اتنا بھی تھوڑا ، میســــــر متـــــ ھوا کر توں مجھے
شہـــــــر بھر میں ، آکسیــــجن کی کمی لگنے لگـے
اس جہانِ رنگــــ و بو کی دلکشی سے کیوں گریز
ایسی بھی کیا درویشیــاں ؟؟ دنیا بری لگنے لگـے
میں نے کب چاہا تمہیں غم میں مبتلا دیکھوں
میں نے چاہا ہے.....تمہیں ہنستا ہمیشہ دیکھوں
میری خُواہش ہے کہ اب جس کو میسر ہو تم
اُس کے ہمراہ تمہیں دیکھوں تو باوفا دیکھوں🖤
میں خاندان کی پابندیوں سے واقف تھی
خدا کا شکر ہے اس شخص نے وفا نہیں کی
تیرے غرور سے بڑھ کر میری انا ہے مجھے ___
تو پوچھتا ہے محبت کا مجھ سے ،جا، نہیں کی🍁
تُم بتاؤ گے مُجھے آگ کی حِدَّت کتنی۔؟؟
عشق ہوجائے تو ہو جاتی ہے شِدَّت کتنی
لوگ مِلتے ہیں بِچھڑتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہاں مگر مِل کے بِچھڑنے کی ہے عِدَّت کتنی۔؟
کسی شب تو آ میرے خواب میں
تجھے درد سارے ہی سونپ دوں
تجھے کہہ سکوں وہ شکایتیں
جسے لہرِموجِ فراق نے
۔تہہِ آب کب سے دبا دیا
میرے بے خبر تجھے کیا پتا
میری سانس سے ترے درد کا
جو ہے ایک رشتہ بندھا ہوا
۔یہ چراغ زد میں ہواؤں کی
کسی طاق میں ہے دھرا ہوا
جو تھا خواب میر ی حیات کا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا
کسی شب تو آ میرے خواب میں
میرے ہمسفر ذرا دیکھ لے
میرے شب گزیدہ نگاہ میں
ترے بعد درد ہی رہ گئے
میری شاخ ٹوٹی ھے سوکھ کر
میرے پھول زرد ہی رہ گئے🖤
نئی ہواؤں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے
کبوتروں کو کھُلی چھت بگاڑ دیتی ہے
جو جُرم کرتے ہیں اتنے بُرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
مِلانا چاہا ہے انساں کو جب بھی انساں سے
تو سارے کام سیاست بگاڑ دیتی ہے
ہمارے پیر تقی میر نے کہا تھا کبھی
میاں! یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے
راہ وفا پہ کم ہیں خسارے ہمارے دوست
ہیں اس سفر کے اپنے ستارے ہمارے دوست
کچھ سانپ چاہیے تھے خزانے کے واسطے
اتنے میں آستیں سے پکارے ہمارے دوست
اک دن سنبھل ہی جاتا ہے دنیا سے ہارا شخص
لیکن جو اپنے آپ سے ہارے ہمارے دوست
دشمن کی ہم کو کوئی ضرورت نہیں پڑی
کینہ بہ سینہ پھرتے ہیں سارے ہمارے دوست
ہم نے غزل کی اوٹ سے سب کچھ بتا دیا
لیکن سمجھ نہ پائے اشارے ہمارے دوست
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت ، تو لکھیں گے کسی دن
جاتی ھے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک !
آنکھوں میں تیری ڈوب کے، دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں، جگنو کے قلم سے
اک نظم ، تیرے واسطے ، لکھیں گے کسی دن
ﺩﻝ ﺟﻮ ﮬﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮬﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺮﯼ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﯽ ﻣﺎﺕ ﮔﺌﯽ
ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﻋﮩﺪ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﻭﮞ؟؟
ﺍﺳﮑﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﯽ ﺑﺎﺕ گئی🙃🙃
*دکھ ترا صبر سے سہتے تو وہی اچھا تھا*
*اشک آنکھوں سے نہ بہتے تو وہی اچھا تھا*
*یونہی بیزار کیا یار محبت نے ہمیں*
*ہم اگر دوست ہی رہتے تو وہی اچھا تھا*
#۔۔۔۔۔؟؟
تمھارے دل پر اپنا نام____ نقش کر دیں گے...❤️
اپنی سانسیں دھڑکنیں تجھ پر قرض کردیں گے..💞
یوں شامل کرلیں گے.................. خود کو تجھ میں..
که تم پر اپنی محبت............. ھم فرض کر دیں گے💞
میری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا
اسے تو صرف بچھڑنے کا دکھ ھے اور مجھے
یہ غم بھی ھے کہ وہ مجھے یاد کر کے روئے گا ۔🖤
کُچھ موســـمِ بے رنگ، تو کُچھ زَرد چُھپے ہیں
اِس چَاک گریـــباں میں بــــڑے درد چُھپے ہیں
جل جاتے ہیں دُنیا میں کئی لوگ ٹھٹھر کـــــر
لہجوں میں بھی اَنگارے یہاں سَرد چُھپے ہیں
یہ زخـــــــــم کُریدیں گے تـــــسّلی کے بــہانے
ہــــمدرد کے ملـــبُوس میں بے درد چُھپے ہیں
میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ہے۔۔۔
میں تو پاگل ہوں میری بات میں کیا رکھا ہے۔۔۔
باندھ رکھا ہے تیری یاد نے ماضی سے مجھے۔۔۔
ورنہ گزرے ہوئے لمحات میں کیا رکھا ہے۔۔۔
میری تکمیل تیری ذات سے ہی ممکن ہے۔۔۔
تو الگ ہو تو میری ذات میں کیا رکھا ہے۔۔۔
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے
اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
اس کی یاد آئی ہے، سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
جانے دو میری اتنی بھی تقدیر نہیں ہے
اور وہ مل جائے کہیں ایسی بھی تدبیر نہیں ہے
وہ میری پوری دنیا ہے مگر اس کے ساتھ تنہا
یار ۔۔۔میری ایک بھی تصویر نہیں ہے🖤
میں جو مہکا تو میری شاخ جلا دی اس نے
سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اس نے
پہلے ایک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو
اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اس نے
میری ناکام محبت مجھے واپس کر دی
یوں مرے ہاتھ، میری لاش تھما دی اس نے
جانتا تھا کے مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستمگر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے
اس کے ہونے سے تھی سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے
خاموشی کی چادر
سر پہ اوڑھے
ننگے پاؤں
چاند کے پیچھے
بھاگ رہا ہوں
پچھلی ایک صدی سے جاناں
تیری خاطر جاگ رہا ہوں
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں
میں زہر جیسی کچھ دوائیں
چاہییں پوچھتی ہیں آپ، آپ
اچھے تو ہیں جی میں اچھا
ہوں، دوائیں چاہییں
دکھ کے عالم میں تبسّم بھی سجا ہونٹوں پر
صرف دامن کو بھگونا ہی نہیں کافی ناں !
اس نے بدلی تھی نظر جب ، تجھے مر جانا تھا
دلِ مضطر تیرا رونا تو نہیں کافی ناں !
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain