی زندگی اس پر تمہاری یاد۔
دو کام ایک ساتھ بھلا کس طرح کروں۔
تمہارے لیے شاعری اس پر تمہاری یاد۔
میں وہ کتاب ہوں جسے پڑھنے کے بعد لوگ
ترجمے کے لیے تیری_____ طرف دیکھیں گے
مجھے لگتا ہے میرے خواب ادھورے رہ جاینگے
مجھے شک ہے کہ میری موت جوانی میں ہوگی
آپکی ہر بات سر آنکھوں پر❤
بس مجھے چائے پینے سے نہ روکیے گا۔❤☕
بابا کہتے ہیں---!
تم میری آزاد اڑتی پھرتی تتلی ہو-
جسے میں نے کبھی جار میں بند نہیں کیا-
اڑنے اور اڑتے رہنا کی اجازت دی ہے--
بابا کہتے ہیں بیٹا اپنے رنگوں کو زنگ مت لگنے دینا-
تتلییوں کو پکڑ کر ان کے پر کاٹنے والے بہت ہیں-
بسس اپنی ہنسی کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی کسی کے ہاتھ نا آنا🖤🥀
آئیے نہ ، سمیٹیۓ مجھ کو
دیکھئیے نہ ، بکھر گئی ہوں میں
اِک دن میرے چاہنے والے مجھے ڈھونڈتے پھرے گے اور انہیں یہ پروفائل اور میرے سب نمبرز بند ملیں گے وہ اچانک چونک اٹھیں گے اور تب تک میں بہت دور نکل جاؤں گی بہت دور
کا مطلب سمجھتے ہو ناں ۔۔۔
مجھے کبھی کسی کا دل جیتنا نہیں آیا. میں نے کبھی کسی کو متاثر نہیں کیا ، کوئی آتا ہے بات کرتا ہے تنگ ہوکر خود ہی چھوڑ جاتا ہے
میں قہِقوں میں گِھری ہوئی لڑکی!
کِسی دِن کمرے سے مردہ ملوں گی.
میں گریزاں ہوں محبت سے تو سبب کچھ ہیں
ورنہ کون ہے جو چاہت کا طلبگار نہیں
میں تو سرپائے محبت ہوں مگر پھر بھی
مجھے اس لفظ "محبت" کا اعتبار نہیں۔
لٹا رہی ہوں جس پہ میں محبتیں حضور
ممکن ہے وہ بھی شخص میرا ہمسفر نہ ہو
پہلو میں دل کے بیٹھو مگر یہ دھیاں رہے
اٹھنے لگو تو بس اک دل کو خبر نہ ہو
ہم ایسی شبِ غم کے ہیں آسیب میں گھرے
جس کی تاریکیوں کی شاید سحر نہ ہو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain