ان دو رشتوں کو ختم کرتے ھوے مجھے بھی بہت تکلیف ھو گی کیونکہ ان کے ساتھ میری کوئ دشمنی نہیں ہے یہ بہت اچھے لوگ ہیے اور میں کیسی اچھے انسان کو نہیں مارنا چاہتا،میں صرف برے لوگوں کو مارتا ہو صرف برے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہو کیسی اچھے انسان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہتا لیکن تم نے بہت بڑی غلطی کی ہیے اور تمہیں غلطی کی سزا ملی گی اور تمہاری سزا یہ ہیے کہ تمہارے یہ دونوں آخری رشتے بھی،،،،،، نہیں دیکھو تم جو کہو گے مین وہ کرو گی لیکن خدا کے لیے دادا دادی کو کچھ مت کرنا ان کا کوئ قصور نہیں ہے انہوں نے کچھ نہیں کیا، وہ اس کی بات کاٹتے ھوے بری طرح سے تڑپ اٹھی تھی اپنی آنکھوں کے سامنے سارے رشتے کھو کچھی تھی اور اب ان لوگوں کو نہیں کھو سکتی تھی،، اس کی بات سن کر دوسری طرف اس کے لبوں پر تبسم بکھر گیا تھا میں تمہیں بےواقوف سمجھ رہا تھا
ہیلو دادا بول کیو نہیں رہے آپ لوگ گھر پینچ گے نا سب خیریت ہیے نا آپ چپ کیو ہیے وہ مسلسل بول رہی تھی لیکن دوسری طرف سے کوئ آواز نا ائ اور کچھ سیکنڈ کے بعد اس نے جو آواز سنی شاہد وہ آواز زندگی بھر نہیں سننا چاہتی تھی،،،،، جیسے ہی فون اٹینڈ ھوا دوسری طرف سے اسے بے حد کم لوگو کی آواز سنای دی تو اس نے فورم دادا جان سے فون چھین کر اپنے کان سے لگایا تھا، تمہارے پاس بس یہی بچے کچے رشتے بچے ہیے کیو انہیں خطرے میں ڈالا تم نے کیا تمہیں تمہیں رشتوں کی قدر نہیں مخلص لوگ زندگی میں بہت کم ملتے ہیں ڈالنگ تمہیں انہیں میرے پاس اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا جبکہ بقول تمہارے میں ایک حیوان ہو اور حیوان تو کچھ بھی کر سکتا ہیے جانتی ہو اب یہ حیوان کیا کریے گا اب یہ حیوان تم سے یہ دونوں رشتے بھی چیھن لے گا پہر کیا کرو گی تم کہا جاو گی
اور سچ یہی تھا اگر وہ اپنی بیوی کے ماں باپ کا قتل کرسکتا تھا تو وہ لوگ کون تھے اس کے سامنے کیا حیثیت رکھتے تھے وہ انہیں مارنے میں زیادہ ٹائم کیو لگاے گا آج انہیں اس معصوم لڑکی پر ترس آرہا تھا جو بڑا کی غلطی کی وجہ سے اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی اور اب شاہد ساری زندگی اس پاگل انسان کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی برباد کرے گی یا شاہد یہ شخص اسے بھی ختم کردے گا وہ ٹھیک کہری تھی آدمی صرف اور صرف اپنے مطلب کے لیے جیتا تھا اس وقت بھی یہ صرف اور صرف اپنے مطلب کے لیے ہی تو اس کا پتہ کروا رہا تھا اس آدمی کو دولت چاہیے تھی عنائش کے حصے کی اور دولت کے لیے انسان کیسی بھی حد تک گر سکتا ہیے وہ انجان تو نہیں تھے ان کی بیوی کے علاوہ کیسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور وہ اس وقت اپنی بیوی کو بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے
دادی کی کنپٹی پر ریوالور رکھتے ھوے پھوچھنے لگا،مجھے کسی پر ظلم کرنے کا یا بدعا لینے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی آپ لوگوں کے ساتھ میری پرسنل دشمنی ہے تو بہتر ہے ہم مزید اپناوقت برباد نہیں کریں آپ لوگ میری بیوی کو میرے حوالے کریں،اور میں یہاں سے چلا جاؤں گا،اس کے بعد میں آپ لوگوں کو بلکل تنگ نہیں کرونگا،جلدی سے بتائیں کہ وہ کہاں ہے،میں گھر کی تلاشی لے چکا ہوں،مجھے یقین ہے یہ جو آپ دونوں کی واپسی آدھی رات کے بعد ہوئی ہے نہ آپ نے ضرور کوئی ایسا کام کیا ہے،جو مجھے کچھ غلط کرنے پر مجبور کرے گا،اس کی ریوالو اب بھی دادی کی کنپٹی پر تھی جبکہ دادا کو اس کے انداز سے خوف آرہا تھا اس کے انداز پر تو دادی کو بھی لگ رہا تھا،وہ کبھی بھی گولی چلا کر ان کی زندگی کے آخری لمحے ختم کر سکتا ہے،
کہا تھے آپ لوگ میں کب سے آپ لوگوں کا انتظار کرا تھا اس طرح سے اپنے گھر کے داماد کو کوئ انتظار کروا تا ہیے ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے آپ کی تو کوئی بیٹی ہی نہیں کہ آپ کو اپنے داماد کی خدمت کرنے کا موقع مل سکے لیکن کوئی بات نہیں آپ کو خدمت کرنے کا موقع آپ کو یہ داماد دے گا ذرا اپنی بیٹی کو بلائیں ہا کہیں چھوڑ کر آئے ہیں اسے ۔ویسے اتنی رات گئے آپ کی واپسی کا یہی مطلب نکلتا ہے، کہ آپ لوگوں نے میری برداشت کے باہر کوئی کام کیا ہے،لیکن شاید میں پھر بھی برداشت کرلوں، آپ کی غلطی کو لیکن شاید آپ میری غلطی برداشت نہ کر پائیں گے وہ وہ قدم در قدم اٹھاتا ان کے سامنے آرہا تھا اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ برسو سے انہیں جانتا تھا، تو کیا خیال ہے میری غلطی برداشت کر سکیں گے وہ اپنا ریوالور دادی کی کنپٹی پہ رکھتے ہوئے
ان کے گھر کا تالا ٹوٹا ھوا وہی پڑا تھا انہو نے باہر کھڑی گاڑیوں کو پہچان لیا تھا مطلب کے وہ شخص واپس آگیا ہیے اسے کل آنا تھا وہ آج ہی آگیا ہیے کیا اسے بھنک لگ گی تھی کیا وہ جان گیا تھا کے اس کی بیوی کو بیج دیا ہیے دادا جان کو ابپریشانی ھونے لگی تھی یہ آدمی بری طرح سے اس معصوم کے پیچھے لگ گیا تھا اس کے والدین کا قتل کر چکا تھا اور اب ناجانے اس معسوم لڑکی سے کیا چاہتا ہے اس تھوڑے سے عرصے میں ہی وہ ان دونوں کے لیے بہت عزیز ھوگی تھیبلکل اپنی سکی پوتی کی طرح اور وہ اپنی پوتی کے ساتھ بلکل نہیں ھونے دیں سکتے تھے اس لیے ان دونوں کو کچھ بھی کیو نا کرنا پڑھے لیکن انہو نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس آدمی کا مقابلہ ضرور کریں گے وہ اس معسوم کی زندگی اس حیوان کے ساتھ برباد نہیں ھونے دیں گے ان دونوں نے اندر قدم رکھا تو انہیں سامنے ہی صوفے پر بیٹھا نظر ایا
یہاں ان دونوں نے سب سے اس کی ملاقات اپنی پوتی کے روپ میں کروائ تھی لوگو کے لیے یہ بات قبول کرنا مشقل تھاکہ اپنے سالو بعد ان کی پوتی زندہ ہیےان کے پاس واپس آگیا ہیے لیکن دادا جان نے سب کچھ بہت صافائ سے ہنڈل کر لیا تھا عنائش پردے کی پبند تھی اس لیے اسے محلے داروں یا اس پاس کے لوگو سے کوئ ملاقات نہیں کی سب کو ہی اس کی نیچر پسند ائ اور پھو کتنے دن لوگ دوسرو کے معاملے میں ٹانگ اڑاتے لوگوں نے قبول کر ہی لیا کہ وہ ان کی پوتی ہیے لیکن یہ سب کچھ کب تک چل سکتا تھا اس کہانی کو اک نا اک دن ختم ھونا ہی تھا اور اب کہانی آخر تک پہنچ چکی تھی اب ان کی پوتی کا اصل حقدار آگیا تھا جس سے بچانے کے لیے وہ اسے ملتان راوانہ کر تو چکے تھے لیکن اندر ہی اندر ڈر بھی تھا کہ کچھ غلط نا ھو جاے وہ دونوں گھر واپس اے تو اپنے گھر کا دروازہ کھلا ھوا دیکھا
کیونکہ چار مہینوں کے بعد سید مکرش شاہ تمہیں دنیا کے آخری کونے سے بھی نیکال ڈالے گا اسے دور تک اس کی آواز سنائ دیں رہی تھی جبکہ وہ رکی نہیں تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھتی گی اس نے بس اک بار بھاگتے ھوے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا وہ وہی اسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے وہ بھاگ کر آئ تھی اسے دیکھ کر وہ بری طرح سے ڈر گی تھی سامنے سے آتی ھوئ گاڑی تیزی سے اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی لیکن اچانک ھونے والے آکسیڈنٹ کے خوف نے اسپر ایسا حملہ کیا تھا کہ وہ وہی پر زمین بوس ھوگی اسے اچانک گرتے دیکھ کر مکرش اس کی طرف بھاگا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس گاڑی سے نیکلنے والے بزرگان نے اسے تھام کر اپنی گاڑی میں بیٹھایا اور اپنے ساتھ لے گے جب تک وہ لوگ اپنی منزل تک پہنچتے ان سے پہلے ہی انکی ساری معلومات مکرش تک پہنچ گئی تھی وہ لوگ کون تھے کہا کے رہنے والے تھے
کب تک کیھلنا ہیے بتا دو مجھے زیادہ کیھلنے کی عادت نہیں ہیے جلد بور ھو جاتا ہو وہ قدم در قدم اس کی طرف اٹھاتا ھوا بول رہا تھا جب کے وہ دونوں آدمی زمین پر اد مری حالت میں پڑے تھے دور رہو مجھ سے،،،،میرے پاس مت انا،،،ورنہ اچھا نہیں ھوگا،،،وہ پیچھے کی طرف قدم اٹھاتی کہری تھی جبکہ وہ اس کی معسومانہ دھمکیوں پر مسکراتے ھوے مزید آگے بڑھ رہا تھا اس سے پہلے وہ کوئ اور قدم اٹھاتا وہ پیچھے کی طرف بھاگ گی جبکہ وہ اس کے بھاگنے پر اس کے پیچھے نہیں بھاگا تھا بلکہ اس لے لبوں پر اک بار پہر مسکراہٹ اگی تھی چار مہینے ہیے جی لو اپنی زندگی بھاگ لو جتنا بھاگنا ہیے مجھ سے کیونکہ چار مہینے بعد تم میری ھو گی اس دنیا کی کوئ طاقت تمہیں مجھ سے الگ نہیں کر پاتے گی یہ بات یاد رکھنا سنا تم نے صرف چار مہینے ہیے تمہارے پاس کرو اپنی منمانی چھپو جتنا چھپ سکتی ھو
زراور نے اک نظر اسے دیکھا لیکن دادا جان کی پکار پر تیزی سی ان کی کمرے کی طرف بڑھ گیا چاچی جان کو تو موقع مل گیا تھا اک بار پہر سے عنایہ کو باتیں سنانے کا کیونکہ ان کے حساب سے یہ سب کچھ عنایہ کی وجہ سے ہی تو ھوا تھا ان کے حساب سے اس فساد کی چڑ وہی تھی،،،،،،اسے وہاں چھپے تقریباً اک گھنٹے سے زیادہ وقت ھو گیا تھا اس نے ہمت کر کہ اس جگہ کو چھوڑا جب اچانک اس نے سامنے دو آدمیوں کو دیکھا یہ وہی دو آدمی تھے جو اتنی دیر سے اس کا پیچھا کرہے تھے لیکن اس وقت اسے ان لوگو سے کم ڈر محسوس ھوا ٹھا جبکہ سامنے کھڑا شخص اسے اس سے زیادہ ڈرا رہا تھا اگلے ہی لمحے وہ وہاں سے بھاگنے کا راستہ تلاش کرنے لگی اس کی جلد بازی پر مکرش شاہ کے ہونٹوں پر گہری تبسم بیکھرا تھا مزا دیں رہی ہیے یہ چھوپن چھپائی مجھے کب تک کیھلنا ہیے بتا دو مجھے زیادہ کیھلنے کی عادت نہیں ہیے