تیار شیار ہو کر تین گھنٹے کا سفر بس پر کیا اور آگے رکشہ لے کر اسنوکر کلب پہنچا تو وہاں ہر جگہ اوباش قسم کے لڑکے سگریٹ نوشی میں مشغول گپ شپ کرتے اسنوکر کھیل رہے تھے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ محبت میں دھوکا ہو گیا ہے۔ ٹوٹے دل کے ساتھ ابھی کلب سے باہر ہی نکلا تھا کہ ایک پچیس تیس سالہ مرد نے مجھے آواز لگائی۔ میں نے رک کر دیکھا تو وہ چلتا میرے پاس آیا اور بولا "میں ہی ہو فاطمہ ، مائنڈ نہیں کرنا یار۔ بس ایسے ہی شغل لگایا ہوا تھا۔ چلو تم کو پیپسی پلاوں"
ابھی داڑھی مونچھ بھی ٹھیک سے نہیں آئی تھی۔ نیٹ پر لاہور کی ایک لڑکی سے چیٹ کا سلسلہ شروع ہوا جو اتنا پھیلا کہ میں اسے ملنے بہاولپور سے لاہور آ گیا۔ اس نے مجھے لاہور پہنچنے پر مون مارکیٹ میں واقع ایک اسنوکر کلب کا بتایا۔ پہلے مجھے شک تو گزرا کہ لڑکی کا اسنوکر کلب میں کیا کام مگر محبت اندھی ہوتی ہے اور انٹرنیٹ کے اوائل کے دور میں پر ہونے والی محبت شدید انی ہوتی تھی۔
اس دن میں یکسر بدل گیا جب مجھ پہ یہ راز کھلا کہ ہر رشتہ صرف تب تک ہی تمہارا ہے جب تک تم ان کو فائدہ پہنچاتے ہو چپ چاپ خاموش ہوکر کئی گھنٹے یہی سوچتا رہا کہ کیا واپس آنے والا انسان واقعی ہی ہماری چاہت یا وفاداری کے Regret یعنی (پچھتاوے) کی وجہ سے لوٹ آتا ہے ؟؟ یا کوئی اور انسان جس پہ اس نے اپنی وفا اور محبت لوٹائی ہو اس کے لیئے اپنے دل کو مخلص کیا ہو اور اسی انسان نے اسے توڑ دیا ہو اس کے اعتبار کو پاش پاش کرکے اس کو ریزہ ریزہ کردیا ہو جب تمام راستے بند ہوگئے ہوں تب جاکر اس ٹوٹنے والے نے سوچا ہو کہ اس سے تو بہتر آپ ہی تھے جس کو اس نے چھوڑا تھا ۔
جو لوگ چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر صرف یہ چاہتے ہیں کہ اُنکو روکا جائے ، کیونکہ جو لوگ واقعی چھوڑنا چاہتے ہوں وہ بغیر کسی دھمکی کے بھی چلے جاتے ہیں۔