دنیا کا وبال بھی رہے گا
کچھ اپنا خیال بھی رہے گا
شعلوں سے تجھے گزار دیں گے
ہم سے یہ کمال بھی رہے گا
بانہوں میں سمٹ کے حسن تیرا
کچھ دیر نڈھال بھی رہے گا
اے جان تجھے خراب کر کے
تھوڑا سا ملال بھی رہے گا
مجھ کو تری نازکی کا احساس
دوران وصال بھی رہے گا
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
آکسی خوف میں اُتریں کسی غم کو اوڑھیں
کسی اُجڑے ہوئے لمحے میں سجائیں خود کو
تھام کر ریشمی ہاتھوں میں ہوا کی چادر
رُوح میں گھول لیں تاروں کا حسیں تاج محل
جی میں آتا ہے لپٹ جائیں کسی چاند کے ساتھ
بے یقینی کے سمندر کا کنارہ لے کر
ہم نکل جائیں کسی خدشے کی انگلی تھامے
تیری یادوں کے تلے درد کے سائے سائے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی
ورنہ یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہیں
آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں
اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں
ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں
کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں
زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے
کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں
شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالے
نطق رکھتے ہیں مگر سب سے جدا رکھتے ہیں
ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی
سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں
شہر آواز کی جھلمل سے دمک اٹھیں گے
شب خاموش کی رخ شمع نوا رکھتے ہیں
اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ نجیبؔ
آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
چُپ نہ رہتے بیان ہوجاتے
تجھ سے گر بدگُمان ہوجاتے
ضبظِ غم نے بچا لیا ورنہ
ہم کوئی داستان ہوجاتے
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے ہمیں
ورنہ ہم مہربان ہو جاتے
تیرے قصّے میں ہم بھلا خُود سے
کس لیے بدگُمان ہوجاتے
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی
ورنہ ہم آسمان ہو جاتے
فنکار ہے تو ہاتھہ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا......... نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرف التماس
کچھہ ہے تو اب وہ سامنے دست دعا کے لا
پیماں وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائش جراحت یاراں کی بزم میں
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی چرا کے لا
گر سوچنا ہیں اہل مشیت کے حوصلے
میداں سے گھر میں ایک تو میت اٹھا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا لا
آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا
جب بھی نکلا ستارۂ امید
کہر کے درمیان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا
ذہن میرا آزاد ہے لیکن دل کا دل مٹھی میں!!!!😥
آدھا اس نے قید رکھا ہے آدھا چھوڑ دیا ہے!!!!💔
جہاں دعا ملتی تھی اللّٰہ جوڑی سلامت رکھے؟؟؟💯
میں نے تیرے بعد ادھر سے گزرنا چھوڑ دیا ہے!!!!🙂🖤
بچھڑ کے تم سے خزاں ہو گئے تو یہ جانا
ہمارے حسن میں سب دلکشی تمہاری تھی
گِلہ نہیں کہ مرے حال پر ہنسی دنیا
گِلا تو یہ ہے کہ پہلی ہنسی تمہاری تھی__
🖤✍👑
تمھارے دل پر اپنا نام____ نقش کر دیں گے...❤️
اپنی سانسیں دھڑکنیں تجھ پر قرض کردیں گے..💞
یوں شامل کرلیں گے.................. خود کو تجھ میں..😘
که تم پر اپنی محبت............. ھم فرض کر دیں
اس کو میری آنکھیں پسند ہیں🤩
اور مجھے اپنی آنکھوں میں وہ🙈
🥰🥰🥰🥰🥰🥰درد کو بھی درد ہونے لگا 🥲🍂
درد سینے میں چُھپ کر رونے لگا ❤️🩹🥀
کبھی نہ روۓ تھے ہم درد کو دیکھ کر 🙃🖤
آج درد ہمیں دیکھ کر رونے لگا 🥺
🥀
تمہارا عشق مجھے دشت میں لے آیا ہے
تمہارے ہجر کی وحشی دھمال باقی ہے
عجیب موت ملی ہے مجھے مروت میں
میں اس پہ مر مٹا ہوں انتقال باقی ھے
اثاثہ لگتے تھے مجھ کو کبھی جو خواب مرے
تمہارے بعد تو وہ بھی خسارے لگتے ہیں
اے میری روح کے حصے! تمہیں پتہ ہے؟ مجھے!
تمہارے نام کے انساں بھی پیارے لگتے ہیں
"ع" سے عشق، "ش" سے شکست ہوا-
عشق تب مکمل ہوا جب "ق" سے قلندر ہوا-
:تُم نے دیکھی ہی نہیں عشــقِ قلندر کی دھمال
پَاؤں پتھر پہ بھی پڑتا ہے تو دُھول اُڑتی ہے
رابطہ بھی نہیں رکھتا ہے سرِ وصل کوئی
اور تعلق بھی معطل نہیں ہونے دیتا
دل یہ کہتا ہے اُسے لوٹ کے آنا ہے یہیں
یہ دلاسہ مُجھے پاگل نہیں ہونے دیتا
وہ بھی خوش رہنے لگا ہے مجھے رونے والا
اب میرا ذکر کہیں بھی نہیں ہونے والا 🖤🔥
ہر ظلم ترا یاد ہے بُھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت ! مِٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقشِ کفِ پا تو نہیں ہوں
چُپ چاپ سہی مَصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی، وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دِن تو مجھے اُن کے تغافل نے دِکھائے
میں گردشِ دوراں تیرا مارا تو نہیں ہوں
اُن کے لیے لڑ جاؤں گا تقدیر میں تجھ سے
حالانکہ کبھی تجھ سے میں اُلجھا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈُوب رہا ہوں ابھی ڈُوبا تو نہیں ہوں
کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر
میں اُس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں
مضطرؔ مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی اُن کا تماشا تو نہیں ہوں
خوشی دیکھتے ہیں نہ غم دیکھتے ہیں
فقط تیری مرضی کو ہم دیکھتے ہیں
کبھی ان نگاہوں سے تم بھی تو دیکھو
تمہیں جن نگاہوں سے ہم دیکھتے ہیں 🎀🥀
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain