ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ اس بات نے ان دونوں میاں بیوی کو پریشان کردیا تھا وہ اپنی اولاد تو کھو چکےتھے اس لیے اس کے ساتھ کچھ نہیں ھونے دے سکتے تھےوہ اسے اپنے ساتھ سوات کے آئے تھے اور سب کو یہی کہ کر تعارف کروایا کے وہ ان دونوں کی پوتی ہیے ان کے بیٹے کا انتقال بہت سال پہلے ھو چکا تھا اور آکسیڈنٹ میں اس کے چاروں چبے بھی مارے گے تھے لیکن عنائش کو جب انہوں نے اپنی پوتی کے طور پر تعارف کروایا تب سوال تو بہت سے سامنے لیکن وہ اپنی بات پہ ڈٹے رہے آخر سب نے ہی ان کی بات پر یقین کر لیا کہ وہ ان کی پوتی ہیے اور اب سے ان کے ساتھ رہے گی پیچلھے چار مہینوں سے وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہ رہی رہی تھی اور اب وہ کافی حد تک بہتر بھی ھو چکی تھی یہ لوگ اس کا بہت زیادہ خیال بھی رکھتے تھے اس کے آگے پیچے کوئ بھی نہیں تھا
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ قسط نمبر 2❣️ ڈاکٹر ابھی ابھی اسے چک کر کے گیا تھا اس کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ڈر کی وجہ سے بخار اتر ہی نہیں رہا تھا اسے اس حال میں دیکھ کر وہ دونوں بھی پریشان ھوگے تھے ابھی کل تک تو وہ ہستی کیھلتی ان کے سامنے تھی اور آج وہ اس قدر بیمار ھوگی تھی اس کے ڈر سے ہی وہ اندازہ لگا سکتے تھے، کہ وہ شخص کتنا خطرناک ہے وہ شخص اس کے والدین کا قاتل تھا انہیں یاد تھی ابھی چار مہینے پہلے ہی کی تو بات تھی کہ جب وہ ان کو اک سڑک سے ملی تھی اور بہت مشکل سے ان لوگوں نے اسے اپنے ساتھ ہسپتال پہنچایا تھا ڈاکٹر کے مطابق اس کی حالت بہت نازک تھی اسے ہوش آیا تو انہیں پتہ چلا کے اس کی جان کو خطرہ ہے کوئ آدمی اس کے پیچھے پڑا ھوا ہیے جو اسے جان سے مار دینا چاہتا ہے اس بات نے ان دونوں میاں بیوی کو پریشان کردیا تھا
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میں فیس بک پہ اک گروپ بنا رہی ہو وہاں ناول پوسٹ کیا کرو گی یا پہر یہاں دامادم پہ بنا لیتی ہو کیو کے وسے پوسٹ بہت مشکل سے ھوتا ہیے آپ لوگ بتا دیں پہر گروپ میں ناول پوسٹ کرو یا پہر یہاں
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ وہ لڑکی اب سے نہیں بلکہ 19سال سے اس کی نظروں کا مرکز تھی اس کا باپ ان کے گھر کا ملازم تھا جب کہ اس کی ماں ان کے گھر کی ملازمہ وہ لڑکی اس کے سامنے پلی بڑی تھی وہ ناجانے کب سے اس کے دل میں بسی ھوئ تھی وہ بھی نہیں جانتا تھا میٹرک کے بعد اس کی پڑھائ کو چھڑوا کر اس کی شادی پر بہت زور دیا گیا تب زراور کو اسٹیپ لینا پڑا تھا وہ اس کے لیے زیادہ تو کچھ نہیں کر سکا لیکن اس کے باپ کو اس کی چھوٹی عمر میں شادی نہیں کروانے دی پرائیوٹ ایف اے کر کے اب وہ بی اے کرہی تھی جب کے اس کے گھر میں اس کی نوکری اس کے کاموں تک محدود تھی زراور کو کیسی کے ہاتھ کا کھانا نہیں پسند آتا تھا لیکن زرشے کے لیے اسے اپنے اصول بدلنے پڑے کیونکہ وہ اسے اپنی نگاہوں کے سامنے چاہتا تھا سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا لیکن
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ جب کہ وہ یوں ہی نظر جھکائے بولتی ھوئ اس کے دل کے دھڑکنے کی وجہ بنی ھوئ تھی ھممم ،،،، تو رکھ دیا ناشتہ وہ اس کے راستے میں حائل ھوا پوچھ رہا تھا ،جی رکھ دیا اس نے فوراً جواب دیا اور اب وہ اس کے راستے سے ہٹنے کا انتظار کرہی تھی لیکن شاہد زراور کا ایسا کوئ ارادہ نا تھا اب میں جاو اس نے بڑی مشکل نے نظر اٹھا کے اس سے سوال کیا اور پہر سے نظر جھکا ہوا گی وہ یوپی اسے دیکھتا جارہا تھا ،،نہیں ،، اس کے دل نے اندر کہی سرگوشی کی تھی جو اس کے لبوں پر اگی سامنے کھڑی لڑکی نے فوراً نظر اٹھا کر حیرانگی سے دیکھا تھا،، میرا مطلب ہیے پہلے جوس لیں کر آؤ وہ راستہ چھوڑتے ھوے بولا ،جی جوس بھی رکھ دیا ہیے اس نے اسے فوراً بتایا اور کمرے سے نیکلنے لگی ،،،رزشے،،،اسے پیچھے سے اپنے نام کی پکار سنائی دی جی شاہ جی
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️ چاہے کچھ بھی ھو جاے میں اپنی بچی کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی آپ کچھ کریں نہ، کہ سب کچھ ٹھیک ھو جاے گا مجھے بہت ڈر لگرہا ہیے کہیں مہاری راشی کے ساتھ کچھ برا نا ھو آخر وہ لوگ چاہتے کیا ہیے مجھے سمجھ نہیں آتا کیو ان لوگوں نے اس کی زندگی حرام کر دی ہیے دادی بوری طرح رو رہی تھی،،عاشی اس کے نکاح میں ہیے اور وہ اسے اتنی آسانی سے چھوڑے گا نہیں اس نے کہا تھا کہ وہ اسے چار مہینے کا وقت دے رہا ہیے اور اب وہ وقت ختم ھو چکا ہیے تو اسے واپس تو آنا ہی تھا ہمیں اس مسلے کا حل تلاش کرنا ھو گا دادا جان ان کی کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں سمجھاتے ھوے بول رہے تھے اس مسلے کا حل صرف طلاق ہیے ہمیں خلا کے لیے اس آدمی پر کیس کرنا دینا چاہیے میں اپنی بچی کی زندگی برباد نہیں ھونے دوں گی
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❣️ اور پہر اس کی وہی نگاہیں جو سے گبھراہٹ میں مبتلا کرتی تھی وہ بھی تو نظر انداز کرنے کے قابل نہیں تھی اسے اس کی نیت پر کوئ شک نہیں تھا لیکن وہ مردو سے ذرا فاصلہ بنا کر رکھا ہی پسند کرتی تھی اور خاص کر سید زراور شاہ سے جو کے پیچلے ساتھ مہینوں سے اس پہ ضرورت سے زیادہ مہربان ھو چکا تھا ،،،،، بخار بہت تیز ہیے مجھے اس کی حالت ٹھیک نہیں لگرہی میں سوچ رہی ہو کے ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں اسے بہت تیز بخار ہیے دادی نے کمرے سے نیکلتے ھوے بتایا،، ہاں میں فون کرتا ہو تم اس کے پاس ہی رکو بہت زیادہ گھبرائ ھوئ ہیے اور بخار کی شدت میں کوئ کمی نہیں ارہی دادا جان بھی بے حد پریشان تھے مجھے سمجھ نہیں آتا میری معسوم بچی نے کیسی کا کیا بیگاڑا ہیے کیو وہ لوگ اسے جینے نہیں دیتے کیو واپس آگے ہیے وہ قاتل،
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️❤️ اور کوئ بھی کام وقت پر نہیں کرتی چاچی بیگم کیچن میں داخل ھوتے ہی اسے سنانے لگی تھیں اس کا چہرہ دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکی تھی کے اس کی طبیعت ناساز ہے لیکن وہ لوگ انہیں زیادہ سر پر نہیں بڑہاتے تھیں ،،معاف کردیجے شاہ بیگم زرا سا بخار تھا اس لیے آنے میں دیر ھو گے،ناشتہ بن گیا ہیے میں بس لگاتی ہو وہ چکراتے سر کے ساتھ کہتی فٹافٹ ناشتہ ٹرے میں رکھ کر جوس بنانے لگی،، ناشتہ میز پر لگانے کی ضرورت نہیں ہے اس کے کمرے میں لے جاو لیٹ ھورہی ہیے، یہاں سے سیدھا کمرے میں جاے گا وہی پر آرام سے ناشتہ کرلیں گا،، شاہ بیگم نے حکم دیا تو اک پل کے لیے اس کا نام سا دل بے ترتیب ھوا ،زراور کے کمرے میں ہی نہیں بلکہ وہ کیسی بھی مرد کے کمرے میں جانے سے خوف زدہ ھوتی تھی
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ اسے اچانک گھر کا دروازہ گھبراہٹ مین بند کرتے دیکھ کر دادی پریشان ھوتے ھوئے اس کے پاس ائ ،،دا،،،،ی،،،،دا،،،ی،،،دادی،،،وہ اگیا،،،،دا،،،دا،،،وہ بوری طرح کانپتے ھوے اپنی بات مکمل کرتی ان کے سینے سے لگ گی تھی،،،جب کے اس کی ادھورہ بات سن کے دادی سب کچھ سمجھ گی تھی اور دروازے پر کھڑے دادا بھی اس کی بات سن کر پریشان ھو گے تھے،،،، ،،،،،،،،،،، زرشے کہا گی ارے کہا مر گی ہیے جلدی نیکل تجھے پتہ ہیے نا بیگم صاحبہ کا حکم ہیے چھوٹے شاہ جی کے جاگنے سے پہلے ان کا ناشتہ تیار ھونا چاہیے اور توں ابھی تک یہی پڑی ہے ارے یہ تو ہماری اچھی قسمت ہیے کہ چھوٹے شاہ جی کو تیرے ہاتھ کا سواد پسند آگیا ہیے ورنہ تجھ جیسی نیکمی کو کوئ نوکری پر نا رکھتا،،اٹھ بھی اب بعد میں بستر توڑنا چھوٹے شاہ جی کا ناشتہ بنا ،،
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ کوئ راہ چلتی سمجھ کر رکھی ہیے کیا جو تم اسے پکڑ کر لاؤ گے بیوی ہیے میری سید مکرش شاہ کی ملکیت ہے وہ مجھ سے بھاگ رہی ہیے کیونکہ اسے بھاگنے کی اجازت دیں رہا ہو وہ غضب ناک انداز میں اس کی طرف بڑھتا اسے گریباں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتا ھوا بولا،،، گستاخی معاف شاہ جی نیا لڑکا ہیے اسے کچھ نہیں پتہ آپ معاف کر دیں شاہ جی میں اسے سمجھا دو گا اس کے پرانے ملازم نے ہاتھ پیر چھوڑتے ھوے بڑی مشکل سے اس لڑکے کی جان بچائ ،،اچھے سے سمجھا دو اسے طارق ورنہ اگلی دفہ اسی غلطی پر اسے زندہ زمین میں گاڑ دوں گا اس کا گریبان چھوڑتے ھوے اک نظر اس گلی کی طرف دیکھا تھا جس کا گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر جان لیوا تبسم بکھرا ھوا تھا ،،، عائشی بیٹا کیا ھوا تم اس طرح گبھرائ ھوئ کیو ھو خیریت تو ہیے،،
ناول جان عقشم کوئ بات نہیں بھیا آگے سے دادو کو بیجھو گی تو اسے بتا دیجھے گا کے انہیں کون سی چیز دینی ہیے آج تو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ سورہی تھی جبی میں ائ وہ اس کے ہاتھ سے باسکیٹ پکڑتے ھوے کہری تھی دکان اسی محلے میں تھی یہاں کے سب لوگ ان سے بہت اچھے طریقے سے واقف تھے اسے تو کبھی لوگوں سے بنا نقاب کے نہیں دیکھا تھا لیکن دادا جان کو سب لوگ ہی جانتے تھے سب کے ساتھ ہی ان کے تعلقات بہت ہی زیادہ خوشگوار تھے دادا جان کی عمر پچاسی کے قریب تھی اور دادی کی 80لیکن اس عمر میں بھی وہ دونوں جس طرح اپنی زندگی انجوائے کرہے تھے سب ہی دیکھ کر بہت متاثر ھوتے تھے،، پلیز لائک انیس فلو❣️❤️❣️
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain