Damadam.pk
Qswa's posts | Damadam

Qswa's posts:

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ قسط نمبر 4
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ قسط نمبر 4 - 
Qswa
 

پیھچلے تین دن سے وہ اس سے اک مینٹ بھی غافل نا رہا تھا دادا جان نے اپنی پوتی کے نام اپنی جائیداد کابڑا حصہ کیا تھا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ان کی پوتی ان سے دور ھوگی اور ایسا صرف اور صرف ان کی جائیداد کی وجہ سے ہی ھوا تھا بس کچھ دن ہی تھے اس کے اٹھارہ سال پورے ھونے کے اور پہر ان کی جائیداد کا اک بڑا حصہ ان کی پوتی کے نام چلا جاتا شاہد وہ ایسا کبھی نہیں چاہتے تھے اس لیے انہوں نے چھ سال کی عمر میں اس کا نکاح اپنے لاڈلے پوتی سید مکرش شاہ کے ساتھ کر دیا تھا ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت آج تک اس حویلی میں نہیں ھوئ تھی اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ھوتا تھا کہ کوئ ان کی مرضی کے خلاف جا سکے جب انہو نے مکرش شاہ کے ساتھ نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو کیسی نے اک بار بھی انکار نہیں کیا جبکہ مکرش اس سے عمر میں نو سال بڑا تھا

Qswa
 

یہ ہم جانتے ہی کہا ہیے یہ تو اس پاک ذات کے علاوہ کوئ نہیں جانتا ،،،،وہ اس سے انجان ہرگزد نہیں تھا وہ پیچھلے تین دن سے اس کی اک اک ہرکت کو نوٹ کر ہا تھا وہ کیا کرہی تھی کہا تھی جس طرح سے رہ رہی تھی وہ ہر چیز سے واقف تھا شاہد وہ اسے آزما آرہا تھا امتحان لے رہا تھا کہ اس میں کتنی ہمت ہیے وہ کوئ عام لڑکی تو تھی نہیں ان کی حویلی کی اکلوتی لڑکی تھی کتنی خوشیاں منائی گی تھی اس کی پیدائش پر وہ ان کے خاندان کی پہلی اور آخری لڑکی اس سے پہلے دادا جان کے پانچ پوتے تھے جو انہیں بے حد عزیز تھے لیکن ان کے گھر میں کوئ لڑکی پیدا نہیں ھوئ تھی ان کی اپنی بھی کوئ بیٹی نہیں تھی اور پہر ان کے تینوں بیٹوں کی بھی کوئ لولاد لڑکی پیدا نا ھوئ پانچ پوتو کے بعد ان کو اک پوتی ملی تھی وہ نور تھی ان کے گھر کا آج وہی نور سڑکوں پر بے اسرا بے سہارا گوم رہا تھا

Qswa
 

وہ اس کے نکاح میں تھی اس کی ملکیت ہے اس کی وجہ سے اسے اپنو کا چہرہ دیکھنے سے محروم کر دیا تھا،،،،،وہ دونوں لڑکے اس کا پیچھا کرہے تھے وہ بھاگتے ھوے اک پارگینگ میں اگی تھیجہاں بہت ساری گاڑیاں پارک کی گی تھی وہی کھڑی گاڑی کے پیچھے چھپ کر انہیں دیکھنے لگی اس وقت وہ حد سے زیادہ ڈری ہوئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کریں زندگی اسے کس موڑ پر لیں اے تھی کہ آج اسے اپنی عزت بجانے کے لیے کوئ سہارا نہیں مل رہا تھا یااللہ یہ امتحان کیو میں کہا جاو میں کیا کرو مجھ سے اک ہی پل مین سب کچھ چھن گیا جب انسان بےبسی کی آخری حد پر ھوتا ہیے تب اسے خدا ہی یاد آتا ہیے اس وقت عنائش کا بھی یہی حال تھا اس وقت وہ ضبط کی آخری حد پر تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے لیے بہتری کی دعا مانگ رہی تھی لیکن ہماری بہتری کس میں ہیے یہ ہم جانتے ہی کہا ہیے

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️ - 
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ - 
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ - 
Qswa
 

اسے گھر سے اکیلے نہیں کی عادت ہر گز نہیں تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس دنیا کے لوگ کیسے ہیے لیکن ان تین دنوں مین وہ بہت کچھ سمجھ گی تھی اس نے اپنے جسم پر اٹھنے والی اسی نیگاہے دیکھی تھیں جنہیں سمجھنا اک عورت کے لیے کبھی مشکل نہیں تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی وہ اپنی عزت کی حفاظت کیسے کریں یا اپنی جان کی اس کے پاس کھانے پینے کو کچھ بھی نہیں تھا وہ بس اپنی جان بجانے کے لیے ادھر سے ادھر بھٹک رہی تھی بلکل کیسی چڑیا کی مانند تین دن تک وہ ریلوے اسٹیشن کے باہر بیٹھی رہی جہاں چوبیس گھنٹے مردو اور عورتوں کا ہجوم لگا رہتا تھا یہاں لوگو کا انا جا اتنا زیادہ تھا کہ وہ اس جگہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی

Qswa
 

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️مکرش شاہ کی سکیورٹی کے طور پر کام کر سکو اور آج کے بعد مجھے اپنی شقل مت دیکھنا وہ ان دونوں کو کہتا وہاں سے نیکلا تھااسے کہی سے بھی اپنی منکوحہ کو تلاش کرنا تھا،،،، وہ پاگلو کی طرح سڑک پر بھاگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی اس کی منزل کہا ہیے کب کہا جاے گی بس اسے مکرش شاہ کی پہنچ سے دور جانا تھا اس کی ماں ٹھیک کہتی تھی وہ انسان حیوان تھا جس نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے اپنو کو قتل کیا تھا اس کی ذات سے بھی اسے صرف مطلب کی حد تک دلچسبی تھی یقیآ کو صرف اور صرف اس کی دولت کی وجہ سے اس کے پیچھے آرہا تھا ورنہ اس جیسی لڑکی سے وہ کیا مطلب حاصل ھو سکتا ہیے وہ بھاگتے بھاگتے تھک چکی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ نا تو وہ رک سکتی تھی اور نا ہی واپس گھر جارہی تھی

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️ - 
Qswa
 

زرشے ڈارلنگ ہم نے اس چھوٹی سے عمر میں بہت بڑی چیزیں دیکھ لی ہیں عنایہ کا جواب تلخی سے بھربور تھا لیکن اس سے آگے وہ کچھ بھی نہیں بولی زرشے بھی سمجھ گی کہ وہ اس بارے میں مزید کوئ بات نہیں کرنا چاہتی آئ ایم سوری میرا مطلب تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا میں تو بس اسے ہی کہرہی تھی کہ جن چیزوں سے تمہارا کوئ واسطہ نہیں ان مین مت پڑا کرو وہ شرمندہ سی ھو کر بولی تو عنایہ مسکرادی ،،، ارے یار تم بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ھو جاتی ھو میں تو بس جاننا چاہتی تھی کے کون ہیے آخر جن کے لیے اتنی تیاری کی جارہی ہیے وسے یہ مینہ باجی دو مہینے پہلے بھی ائ تھی تب ان کے لیے اتنی خاطر طواضع کا اتنا انتظام نہیں کیا گیا تھا اس بار کیو،، مجھے تو لگتا ہیے اس بار زراور بھائ کا رشتہ پکا ھو ہی جاے گا اور وہ چڑیل میرے بھائ کے گلے میں پڑھ جاے گی وہ سوچتے ھوے وہی بیٹھ گی

Qswa
 

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️
ان سے میں خود بات کر لو گا تم نکلو یہاں سے اس نے پہر سے سختی سے کہا چلو لگتا ہیے تم نے تھپڑ کھا کر ہی ماننا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کی طرف گھسیٹتے ھوئ بولی تو وہ بھی خاموش سے باہر نیکل ائ،،،، وسے کیا لگتا ہیے تمہیں کون سے مہمان آرہے ہیں شاہ بیگم کی لاڈلی بہن کی بیٹی مینہ تشریف لارہی ہیے زراور بھائی پر ڈورے ڈالنے کے لیے عنایہ اس کے ساتھ باہر نیکلتے ھوے کہنے لگی یا خدایا لڑکی کبھی اپنی عمر کے مطابق بھی باتیں کر لیا کرو کیا سوچ ہیے تمہاری کبھی اپنی عمر کو دیکھو اس عمر میں لڑکیاں ایسی باتے نا تو سوچتی ہیے نا ہی کرتی ہیے یہ ڈورے ڈالنے والی یا اپنے جال میں پھنسانے والی ساری باتیں آپ کے عمر کی عورتوں کو سوٹ کرتی ہیے تم جیسی لڑکی پر نہیں وہ اسے سمجھاتے ھوے بولی ،

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ قسط نمبر 4
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ قسط نمبر 4 - 
Qswa
 

وہ اسے مختصر سا جواب دیتی پہر اپنے کام میں مصروف ھو گی کیا کرہی ھو یہاں اتنی گرمی میں تم دونوں ،یہاں اک مینٹ نہیں روکا جارہا ہیے اور تم دونوں صبح سے ناجانے کون کون سے کام میں لگی ھو بس بہت ھوا اب جا کر آرام کرو اچانک آنے والی زراور کے آواز پر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ھوئ نہیں نہیں بھائ میں تو بس ابھی ائ ہو اٹھ کر میری تو آنکھ ہی لیٹ کھلی دن کو اپنی پڑھائ میں ہی لگی رہی تھی یہ زرشے ہیے صبح سے ہی لگی ھوئ ہیے پتہ نہیں کیا کیا نا ڈالا ہیے اس کا کہنا ہیے کیسی کی خاطر طواضع کے لیے اس بیچاری اس کو چھولے میں جھنکا ھوا ہیے ،،چلو اب نیکلو یہاں سے چلو ذرا باہر ھوا میں بیٹھتے ہیے کیا حالت بنا رکھی ہیے تم نے عنایہ کے کہنے پر زراور نے بھی زرشے کی حالت پر غور کیا تھا صبح سے گھن چکر بنی ھوئ تھی ،، نہیں نہیں بس ھو گیا کام رہتا ہی کتنا ہیے

Romantic Novels image
Q  : ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ قسط نمبر 4 - 
Qswa
 

ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ قسط نمبر 3 ❣️❣️
اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی تھی وہ جانتی تھی کہ آج اگر یہاں سے نا نیکل پائ تو کبھی نہیں نیکل پاے گی اسے فیضان ملک تک پہنچنا تھا وہ اس کا محافظ تھا اس کا ہمدرد تھا وہ اس کے تکلیف مین ھونے کے باوجود وہ کیو نہیں آیا تھا وہ جلدی سے ہسپتال سے نیکلتی وہی بسمیٹ کی طرف بھاگ گی تھی شاہد وہ لوگ اسے اسی طرف سے پکڑنے میں کامیاب نا ھو پاتے وہ زمین پر چھپ کر بیٹھی تھی اپنے لبوں پر اپنا ہاتھ جما چکی تھی یااللہ یہاں سے نیکل نے مین میری مدد کر مولا مجھے اس شخص کی پہنچ سے دور کر دے وہ رب کے حضور دعائیں مانگ رہی تھی کیو کے اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی

Qswa
 

نرس اپنی دھن میں بولے جارہی تھی جب کہ وہ اس کی بات کا مطلب بہت اچھے طریقے سے سمجھ گی تھی یعنی کہ قاتل خود ہی اپنے ظلم کو مٹا رہا تھا مجھے پانی پینا ہیے اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ فورن ہی جگ سے پانی نکال کر اسے دینے لگی یہ نہیں مجھے باہر سے پانی لا کر دو اس نے کبھی کیسی پر اس طرح سے حکم چلا کر یا بدلحاظی سے بات نہیں کی تھی ایسا وہ پہلی بار کرہی تھی لیکن سامنے کھڑی لڑکی نے اس کی بات کا ہرگز برا نہیں منایا تھا وہ فوراً سر ہلا کر وہاں سے کمرے سے باہر نکل گی تھی اس نے فوراً اٹھ کر دروازے سے باہر جھانکا تو دو گارڈ کھڑے آپس میں باتیں کرہے تھے وہ اپنی چادر دروست کرتی جلدی سے کمرے سے نیکلتی بھاگ گی تھی گارڈ اسے دیکھ چکے تھے اس کے پیچھے ہی بھاگنے لگے تھے اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی وہ جانتی تھی وہ آج یہاں سے نا نیکل پائ تو کبھی نہیں نیکل پاے گی

جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️❣️
Q  : جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️❣️ - 
Qswa
 

وہ تیزی سے کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی لیکن وہ لوگ اسے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے،،،پلیز مین آپ سمجھنے کی کوشش کریں آپ اس طرح باہر نہیں جا سکتیں شاہ صاحب کا حکم ہے باہر سکیورٹی گارڈ کھڑے ہیں،،،،،اوہ مائی گاڈ آپ کے ہاتھ سے تو خون خون بہنے لگا ہے مین پلیز اپنے ہاتھ پہ بینڈج کرنے دیجیے ڈاکٹر اس کی منتیں کر رہے تھے مجھے یہاں نہیں رہنا پلیز مجھے جانے دیں وہ آدمی قاتل ہے میرے ماں باپ کا مجھے پولیس سٹیشن جانا ہے اپنے بابا ماما کی رپورٹ لکھوانی ہے وہ قاتل ہے میرے ماں باپ کا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے قتل کرتے مجھے جانے دیں اس کے پھوٹ پھوٹ کر رونے سے شاید ڈاکٹر کو بھی ترس آگیا اسی لیے اس کا ہاتھ تھامے ہوئے اس کے ساتھ بیٹھنے لگی،،،میم ہمیں پتہ ہے شاہ صاحب نے ہمیں بتایا ہے آپ کی مینٹل کنڈیشن ٹھیک نہیں لیکن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا،آپ آرام کریں

Qswa
 

اس کا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا اس کے ماں باپ اس سے دور ہو چکے تھے ہمیشہ کے لیے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیا انسان اتنا بے بس بھی ہو سکتا ہے وہ بے بسی سے اپنے ماں باپ کی موت پر روتی نہ جانے کب بےہوش ہو گئی تھیاسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں تھی،،،،
اس کے سر پر ڈاکٹرز کی فوج کھڑی تھی کوئی ہاتھ چیک کر رہا تھا تو کوئی پیر،چھوڑو مجھے وہ تیزی سے ان کا ہاتھ پیچھے کر کے بیڈ سے اٹھنے لگی اس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی،،میم پلیز آپ یہاں سے مت اٹھیں ورنہ شاہ صاحب ہماری جان لے لیں گے آپ بے ہوش ہو گئی تھیں آپ کا بی پی بہت لو ہو چکا ہے آپ کو آرام کی ضرورت ہے،،،،آرام کی نہیں مجھے میرے ماں باپ کی ضرورت ہے چھوڑو مجھے ڈرپ اس نے اتار کر پیچھے پھینک دی وہ تیزی سے کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی