پیھچلے تین دن سے وہ اس سے اک مینٹ بھی غافل نا رہا تھا دادا جان نے اپنی پوتی کے نام اپنی جائیداد کابڑا حصہ کیا تھا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ان کی پوتی ان سے دور ھوگی اور ایسا صرف اور صرف ان کی جائیداد کی وجہ سے ہی ھوا تھا بس کچھ دن ہی تھے اس کے اٹھارہ سال پورے ھونے کے اور پہر ان کی جائیداد کا اک بڑا حصہ ان کی پوتی کے نام چلا جاتا شاہد وہ ایسا کبھی نہیں چاہتے تھے اس لیے انہوں نے چھ سال کی عمر میں اس کا نکاح اپنے لاڈلے پوتی سید مکرش شاہ کے ساتھ کر دیا تھا ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت آج تک اس حویلی میں نہیں ھوئ تھی اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ھوتا تھا کہ کوئ ان کی مرضی کے خلاف جا سکے جب انہو نے مکرش شاہ کے ساتھ نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو کیسی نے اک بار بھی انکار نہیں کیا جبکہ مکرش اس سے عمر میں نو سال بڑا تھا
یہ ہم جانتے ہی کہا ہیے یہ تو اس پاک ذات کے علاوہ کوئ نہیں جانتا ،،،،وہ اس سے انجان ہرگزد نہیں تھا وہ پیچھلے تین دن سے اس کی اک اک ہرکت کو نوٹ کر ہا تھا وہ کیا کرہی تھی کہا تھی جس طرح سے رہ رہی تھی وہ ہر چیز سے واقف تھا شاہد وہ اسے آزما آرہا تھا امتحان لے رہا تھا کہ اس میں کتنی ہمت ہیے وہ کوئ عام لڑکی تو تھی نہیں ان کی حویلی کی اکلوتی لڑکی تھی کتنی خوشیاں منائی گی تھی اس کی پیدائش پر وہ ان کے خاندان کی پہلی اور آخری لڑکی اس سے پہلے دادا جان کے پانچ پوتے تھے جو انہیں بے حد عزیز تھے لیکن ان کے گھر میں کوئ لڑکی پیدا نہیں ھوئ تھی ان کی اپنی بھی کوئ بیٹی نہیں تھی اور پہر ان کے تینوں بیٹوں کی بھی کوئ لولاد لڑکی پیدا نا ھوئ پانچ پوتو کے بعد ان کو اک پوتی ملی تھی وہ نور تھی ان کے گھر کا آج وہی نور سڑکوں پر بے اسرا بے سہارا گوم رہا تھا
وہ اس کے نکاح میں تھی اس کی ملکیت ہے اس کی وجہ سے اسے اپنو کا چہرہ دیکھنے سے محروم کر دیا تھا،،،،،وہ دونوں لڑکے اس کا پیچھا کرہے تھے وہ بھاگتے ھوے اک پارگینگ میں اگی تھیجہاں بہت ساری گاڑیاں پارک کی گی تھی وہی کھڑی گاڑی کے پیچھے چھپ کر انہیں دیکھنے لگی اس وقت وہ حد سے زیادہ ڈری ہوئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کریں زندگی اسے کس موڑ پر لیں اے تھی کہ آج اسے اپنی عزت بجانے کے لیے کوئ سہارا نہیں مل رہا تھا یااللہ یہ امتحان کیو میں کہا جاو میں کیا کرو مجھ سے اک ہی پل مین سب کچھ چھن گیا جب انسان بےبسی کی آخری حد پر ھوتا ہیے تب اسے خدا ہی یاد آتا ہیے اس وقت عنائش کا بھی یہی حال تھا اس وقت وہ ضبط کی آخری حد پر تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے لیے بہتری کی دعا مانگ رہی تھی لیکن ہماری بہتری کس میں ہیے یہ ہم جانتے ہی کہا ہیے
اسے گھر سے اکیلے نہیں کی عادت ہر گز نہیں تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس دنیا کے لوگ کیسے ہیے لیکن ان تین دنوں مین وہ بہت کچھ سمجھ گی تھی اس نے اپنے جسم پر اٹھنے والی اسی نیگاہے دیکھی تھیں جنہیں سمجھنا اک عورت کے لیے کبھی مشکل نہیں تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی وہ اپنی عزت کی حفاظت کیسے کریں یا اپنی جان کی اس کے پاس کھانے پینے کو کچھ بھی نہیں تھا وہ بس اپنی جان بجانے کے لیے ادھر سے ادھر بھٹک رہی تھی بلکل کیسی چڑیا کی مانند تین دن تک وہ ریلوے اسٹیشن کے باہر بیٹھی رہی جہاں چوبیس گھنٹے مردو اور عورتوں کا ہجوم لگا رہتا تھا یہاں لوگو کا انا جا اتنا زیادہ تھا کہ وہ اس جگہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️مکرش شاہ کی سکیورٹی کے طور پر کام کر سکو اور آج کے بعد مجھے اپنی شقل مت دیکھنا وہ ان دونوں کو کہتا وہاں سے نیکلا تھااسے کہی سے بھی اپنی منکوحہ کو تلاش کرنا تھا،،،، وہ پاگلو کی طرح سڑک پر بھاگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی اس کی منزل کہا ہیے کب کہا جاے گی بس اسے مکرش شاہ کی پہنچ سے دور جانا تھا اس کی ماں ٹھیک کہتی تھی وہ انسان حیوان تھا جس نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے اپنو کو قتل کیا تھا اس کی ذات سے بھی اسے صرف مطلب کی حد تک دلچسبی تھی یقیآ کو صرف اور صرف اس کی دولت کی وجہ سے اس کے پیچھے آرہا تھا ورنہ اس جیسی لڑکی سے وہ کیا مطلب حاصل ھو سکتا ہیے وہ بھاگتے بھاگتے تھک چکی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ نا تو وہ رک سکتی تھی اور نا ہی واپس گھر جارہی تھی
زرشے ڈارلنگ ہم نے اس چھوٹی سے عمر میں بہت بڑی چیزیں دیکھ لی ہیں عنایہ کا جواب تلخی سے بھربور تھا لیکن اس سے آگے وہ کچھ بھی نہیں بولی زرشے بھی سمجھ گی کہ وہ اس بارے میں مزید کوئ بات نہیں کرنا چاہتی آئ ایم سوری میرا مطلب تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا میں تو بس اسے ہی کہرہی تھی کہ جن چیزوں سے تمہارا کوئ واسطہ نہیں ان مین مت پڑا کرو وہ شرمندہ سی ھو کر بولی تو عنایہ مسکرادی ،،، ارے یار تم بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ھو جاتی ھو میں تو بس جاننا چاہتی تھی کے کون ہیے آخر جن کے لیے اتنی تیاری کی جارہی ہیے وسے یہ مینہ باجی دو مہینے پہلے بھی ائ تھی تب ان کے لیے اتنی خاطر طواضع کا اتنا انتظام نہیں کیا گیا تھا اس بار کیو،، مجھے تو لگتا ہیے اس بار زراور بھائ کا رشتہ پکا ھو ہی جاے گا اور وہ چڑیل میرے بھائ کے گلے میں پڑھ جاے گی وہ سوچتے ھوے وہی بیٹھ گی
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ ان سے میں خود بات کر لو گا تم نکلو یہاں سے اس نے پہر سے سختی سے کہا چلو لگتا ہیے تم نے تھپڑ کھا کر ہی ماننا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کی طرف گھسیٹتے ھوئ بولی تو وہ بھی خاموش سے باہر نیکل ائ،،،، وسے کیا لگتا ہیے تمہیں کون سے مہمان آرہے ہیں شاہ بیگم کی لاڈلی بہن کی بیٹی مینہ تشریف لارہی ہیے زراور بھائی پر ڈورے ڈالنے کے لیے عنایہ اس کے ساتھ باہر نیکلتے ھوے کہنے لگی یا خدایا لڑکی کبھی اپنی عمر کے مطابق بھی باتیں کر لیا کرو کیا سوچ ہیے تمہاری کبھی اپنی عمر کو دیکھو اس عمر میں لڑکیاں ایسی باتے نا تو سوچتی ہیے نا ہی کرتی ہیے یہ ڈورے ڈالنے والی یا اپنے جال میں پھنسانے والی ساری باتیں آپ کے عمر کی عورتوں کو سوٹ کرتی ہیے تم جیسی لڑکی پر نہیں وہ اسے سمجھاتے ھوے بولی ،
وہ اسے مختصر سا جواب دیتی پہر اپنے کام میں مصروف ھو گی کیا کرہی ھو یہاں اتنی گرمی میں تم دونوں ،یہاں اک مینٹ نہیں روکا جارہا ہیے اور تم دونوں صبح سے ناجانے کون کون سے کام میں لگی ھو بس بہت ھوا اب جا کر آرام کرو اچانک آنے والی زراور کے آواز پر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ھوئ نہیں نہیں بھائ میں تو بس ابھی ائ ہو اٹھ کر میری تو آنکھ ہی لیٹ کھلی دن کو اپنی پڑھائ میں ہی لگی رہی تھی یہ زرشے ہیے صبح سے ہی لگی ھوئ ہیے پتہ نہیں کیا کیا نا ڈالا ہیے اس کا کہنا ہیے کیسی کی خاطر طواضع کے لیے اس بیچاری اس کو چھولے میں جھنکا ھوا ہیے ،،چلو اب نیکلو یہاں سے چلو ذرا باہر ھوا میں بیٹھتے ہیے کیا حالت بنا رکھی ہیے تم نے عنایہ کے کہنے پر زراور نے بھی زرشے کی حالت پر غور کیا تھا صبح سے گھن چکر بنی ھوئ تھی ،، نہیں نہیں بس ھو گیا کام رہتا ہی کتنا ہیے
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ قسط نمبر 3 ❣️❣️ اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی تھی وہ جانتی تھی کہ آج اگر یہاں سے نا نیکل پائ تو کبھی نہیں نیکل پاے گی اسے فیضان ملک تک پہنچنا تھا وہ اس کا محافظ تھا اس کا ہمدرد تھا وہ اس کے تکلیف مین ھونے کے باوجود وہ کیو نہیں آیا تھا وہ جلدی سے ہسپتال سے نیکلتی وہی بسمیٹ کی طرف بھاگ گی تھی شاہد وہ لوگ اسے اسی طرف سے پکڑنے میں کامیاب نا ھو پاتے وہ زمین پر چھپ کر بیٹھی تھی اپنے لبوں پر اپنا ہاتھ جما چکی تھی یااللہ یہاں سے نیکل نے مین میری مدد کر مولا مجھے اس شخص کی پہنچ سے دور کر دے وہ رب کے حضور دعائیں مانگ رہی تھی کیو کے اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی
نرس اپنی دھن میں بولے جارہی تھی جب کہ وہ اس کی بات کا مطلب بہت اچھے طریقے سے سمجھ گی تھی یعنی کہ قاتل خود ہی اپنے ظلم کو مٹا رہا تھا مجھے پانی پینا ہیے اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ فورن ہی جگ سے پانی نکال کر اسے دینے لگی یہ نہیں مجھے باہر سے پانی لا کر دو اس نے کبھی کیسی پر اس طرح سے حکم چلا کر یا بدلحاظی سے بات نہیں کی تھی ایسا وہ پہلی بار کرہی تھی لیکن سامنے کھڑی لڑکی نے اس کی بات کا ہرگز برا نہیں منایا تھا وہ فوراً سر ہلا کر وہاں سے کمرے سے باہر نکل گی تھی اس نے فوراً اٹھ کر دروازے سے باہر جھانکا تو دو گارڈ کھڑے آپس میں باتیں کرہے تھے وہ اپنی چادر دروست کرتی جلدی سے کمرے سے نیکلتی بھاگ گی تھی گارڈ اسے دیکھ چکے تھے اس کے پیچھے ہی بھاگنے لگے تھے اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی وہ جانتی تھی وہ آج یہاں سے نا نیکل پائ تو کبھی نہیں نیکل پاے گی
وہ تیزی سے کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی لیکن وہ لوگ اسے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے،،،پلیز مین آپ سمجھنے کی کوشش کریں آپ اس طرح باہر نہیں جا سکتیں شاہ صاحب کا حکم ہے باہر سکیورٹی گارڈ کھڑے ہیں،،،،،اوہ مائی گاڈ آپ کے ہاتھ سے تو خون خون بہنے لگا ہے مین پلیز اپنے ہاتھ پہ بینڈج کرنے دیجیے ڈاکٹر اس کی منتیں کر رہے تھے مجھے یہاں نہیں رہنا پلیز مجھے جانے دیں وہ آدمی قاتل ہے میرے ماں باپ کا مجھے پولیس سٹیشن جانا ہے اپنے بابا ماما کی رپورٹ لکھوانی ہے وہ قاتل ہے میرے ماں باپ کا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے قتل کرتے مجھے جانے دیں اس کے پھوٹ پھوٹ کر رونے سے شاید ڈاکٹر کو بھی ترس آگیا اسی لیے اس کا ہاتھ تھامے ہوئے اس کے ساتھ بیٹھنے لگی،،،میم ہمیں پتہ ہے شاہ صاحب نے ہمیں بتایا ہے آپ کی مینٹل کنڈیشن ٹھیک نہیں لیکن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا،آپ آرام کریں
اس کا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا اس کے ماں باپ اس سے دور ہو چکے تھے ہمیشہ کے لیے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیا انسان اتنا بے بس بھی ہو سکتا ہے وہ بے بسی سے اپنے ماں باپ کی موت پر روتی نہ جانے کب بےہوش ہو گئی تھیاسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں تھی،،،، اس کے سر پر ڈاکٹرز کی فوج کھڑی تھی کوئی ہاتھ چیک کر رہا تھا تو کوئی پیر،چھوڑو مجھے وہ تیزی سے ان کا ہاتھ پیچھے کر کے بیڈ سے اٹھنے لگی اس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی،،میم پلیز آپ یہاں سے مت اٹھیں ورنہ شاہ صاحب ہماری جان لے لیں گے آپ بے ہوش ہو گئی تھیں آپ کا بی پی بہت لو ہو چکا ہے آپ کو آرام کی ضرورت ہے،،،،آرام کی نہیں مجھے میرے ماں باپ کی ضرورت ہے چھوڑو مجھے ڈرپ اس نے اتار کر پیچھے پھینک دی وہ تیزی سے کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain