لیکن پہر بھی اس کا انتظار بہت الگ تھا وہ آنے والے ہر لمحے میں اس کا انتظار کرہا تھا اگر وہ اج اس کی پہنچ سے دور نیکل جاتی تو وہ ہار جاتا اور مکرش شاہ کیسی سے ہارنے کا دی نہیں تھا اور ایک چھوٹی سی لڑکی سے ہارنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا وہ اسے بے تحاشا تکلیف دے رہا تھا وہ نا جانے اس سے کون سے کون سے حساب پورے کرہا تھا لیکن وہ اس کی زندگی کا یہ لمحہ اذیت ناک بنا رہا تھا ،گاڑی سے اتر کر اسنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر اس فاصلے کو طہ کر شروع کیا جو گاڑی اور گھر کے بیج تھا شاہد وہ اتنی خوفزدہ زندگی میں کبھی نہیں ھوئ تھی لیکن اک اسے ڈر لگرہا تھا اپنے انجام سے یہ سوچ سوچ کر اسے خوف آرہا تھا کہیں یہ اس کی موت کا دن تو نہیں وہ مرنے سے ڈرتی تھی اور وہ جانتی تھی وہ اس شخص کے ساتھ بے موت ماری جاے گی وہ اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پیر مارہی تھی
وہ مکرش شاہ کے جنون سے پیچھلے 13سال تے واقف تھا پیچلھے 13سال سے اسے مکرش شاہ کے ڈرائیور کے طور پر نوکری ملی تھی اور تب سے لے کر اب تک وہ اس کی رگ رگ سے واقف ھو چکا تھا اور وہ سید مکرش شاہ کی مرضی کے خلاف جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا اللہ پر بھروسہ رکھو بی بی وہ دو جہانوں کا مالک اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ کیسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کرتا اور یقین کرو تمہارے ساتھ بھی کچھ برا نہیں ھو گاوہ گاڑی ڈرائیو کرتے بے حد نرم لہجے میں بولا،لیکن اس کے جواب میں عنائش نے کچھ نہیں کہا ،،،وہ انتظار کرہا تھا اور ایسا پہلی بار ھوا تھا مکرش شاہ کیسی کا منتظر تھا کبھی وہ چل پہر کر اپنے انتظار کی بے چینی ان پر ظاہر کرتا تو کبھی صوفے پر بیٹھ کر بار بار اپنے ڈرائیور کو فون کرتا جو اسے بتا چکا تھا کے وہ اسکی امانت کو لیں کر نکل چکا ہیے
اور اس کی مرضی کے خلاف وہ سانس بھی نہیں لے سکتی کاش وہ اس سے دور بھاگ سکتی لیکن ایسا نہیں کر سکتی تھی اپنے ماں باپ کو کھو چکی تھی اور اب دادا دادی ، ان کا کیا قصور ہے ان لوگوں نے تو صرف اس بے سہارا لڑکی کو سہارا دیا تھا صرف انسانیت کی خاطر اس کی مدد کی تھی اور آج وہی انسانیت ان کے گلے پڑھ گی تھی صرف اس کی وجہ سے وہ اتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے کاش وہ شخص اس کی زندگی میں آتا ہی نہیں تو آج اس کی زندگی کچھ اور ھوتی وہ اپنے والدین کے ساتھ ہستی مسکراتی زندگی گزراہی ھوتی اپنی سوچوں میں اس شخص کو سوچتی وہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس کے یوں اچانک رونے پر ڈرائیور نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن پہر فورآ ہی نیگاہو کا زاویہ بدل گیا اگر مکرش شاہ کو خبر ھو گی کے ڈرائیور نے پیچھے مڑ کر اس کی منکوحہ کی جانب نیگاہیں کی ہیے تو وہ ناجانے اس کا کیا حال کرتا ،
وہ اسے بتا دینا چاہتا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہیے لیکن ایسا ممکن ہی نہیں تھا فل حال ان دونوں میں بہت فرق تھا اور وہ جانتا تھا کے آگر اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو یقیناً سب کو اعتراض ھو گا اس لیے اس نے اپنے خواہش کا اظہار کرنے کے لیے اک ایسے دن کا انتخاب کر لیا تھا کے اس دن کی خواہش کو ٹال نہیں سکے گا وہ جلدی ہی دادا جان کی بہت بڑی خواہش پوری کرنے والا تھا دادا جان پیچھلے 28 سال سے ایک زمین کے پیچھے لگے ھوے تھے اور وہ بہت جلد دادا جان کی سالگرہ پر اس زمین کو ان کے نام کروانے والا تھا اور وہ جانتا تھا اس دن وہ دادا جان سے جو مانگے گا ملے گا کیونکہ ان کی یہ عادت بہت پرانی تھی کے وہ اپنی سالگرہ پر اپنے پوتوں کی کوئ نا کوئ خواہش ضرور پوری کرتے تھے اب صرف اسے اس دن کا انتظار تھا اور پہر اسے اس کی من کی مراد مل جاتی
اور وسے بھی گفٹ قیمتی معنی نہیں رکھتی خلوص معنی رکھتا ہیے اور میں یہی چاہتی ہو کے میری پیاری سی سہیلی مجھے میری مرضی کے مطابق خرید کر دے،اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو عنایہ بھی ہاں میں سر ہلا دیا اس معاملے میں وہ کبھی بھی اس سے بحث نہیں کرتی تھی کیونکہ بحث کا کوئ فائدہ ھوتا ہی نہیں تھا زرشے کے پاس ہمیشہ کوئ نا کوئ مضبوط دلیل موجود ھوتی تھی جس پر وہ ہمیشہ خاموش ھو جاتی تھی،،، وہ اپنا سارا کام ختم کر کے گھر واپس آیا تھا اسے عنایہ کو شوپیگ پر لے کر جانا تھا اور زیادہ اچھی بات یہ تھی کہ زرشے بھی ان کے ساتھ جارہی تھی اور اسے اس کا ساتھ سکون دیتا تھا وہ خاموش سی لڑکی کچھ بولتی نہیں تھی،، نا ہی وہ اس کی خاموش محبت کو محسوس کرتی تھی بس وہ اسکے لیے بے حد عزیز تھی وہ اس لڑکی پر اپنی تمام تر محبت ظاہر کر دینا چاہتا تھا وہ اسے بتا دینا چاہتا تھا
ہاں ہاں کیو نہیں بلکل ھونگے اور وہ کیا نام ہیے اپنے اکبر کی بیٹی کا زرشے وہ بھی تمہارے ساتھ ہی پڑتی ہے نا ماشاءاللہ بہت نیک بچی ہیے دادا جان نے رزشے کی بھی تعریف کی تھی جو اکثر انہیں عنایہ کے ساتھ ہی ملتی تھی زرشے کی تعریف سن کر زراور کو بھی بہت اچھا لگا تھا کیونکہ زرشے اس کے فیوچر کے لیے بے حد ضروری تھی،،،،،، کیا بات ہیے محترم کا موڈ بہت اچھا ہیے زرشے نے اندر قدم رکھا تو اسے مسکراتے ھوے پایا زرشے اس کو یوں اپنی خوشی میں خوش دیکھ کر بے حد خوش ھو گی تھی، ہاں کیونکہ میں بہت خوش ہو اور تم تیار رہنا کیونکہ زراور بھائ آج شام کو مجھے شوپنگ پر لیں کر جانے والی ہیے مجھ سے وعدہ کیا ہیے جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ھو کر گھر اے گے تو وہ شوپیگ پر لیں کر جاہیں گئے تم بھی تیار رہنا ہم دونوں جاہیں گے بہت مزا اے گا وہ ایکسائٹڈ ھو کر اسے بتانے لگی
خود بھی بیٹھ گیا تو وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گی، جہاں وہ روز بیٹھا کرتی تھی چاچی کا موڈ خراب تو ھوا لیکن زروار کے سامنے زیادہ وہ کچھ کر نہیں سکی اس لیے چہرہ پیر کر اپنے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن یہ سچ تھا یہاں ان کی ناراضگی کو کوئ اہمیت نہیں دیتا تھا عنایہ بچے تم کہا تھی کب سے ہم تمہارا انتظار کرہے تھے ابھی تک ہم نے بھی کھانا شروع نہیں کیا تھا دادا جان نے اس سے کہا تھا وسے تو دادا بہت رعب رکھتےتھے گھر کے ہر فرد پر ان کا رعب بہت زیادہ چلتا تھا لیکن عنایہ ان کے لیے بھی بے حد عزیز تھی اگر اسے گھر کی رونق کہا جاے تو غلط نہیں تھا، دادا جان پہر سر پہ ہیے نا تو اسی کی تیاریو میں لگی ھوئ تھی، بس الحمد اللہ کافی ساری تیاری ھو چکی ہیے انشاللہ اس بار بھی میرے پہر بہت اچھے ھونگے اس نے مسکراتے ھوے کہا ہاں ہاں بلکل ہونگے کیو نہیں
تم ابھی باہر آرہی ہو اور بس مزید اس ٹاپک پر بات نہیں کریں گے وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا اس کے لبوں سے اسے مایوس کر دینے والی باتیں اسے ہمیشہ پریشان کردیتی تھی بس اک شرط پہ چلو گی آپ کے ساتھ اگر آپ مجھے شوپنگ پر لے جاہیں گئے نہیں تو میں یہاں بھوکی ہی ٹھیک ہو اس کو یوں پریشان دیکھ کر اس نے اپنی اداسی کو بڑی خوبصورتی سے چھپایا تھا یہ چھوٹی سی لڑکی اندر ہی اندر جانے کتنی اذیتوں ہر روز سہتی تھی، اوکے میرا بچہ میں وعدہ کرتا ہو میں کل شام اپنا سارا کام ختم کر کے تمہیں شوپنگ پر لے چلو گا لیکن اس وقت چلو میرے ساتھ وہ اسکا ہاتھ تھام کر زبردستی اٹھانے لگا تو وہ بھی خوب نخرے دیکھتی مسکرا کر اس کے ساتھ باہر جاچکی تھی،، وہ اس کے ساتھ باہر آئ تو سب لوگ ڈنر کرنے میں مصروف تھے وہ اسے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے
آپ اجازت کیو ماگ رہے ہیے آپ جب چاہے اس کمرے میں آسکتے ہیے بلکل اسی طرح جس طرح میں آپ کے کمرے میں آتی ہو وہ فوراً سیدھی ھو کر بیٹھ گی ،ہانجی جناب بلکل میں یہاں آسکتا ہو لیکن اس وقت میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا بلکہ مجھے بہت ہی شدید قسم کی بھوک لگی ھوئ ہیے جلدی سے اٹھو اور چل کر کھانا کھاتے ہیے یار تم یہاں کیو بیٹھی ھو میں کب سے تمہارا انتظار کرہا ہو چلو آؤ جلدی آو اپنا حکم سنا کر وہ واپس باہر جانے لگا تو عنایہ کے چہرے کی مسکراہٹ سیمٹ گی، مجھے باہر نہیں انا اور پلیز آپ مجھے افورس نا کرے آپ جاہیں یہاں سے وہ انکار کرتے ہوئے بولی وہ جا چکا ہیے عنایہ اب یہاں اندر بیٹھنے کا کوئ مقصد نہیں ہے چلو اٹھو میری جان جلدی سے باہر او تمہیں پتہ ہیے تمہارے بغیر ٹیبل پر بلکل رونق نہیں ہیے او چل کر کھانا کھا لو وہ اسے سمجھاتے ھوے بولا
دادا جان نے تو لاعلمی کا مظاہرہ کر دیا کیونکہ انہیں سچ مین انداذہ نہیں تھا کہ عنایہ کہا ہیے وہ روز شام کے کھانے میں ان کے ساتھ ھوا کرتی تھی لگتا ہیے وہ اپنے کمرے میں ھو گی میں اسے لیں کر آتا ہو وہ کھانا چھوڑ کر اٹھنے لگا چاچی کو اس کا انداز بلکل اچھا نہیں لگتا تھا کے وہ یمنہ کے لیے اسے سوچ رہی تھی اور کہا یہ عنایہ سے ہی پیچھے نہیں ہٹتا تھا ،اگر آپ کی اجازت ھو تو مین اندر آسکتا ہو وہ دروازے سے زرا سا چہرہ نیکالتا مسکراتے ھوے اجازت مانگ رہا تھا عنایہ کو بیڈ پر بیٹھی اپنے نوٹس بنانے میں مصروف تھی اسے دروازے پر کھڑے ہوں اجازت مانگتے دیکھ کر بے اختیار مسکرا کر فورآ ہاں میں سر ہلانے لگی اس کا انداز بلکل بچوں جیسا تھا بلکہ وہ تھی ہی ایک معسوم سی بچی عمر ہی کیا تھی صرف سولہ سال چھوٹی سی عمر میں وہ زندگی کی کتنی تلخیوں کو دیکھ چکی تھی،