Damadam.pk
Red0007's posts | Damadam

Red0007's posts:

Red0007
 

اگر آپ فطرتًا مخلص انسان ہیں
تو یاد رکھیں آپ کو کھونے والا ہر شخص اپنا ناقابل تلافی نقصان کرے گا
جس کا خمیازہ اسے تمام عمر بھگتنا پڑے گا... اس لئیے خود کو کسی کے سامنے ڈاؤن کرنے کے بجائے پر اعتماد رہیں اور اپنی مخلصی پہ شک کئیے بغیر اسکو قائم رکھیں

Red0007
 

عورت کو کسی بھی وقت، کسی بھی بات پر
روٹھ جانے کی آزادی ہوتی ہے۔۔

Red0007
 

ایک تعلق کو نبھانے کے لئے آپ کی یادداشت کا کمزور ہونا بہت ضروری ہے

Red0007
 

وہ ڈر سی گئی ہے کہ کہیں وہ جھوٹا نہ ہو، اور وہ بھی ڈر سا گیا ہے کہ کہیں وہ ڈھونگی ، ڈرامے باز اور دھوکے باز نہ ہو۔ "ماضی" نے ہماری نئی نسل کو "محبت" سے ڈرا دیا ہے۔ کوئی شخص کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہتا، کوئی بھی اب محبت نہیں کرنا چاہتا کہ وہ تعلق کے ٹوٹنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ وہ چھوڑ جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ سب نے اپنے ٹوٹے دل کے گرد ایک دیوار تعمیر کر لی ہے جس میں اعتبار، بھروسہ، یقین اور محبت کا داخلہ ممنوع ہے

Red0007
 

آئندہ تمہارا میسج نا آئے
کتنے ہی پل وہ سکرین کو ٹکٹکی باندھے بس دیکھتی رہی اسے لگا شاید کسی نے چوراہے میں کھڑا کر کے اس کے منہ پہ تمانچہ مارا ہو وہ کتنے ہی پل کچھ بول نا پائی اس. کے اندر جیسے کچھ ٹوٹا تھا مان اعتبار بھروسہ اس نے بمشکل ٹائپ کیا کیوں؟
اسکے اندر سے جیسے آواز آئی تم اپنا وقار نہیں کھو سکتی اک لمبی سانس کھنچنے کے بعد وہ چیٹ ڈلیٹ کر چکی تھی اس عہد کے ساتھ کے کبھی وہ کسی کو اپنا دل دکھانے یا اپنے قریب آنے کی اجازت نہیں دے گی

Red0007
 

میں انسانی خواہشات کی تہہ تک گیا میں نے پایا کہ جو بھی جس کے پاس ہے اُسے اُس سے گلہ ہے

Red0007
 

نہیں تھا اعتبار اس کو میری مخلصی پر
کھو دیا اس نے مجھے آزماتے آزماتے

Red0007
 

سائکیٹرسٹ اپنے اس مریض کی حالت کے متعلق الجھن میں تھا، اس نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا:
" مزاحیہ جوکروں میں سے ایک جوکر کا ڈیلی تھیٹر شو ہوتا ہے، یہ جوکر سارے غمگین افسردہ لوگوں کو ہنسا دیتا ہے- میں ذاتی طور پر اس کا شو دیکھتا رہا ہوں اور جب بھی یاد کرتا ہوں تو میں ہنستا ہوں -
ٹکٹ خریدیں اور اس شو میں شرکت کریں، یقین جانیں، آپ کے منہ میں ہنس ہنس کر درد ہونے لگ جائے گا "
اس آدمی نے جواب دیا : " جناب میں وہی جوکر ہوں! "
فیلیٹی اوگنی فرانسیسی جوکر جس نے لاکھوں لوگوں کو ہنسایا
اور خود اس نے خود کُشی کر لی

Red0007
 

ایک شخص ماہر نفسیات کے پاس گیا اور کہا: " میں مسلسل افسردہ اور غمگین رہتا ہوں، اداسی میری زندگی پر حاوی رہتی ہے، براہ کرم میری مدد کریں "
تو ڈاکٹر نے اسے کچھ دوا دی
ایک ہفتہ بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور کہا: " جناب! یہ دوائیاں میرے کچھ کام نہیں آئیں - مجھے جان لیوا کرب محسوس ہوتا ہے "
تو ڈاکٹر نے اسے مزید اور دوائیں دیں
دو ہفتے بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور بتایا: " کچھ نہیں بدلا، اداسی ابھی بھی بے قابو ہے"

Red0007
 

میں نایاب الجھنوں کی مکمل کتاب ہوں
مجھے میرے سوا کوئی نہیں سمجھتا

Red0007
 

’ ذرا اِدھر کو تو آ… یہ مرغی تیرے پاس کہاں سے آئی‘‘
لڑکے نے حمید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ وہ ابّا…یہ انکل اپنی دُکان کے پاس سے جا رہے تھے، اپنی مرغی کی ٹانگ لوہے کے جالے میں اَڑی ہوئی تھی…انکل نے اس کی ٹانگ نکالی، تو یہ پھدک کے اپنے گھر کی سیڑھیوں کی طرف بھاگ گئی تھی…مَیں نے اور مُنّے نے مل کر اسے پکڑ لیا…دیکھ ابّا…جالے میں پھنس کے اِس کی ایک ٹانگ بھی زخمی ہوگئی۔‘‘
حمید بے چین ہوکر آگے بڑھا…اپنی خون آلود شرٹ کو ایک کونے سے پھاڑا اور اُسے مرغی کی زخمی ٹانگ پر باندھ دیا۔

Red0007
 

خیرو حجام نے اُس کا آدھا سر اور ایک طرف کی بھنویں مونڈھ دیں، کسی نے آگے بڑھ کر اُس کے چہرے پر کالک بھی مَل دی۔ہجوم وہاں سے حمید کو مارتا پیٹتا شکور کے گودام کی طرف لے کر جا رہا تھا، جہاں اُس کے ساتھ جانے کیا ہوتا کہ کتب فروش، کریم نے دیکھا، کباڑی کا چھے سات سال کا بیٹا گود میں ایک مرغی اُٹھائے باپ کی دُکان کے باہر کھڑا ہے۔وہ چیخنے کے سے انداز میں بولا’’ ارے مرغی تو وہ رہی۔‘‘سب کی گردنیں ایک دَم پیچھے کی طرف مُڑ گئیں اور ہجوم پر ایسی خاموشی چھا گئی، جیسے کوئی اُن کا سانس پی گیا ہو۔

Red0007
 

’’ چلو، اِسے خیرو حجام کی دُکان پر لے چلو‘‘ شکور نے حمید کے ہاتھ کھولے اور کمر پر مُکّے مارتا ہوا اُسے لے کر آگے بڑھا۔ باقی لوگوں نے بھی اُسے تھپڑ، لاتیں مارنا شروع کردیں۔ وہ گرتا پڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔یہاں ایک اور مصیبت نے اُسے آ گھیرا۔ سامنے ایک سرکاری مِڈل اسکول تھا، بچّوں کی چُھٹی کی گھنٹی بجی، تو سیکڑوں بچّے دروازے سے اُبل پڑے اور جب اُنھیں پتا چلا کہ لوگوں نے ایک مرغی چور کو پکڑا ہوا ہے، تو وہ اپنے گھروں کو جانے کی بجائے’’ مرغی چور،مرغی چور‘‘ کے نعرے لگاتے حمید کے پیچھے ہولیے۔ اچھا خاصا جلوس بن گیا۔ کئی بچّوں نے تو اُسے پتھر بھی دے مارے۔ ایسے ہی ایک پتھر سے اُس کی پیشانی سے خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا اور اُس کے کپڑے خون سے رنگ گئے۔

Red0007
 

اُس نے آس پاس کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا، وہ بھی اُس کی تائید میں زور زور سے گردن ہلا رہے تھے’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
کئی افراد ایک دَم حمید کی طرف بڑھے اور اُسے اپنی لاتوں، گھونسوں میں لے لیا۔’’ میری بات تو سُنیے، مَیں…‘‘ اِس سے پہلے کے حمید کچھ مزید کہتا، ایک نے اُس کے چہرے پر زور سے تھپڑ مارا، جس سے وہ چکرا سا گیا۔وہ شخص دوبارہ تھپڑ مارنے کو ہاتھ اُٹھا رہا تھا کہ کتب فروش،کریم نے اُسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا’’ اِس کی سُن تو لو، آخر یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے۔‘‘
’’ یہ یہی کہے گا نا… مَیں بے قصور ہوں… مَیں نے کچھ نہیں کیا۔مَیں نے خود اسے مرغی چوری کرتے دیکھا ہے…لیکن ہے کوئی مہا چور…پتا نہیں مرغی کہاں غائب کردی۔‘‘

Red0007
 

جو اپنی شرارتوں سے گھر بَھر کو محفوظ کرتا رہتا۔
حمید آج کسی کام سے اِس علاقے میں آیا تھا کہ کباڑی نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ اُسے دبوچ لیا۔’’ تُوں ہمارے محلّے میں چوریاں کرتا پِھر رہا ہے، سا…‘‘ کباڑی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حمید نے پُرسکون انداز میں کہا’’ دیکھیے…ایسا نہیں…‘‘ کباڑی کے ملازم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا’’استاد! کوئی جنٹرمین چور لگتا ہے، دیکھیے، سُنیے، فرمائیے کہہ رہا ہے۔‘‘ اِس پر سب نے زور دار قہقہہ لگایا اور اُسے مارتے ہوئے دُکان میں لے آئے۔
’’ دیکھو بھئی! دھندے کا وقت ہے، جلدی جلدی اس کو مار کوٹ لو اور پھر پولیس کے حوالے کرکے دفع کرو۔ وہ خود ہی اِس جیسے لفنگوں سے نمٹ لے گی۔‘‘ ایک دُکان دار کی تجویز پر شکور نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا’’ نہیں، نہیں۔ ارے ہم کیا پولیس سے کم ہیں…اِدھر ہی حساب چُکتا کردیں گے‘

Red0007
 

حمید گیارہویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور قریب ہی رہتا تھا۔اُس کی ماں بڑی چاہت سے سب کو بتاتی’’ میرے مِحدّا کے دو ہی شوق ہیں۔ خُوب پڑھنا اور جانوروں سے پیار کرنا۔‘‘
’’یہ تو بلیوں کا ماموں ہی بن گیا ہے۔‘‘وہ یہ کہتے ہوئے خُوب ہنستی۔
حمید نے دسویں جماعت میں پورے اسکول میں ٹاپ کیا تھا اور اب ایف ایس سی میں پری میڈیکل گروپ کا انتخاب کیا تھا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور وہ بھی جانوروں کا۔محلّے میں کوئی اُسے جانے، نہ جانے، مگر بلیاں اُسے ضرور جانتی تھیں۔ وہ اُسے دیکھتے ہی میاؤں میاؤں کرتی گھیر لیتیں۔ اُنھیں پتا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں پکڑی شاپر میں اُن کے لیے گوشت ضرور ہوگا۔اُس کا چھوٹا سا گھر تھا، جس کی چھت پر اُس نے کئی طرح کے پرندے اور مرغیاں پال رکھی تھیں۔کچھ دن پہلے کہیں سے ایک میمنا(بکری کا بچّہ) بھی خرید لایا تھا،

Red0007
 

’’ شکور بھائی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایسے مسٹنڈے کی تو ہڈیوں کا قیمہ بنا دینا چاہیے۔اِس کی ہمّت کیسے ہوئی ہمارے محلّے میں چوری کرنے کی۔‘‘ ریٹائرڈ پٹواری کے جواب میں ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
وہاں موجود ہر شخص مشتعل تھا اور وہ حمید کی طرف ایسی غضب ناک نظروں سے گھور رہے تھے،جیسے اُسے زندہ ہی نگل جائیں گے۔
’’ ابے توُں کرسی پر کس خوشی میں بیٹھا ہے…ہیں…مہمانِ خصوصی بن کے آیا ہے کیا…نیچے بیٹھ۔‘‘ایک موٹا شخص آگے بڑھا اور اُسے دھکّا دے کر زمین پر گرا دیا۔ توازن کھونے کی وجہ سے حمید کا چہرہ کرسی کے پائے سے ٹکرا گیا اور اُس کے ہونٹوں سے خون بہنے لگا۔یہ کارنامہ انجام دینے والے شخص کا پیٹ شدّتِ جذبات سے آخری دنوں کی کسی گیابھن بکری کی مانند ہچکولے کھا رہا تھا۔

Red0007
 

لوگوں نے حمید کو ایک کباڑیے کی دُکان میں بٹھا رکھا تھا۔ اُس کے ہاتھ کرسی کی پُشت سے بندھے ہوئے تھے۔ جو آتا، اُس کے چہرے یا گُدی پر ایک، دو تھپڑ ضرور رسید کرتا۔ لوگوں کے ہجوم سے ایسا لگتا تھا،جیسے کوئی مداری بندر کے کرتب دِکھا رہا ہے اور مجمعے نے اُسے گھیر رکھا ہے۔گویا ایک شغل میلہ لگا ہوا تھا۔ ایک پستہ قد شخص ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھا اور حمید کی ناک پے گھونسا جڑتے ہوئے چیخا۔
’’ آج اِس آوارہ نے یہاں سے مرغی چُرائی ہے، کل کلاں گھروں کے باہر بندھے بکرے، بکریوں پر ہاتھ صاف کرے گا، پھر گھروں اور دُکانوں میں نقب لگانے کو بھی اِس کا دل للچائے گا۔مَیں تو کہتا ہوں، اِسے ایسا سبق سِکھاؤ کہ آئندہ اِس طرف آنے کا سوچتے ہی اِس پر کپکپی طاری ہوجائے۔‘‘

Red0007
 

اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عورت آپ کو شادی سے پہلے ہی چھوڑ دے، تو اسے اپنی غربت ، بھوک یا یتیمی کے بارے میں بتائیں، پہلے وہ آپ کی دوست بن جائے گی، اور آہستہ آہستہ وہ آپ کی بہن بن جائے گی، پھر آخر میں، وہ عورت آپ کی زندگی سے مکمل طور پر غائب ہوجائے گی - عورت کبھی اس شخص کے ساتھ محبت میں مبتلا نہیں ہوتی جس پر وہ ترس کھاتی ہے -

Red0007
 

انسانی تکلیفوں کی دو ہی وجوہات ہیں؛ درد اور بوریت -
لوگ اپنے اندرونی خلا کو پُر کرنے اور اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے سیر و تفریح کے مقامات پر جاتے ہیں، رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ایسی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کا مرکز صرف چار چیزیں ہی ہوتی ہیں؛
11 - مال و دولت؛ کتنا پیسا کمایا، کہاں انوسیٹ کیا، کتنا جمع کیا
2 - سامان؛ لباس، جوتے، گھر اور گاڑی پر بات
3 - بچے؛ ان کی تعلیم و مصروفیات پر بات
44 - طعام؛ کھانے پینے پر گفتگو اور کھانے ہی پر ملاقات کا اختتام