آپ کی محبت کی تعریف زبان پہ آنے لگی♥️
آپ سے محبت کر کے زندگی مسکرانے لگی💞
یہ میری محبت تھی یا آپ کی اچھائی ♥️
کہ میری ہر سانس سے آپ کے لیے دعا آنےلگی💖
کسی صدقے نے ٹال دی
ورنہ..🙂
مجھے پھر سے
اس سے محبت ہو رہی تھی..❤🥀
😭تمہارے بعد اسے پڑھ رہا ہوں کثرت سے!!🥺
💔لکھی ہے صبر کی تلقین جس سپارے میں🥺
😭بروز حشر اگر بولنے کا موقع ملا !!!!!💔
💔خدا سے بات کروں گا تمہارے بارے میں!!!😭
*مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ محبت ڈھیر ساری ہے دونوں ہاتھوں میں بھر کر تمام عمر سنبھالوں گی کبھی کھونے نہیں دوں گی محبت کھونے کے ڈر سے مٹھیاں بھینچ لی میں نے مگر جب مٹھیاں کھولیں تو دونوں ہاتھ خالی تھے مجھے غلط فہمی تھی محبت تو ریت جیسی تھی* ♥️💯🖤....
تو یاد آیا ھے تو چل ھنس دیتا ھوں...!!!* 😊
*اب رو کر تیری یاد کو کیا رسوا کرنا...!!!* 🔥
مانا کہ میرے پیار میں درد نہیں تھا
پر دل میرا بے درد نہیں تھا
ہوتی تھی میرے آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات
مگر ان کے لئے آنسو اور پانی میں کوئی فرق نہیں تھا
رانجھے آکھیا آ کھاں بیٹھ ہیرے کوئی خوب تدبیر بنائیے نی
تیرے ماں تے باپ دلگیر ہوندے کویں اُوہناں تھوں بات چھپائیے نی
مٹھی نائن نوں سد کے بات گِنیے جے توں کہیں تیرے گھر آئیے نی
میں سیالاں دے ویہڑے وڑاں ناہیں ساتھے ہیر نوں نِت پہنچائیے نی
دینہہ رات تیرے گھر میل ساڈا ساڈے سریں احسان چڑھائیے نی
ہیر پنج مہراں ہتھ دتےاں نیں جویں مٹھیے ڈول پکائیے نی
کُڑیاں نال نہ کھولنا بھیت مُوئے سبھا جیو دے وِچ لُکائیے نی
وارثؔ شاہ چھپائیے خلق کولوں بھاویں اپنا ہی گڑ کھائیے نی
وارث شاہ
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے
کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
کہیں ایسا نہ ہو دامن جلا لو
ہمارے آنسوؤں پر خاک ڈالو
منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو
بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں
مری خاطر ذرا کاجل لگا لو
اکیلے پن سے خوف آتا ہے مجھ کو
کہاں ہو اے مرے خوابو خیالو
بہت مایوس بیٹھا ہوں میں تم سے
کبھی آ کر مجھے حیرت میں ڈالو
اتنے خاموش بهی رہا نہ کرو
غم جدائی میں یوں کیا نہ کرو
خواب ہوتے ہیں دیکهنے کےلیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
کچه نہیں ہو گا گلہ کرنے سے
ان سے نکلیں حکاتیں شاید
حرف لکه کر مٹا دیا نہ کرو
اپنے رتبے کا کچه لحاظ منیر
یار سب کو بنا لیا نہ کرو
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم
ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم
تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر
دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم
گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے
خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم
ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب
وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم
اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا
آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم
رونے کہ واسطے نہ شانے دیے گئے
ہم کو تمہارے نام کے طعنے دیے گئے
پابندیاں.... مجبوریاں... معذوریاں... لا چاریاں
ہائے رے ہم کو ایسے بہانے دیے گئے
کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے
ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے
گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے
دھنک ابھرے سرِ افلاک کڑی دھوپ میں بھی
دشتِ وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے
کوئی تو اڑ کے دہکتا ہوا سورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے
چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورتِ حال آ جائے
اس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب تیرے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے
کچھ نہیں ہے تو بھلانا ہی اسے سیکھ عدیم
زندگی میں تجھے کوئی تو کمال آ جائے
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یوں ہی خلق سے کنارہ کیا
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا
جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارہ کیا
ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمالؔ آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا
ضدوں میں ترک تعلق ____ تو کر لیا لیکن ؟
سکون اسے بهی نہیں بےقرار میں بهی ہوں!!
زباں کہتی ہے ______ سارا قصور اسکا تها
ضمیر کہتا ہے کچه ذمہ دار میں بهی ہوں🖤
دولت تھی میرے پاس نہ سامان وغیرہ
سو بچا تیرے عشق میں ایمان وغیرہ
اپنا تو کوئی نہیں میرا تو میرے بعد
روئیں گے مجھے پنچھی و حیوان وغیرہ
پھر آس دے کے آج کو کل کر دیا گیا
ہونٹوں کے بیچ بات کو شل کر دیا گیا
صدیوں کا پھوک جسم سنبھالے تو کس طرح
جب عمر کو نچوڑ کے پل کر دیا گیا
اب تو سنوارنے کے لیے ہجر بھی نہیں
سارا وبال لے کے غزل کر دیا گیا
مجھ کو مری مجال سے زیادہ جنوں دیا
دھڑکن کی لے کو ساز اجل کر دیا گیا
کیسے بجھائیں کون بجھائے بجھے بھی کیوں
اس آگ کو تو خون میں حل کر دیا گیا
اب بھی تو پاس نہیں ہے، لیکن
اِس قدر دُور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگوُلوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رَواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بَستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صَدا دیتا ہے
میں بھی آباد مَکاں تھا پہلے
اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیُور
سَرو اِک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دُنیا پیارے
توُ وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain