عنائش جو اسکی طرف سے سخت ردعمل کی امید رکھتی تھی اسے اتنا استہ بولتے دیکھ کر اسے گھورنے لگی تم اپنے کام سے کام رکھو مجھے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں میں بہتر طریقے سے جانتی ہو وہ غصے سے کہتی آگے بڑھنے لگی اس کا ارادہ یہاں سے بھاگ جانے کا تھا اور وہ ایسا ہی کرنے کو تیار تھی وہ تیزی سے ان کے قریب سے نیکلتی آگے بڑھ گی تھی جب اچانک کیسی آدمی سے بری طرح سے ٹکرائ دل خوف سے کامپے جارہا تھا آگے بڑھنے سے زیادہ اسے پیچھے اس آدمی کا خوف ڈر تھا ایک نظر اس نے اپنے پیچھے دیکھا اور پہر اپنے سامنے کھڑے آدمی کو دیکھنے لگی اسے سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑی تھی کیونکہ وہ اس کی خوشبو سے ہی اسے پہچان گی تھی وہ اس کی خوشبو کو پہلے ہی بہت قریب سے محسوس کر چکی تھی اور اب اک بار پہر سے اس نے قبول کر لیا تھا کہ وہ پکڑی گئی ہیے اب یہ شخص اس کے ساتھ کیا کرے گا
وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے اس کے ساتھ اک چارپائی تک ائ تھی فرش ھونے جانا ہیے سر چارپائ پر بیٹھنے سے پہلےاس نے بےحد کم آواز مین کہا تھا ،ہاں ڈارلنگ کیو نہیں وہ سامنے رہا واشروم تم جا سکتی ہو وہ بے فکر ھو کر چارپائی پر بیٹھ کر اسے جانے کا اشارہ کر چکا تھا جب کے اس کا اتنا بے فکر انداز عنائش کو بھی کنفیوز کر گیا تھا وہ اتنا رلیکس ھو کر اسے کیسے بیجھ سکتا تھا کیا اسے اس بات کا ڈر نہیں تھا کے آگر وہ یہاں سے بھاگ گی تو اسے جیسے اس بات کی کوئ پریشانی ہی نہیں تھی وہ ہاں میں سر ہلاتے ھوے واشروم جانے لگی اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ اپنے ساتھ کھڑے آدمی کو آڈر دے رہا تھا واشروم کے درازے کے پاس پہنچ کر وہ پہر پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی وہ اب تک بلکل رلیکس انداز مین اپنے موبائل پر لگا ھوا تھا
ناول جان عقشم رائیٹر اریج شاہ ❣️ قسط نمبر 7 ❤️❣️ نہیں نہیں وہ اسے حرکت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے وہ زراور کے بارے میں کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں سوچ سکتی تھی لیکن اسے تو یہ ڈرس دیا تو اسی نے ہی تھا عنایہ تو اسے کے ساتھ باہر اگی تھی تو شوپینگ مال سے یہ ڈرس کون لاسکتا تھا یہ شوپینگ ڈرس زراور کے ہی ہاتھ میں تھا تو کیا یہ اتنی گھٹیا حرکت اس نے کی تھی زراور شاہ اس کے لیے بہت زیادہ قابل احترام تھا وہ ایسی حرکت کیسے کر سکتا ہے وہ سوچ سوچ کر پریشان ھونے لگی تھی❤️❣️❤️❤️
دو دن کے بعد تمہاری سالگرہ ہے یہ معمولی سا تحفہ میری طرف سے مجھے پسند نہیں میرے دل کی دھڑکن کیسی چیز کو یوں حسرت سے دیکھے یہ درس تو کیا ساری دنیا تمہاری قدموں میں ، کاڈ پر تحریر پڑھ کر اسے اپنے سامنے زمین آسمان گھومتے ھوے نظر آنے لگے یہ کیا تھا اور یہ گھٹیا حرکت کس کی تھی کیا لیکھا ہیے کاڈ پر مجھے بھی بٹا وہ اپنی ہی سوچو مین گم تھی جب اسے اماں جی آواز قریب سے سنائ دی کچھ نہیں اماں اس میں دکان کا پتہ لیکھا ہیے یہ درس مین صبح عنایہ کو واپس کردو گی یہ اسی کا ہیے وہ درس اپنے سامان کے ساتھ واپس رکھ چکی تھی غصے سے اس کا چہرہ سرخ ھو رہا تھا اتنی گری ھوئ حرکت کون کر سکتا ہے ،کیا زراور شاہ نہیں نہیں ،،وہ اسی حرکت کرنے کے بارے مین سوچ بھی نہیں سکتے وہ تو زراور کے بارے میں کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں سوچ سکتی تھی لیکن اسے یہ درس دیا تو اسی نے تھا
تیرے ابا جان کو بلکل اب یہ اچھا نہیں لگتا توں اب جاے نا بازار توں اپنے لیے کچھ کپڑے خرید لانا سی تو میں گھر پر ہی لو گی وہ اسے دیکھتے ھوے کہنے لگی ارے نہیں مورے جان اس کی ہرگز ضرورت نہیں یہ دیکھیں عنایہ نے میری سالگرہ کا میرے لیے کتنا پیاری سوٹ لیا ہیے یہ میں سالگرہ والے دن پہنوں گی عنایہ کا لایا ھوا سوٹ انہیں دیکھانے لگی یہ تو بہت مہنگاہ لگرہا ہیے زرشے تو اتنے مہنگے تحفے نا لیا کر عنایہ بی بی بیٹا ہماری اتنی اوقات نہیں ہے ہم یہ مہنگے تحفے انہیں واپس کر سکے وہ اسے سمجھاتے ھوے بولی قسم سے مین نے نہیں لیا انہوں نے زبردستی لے کر دیا ہیے مین نے تو ہزار بار منع کیا ہے لیکن پہر بھی وہ نہیں مانی وہ تو ایک اور بہت ہی خوبصورت جوڑا دلوانے کی کوشش کرہی تھی مین نے اتنی مشقل سے انکار کیا لیکن اب وہ ناراض ہو کر بیٹھ گئی ہیے صبح اسے منانے جانا پڑھے گا
اتنا بھی کوئ شاندار درس نہیں تھا کہ مین اس کو خیردنے کے لیے تمہاری قرضدار بن جاو وہ اسے سمجھاتے ھوے گاڑی ابیٹھی جب کے عنایہ کا موڈ اب بھی عوف تھا جب تھوڑی ہی دیر میں گاڑی کی اگلی سیٹ زراور نے سمبھالی اس کے ہاتھ مین دو تین شوپینگ بیگ تھے شاہد اس نے اپنے لیے شوپینگ کی تھی جبکہ گاڑی اب گھر کی طرف جارہی تھی عنایہ کا موڈ اب بھی عوف تھا یہاں تک کے اسکریم کھانے کے بعد بھی اس کا موڈ بحال نا ھوا وہ اس سے سخت ناراض ھو رہی تھی وہ کیو ایک سوٹ کے لیے ترسے وہ جانتی تھی اس کی یہ بات خان چاچا کو بھی پسند نہیں اے گی وہ بھی یہی کہتے اگر اسے پسند ہیے تو اسے ضرور لینا چاہیے اور کیا فرق پڑھ جاتا وہ کونسا بہت زیادہ فضول خرچی کرتی تھی اس کو پہلی بار کوئ چیز پسند آئ تھی وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی وہ اس کی ہر چیز کو پورا کرنا چاہتے تھے
لیکن وہ تمہیں زیادہ پسند آیا ہیے لے لو بے شک تم چھ مہینے بعد پیسے دے دینا عنایہ کا دل نا چاہا کے وہ اسے اس طرح واپس لے کر جاہیں اس کی سہیلی کو کوئ بھی چیز بڑی مشکل سے پسند آتی تھی وہ درس کافی زیادہ مہنگا ہیے ٹھیک ہے لیکن وہ اسے پسند تھا اور وہ چاہتی تھی وہ اپنی پسند کی ہر چیز لے مین نے کہا نا مین اس کو بھول بھی جاؤ گی اور تمہیں پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ہے اتنا خوبصورت نہیں تھا کہ مین اس کے بارے مین دوبارہ دوبار سوچو وہ مسکرا کر کہتی باہر نیکل گی تو عنایہ کو بھی مجبوراً قدم اٹھانے پڑے لیکن زوار کو تو ایسی کوئ مجبوری نہیں تھی،،،،ارے یار تم ناراض کیو ھورہی ہو مین سچ کہری ہو مجھے ڈرا اتنا بھی زیادہ پسند نہیں آیا تھا جتنا تمہیں لگا بس اچھی تھی کلر اچھا تھا تو اک پل کے لیے نظر لگ گی اس پر اتنا بھی کوئ شاندار درس نہیں تھا
میری طرف سے تمہارا گفٹ ہیے وہ بے حد خوبصورت اور قیمتی نفیس ڈرس اسے دیکھاتے ھوے بولی جس پر زرشے نے فورآ نفی مین سر ہلا یا نہیں ہرگز نہیں یہ بہت مہنگا ہے اور مین نے تمہیں مہنگا گفٹ لینے سے منع کیا تھا مین تمہارا گفٹ قبول کرو گی اگر میری حثیت کے مطابق ھوا تو وہ فوراً انکار کرتے ھوے بولی تو عنایہ نے اسے گور کر دیکھا آخر مسلہ کیا ہیے تمہارے ساتھ لڑکی میں اپنی مرضی سے تمہیں کوئ گفٹ لے کر دےرہی ہو تو بس اسے قبول کرو آپ یہ پیک کر دے وہ زبردستی اس کے لیے پیک کروا چکی تھی اور اب اس کے سامنے اس کی نہیں چلنی تھی اسے نا چاہتے ہوئے بھی گفٹ قبول کرنا پڑا جب کے زراور یہی سوچ رہا تھا کہ اس کی بڈے پر اسے کیا گفٹ دے اس سے پہلے تو اسے ایسا موقع ملا ہی نہیں تھا کہ اسے وہ کوئ گفٹ دے لیکن اس دفہ اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش جاگی تھی
اس نے اک نظر پورےڈابے کی طرف دیکھا تھا اور پہر اس کے دماغ میں خیال آیا اگر وہ یہاں سے بھاگ جاتی ہیے تو یقینا یہ شخص اس کے دادا دادی کو کچھ نہیں کہ پاے گا کیونکہ اس وقت وہ اس کے ساتھ ہیے یہاں سے بھاگنا اتنا مشکل نہیں تھا کیونکہ مردو کے لیے واشروم اک کونے میں جبکہ عورتوں کے لئے دوسرے کونے میں بنایا گیا تھا اگر وہ واشروم کے بہانے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ آسانی سے یہاں سے نیکل سکتی تھی اور شاہد یہ اس کے پاس اس شخص کے چنگل سے نیکلنے کا آخری راستہ تھا اور وہ اپنا آخری موقع گوا نہیں سکتی تھی،،،،،،،،،،،،، وہ دونوں اس وقت مارکیٹ میں کتابیں خرید رہی تھی کتابیں لے نے کے بعد ان دونوں نے شوپینگ پر جانا تھا وسے تو اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے اس کے باوجود بھی یہ پوری مارکیٹ کھولی ھوئ تھی وہ اکثر اس وقت شوپینگ پر آیا کرتے تھے
کہ مین نے تمہیں کھانے کو کچھ نہیں دیا وہ نارمل مگر طنز لہجے میں گویا ھوا مجھے کچھ نہیں کھانا اور نا ہی مجھے بھوک ہیے وہ سخت لہجے میں بولی تھی کیا کہا تم نے ایک بار پہر سے کہنا وہ اس کی جانب آتا کان اس کے قریب کرتے ہوئے سرد انداز میں بولا کہ عنائش کو خود ہی پیچھے ہٹنا پڑا اس کا انداز بہت عجیب تھا بلکہ وہ خود ہی ایسے عجیب لگتا تھا مجھے اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہیے مین نے کہا باہر نیکل کر کھانا کھاؤ تو مطلب صاف ہیے کے باہر نیکل کر کھانا کھاو وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچتا ایک لمحہ میں اسے زمین پہ کھڑا کر چکا تھا بے اختیار کینچے جانے پر وہ سیدھا اس کے سینے سے جا لگی تھی ،اس کے بدن سے اٹھتی خوشبو عنائش کو کچھ پل کے لیے کیسی اور دنیا میں لے گی تھی لیکن سامنے ولا حوشو واز میں تھا اس کے کھینچنے پر وہ بے بس اس کے ساتھ قدم اٹھانے لگی