ہم تنہائی سے کبھی نہیں مرتے ہماری موت کا سبب وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمیں سستا کر دیا اور ہم سمجھتے رہے وہ ہماری زندگی ہیں
ہر انسان کی ایک غلط فہمی ہوتی ہے کہ اُسے چاہا نہیں گیا اصل میں انسان اپنے مطلب کی چاہت کی چاہ رکھتاہے۔اور اُن لوگوں کی چاہت ٹھکرا دیتا ہے جو اس کی معمولی سی توجہ کےطلب گار ہوتے ہیں مگر انسان تو خواہشات کے غلام ہیں اُسے محبت بھی اپنے من پسند انسان سے ہی چاہیے ہوتی ہے اور وہاں نہیں ملے تو اُس کے لیے کسی اور کے کیے گئے احساس میں اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ میں خوش رہنا شروع کر دیتا ہے پھر وہ دوسروں سے خوشی ملنے کی امیدیں نہیں باندھتا. اور جہاں آپ امیدیں باندھنا بند کر دیتے ہیں وہیں سے آپ اپنے آپ کو تکلیف سے بچانے کا پہلا قدم اٹھاتے ہیں. آپ کو حقیقی خوشی وہی انسان دے سکتا ہے جو آپ کو مکمل طور پر جانتا ہو، آپ کے اندر کو پہچانتا ہو. ایسا انسان آپ کو دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملے گا سوائے آپ کے گھر کے آئینے میں. کیونکہ کوئی بھی دوسرا انسان آپ کو چاہے جتنا مرضی جان لے مگر پھر بھی آپ کی ذات کے بہت سارے پہلوؤں سے نا آشنا ہی رہتا ہے. وہ پہلو جو صرف اور صرف آپ جانتے ہو. آپ کا وجود کسی کی دی ہوئی خوشی کا محتاج نہیں ہونا چاہئے. اپنے آپ کو آزادی دیں دوسروں سے، اور اپنے وجود پر خود حکومت کریں
کوئی تو رابطے کی صورت ہو
اک فون کال ایک میسج
سرخ دھڑکتا ہوا دل
تمہارے شہر سے میرے شہر کو آتے بادل
کوئی شناسا جو تیرا ذکر کرے ۔
میرے لئے لکھی کوئی پیار بھری تمھاری تحریر۔ تمھارا ہم نام کوئی بچہ کوئی بات تمھارہ چہرہ کچھ بھی جو اُداسی کو دور کرے.۔۔پتہ نہیں یہ اداسی ہم خالی ہاتھ رہ جانے والوں سے کیا چاہتی ہے
ترک تعلق کے بعد ہر اس چیز اور مشغلے کو ترک کر دیں جو اس وابستگی کے تحت اپنائے ہوئے تھے ورنہ جب جب وہ تحاریر وہ دلچسپیاں وہ یادیں پھر سے سامنے آئیں گی جسم و جاں کی تمام رگوں میں اذیت کا کرنٹ ایسے دوڑے گا کہ آپ کا جسم نیلا پڑ جائے گا مگر اس اذیت سے باہر نکالنے والا کوئی نہیں ہوگا
چلو شادی والی بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا پوسٹ پہ آنے کیلیے بھی تمہارے ابا نہیں مانتے
کئی سال پہلے فلم میں ایک سین دیکھا جس میں عاشق کے ہاتھوں میں اس کی محبوبہ کے ہاتھ تھے. وہ اپنی محبوبہ سے پوچھتا ہے
'اس میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟'
محبوبہ شرما کے کہتی ہے 'ساری آپ کی ہیں'
مجھ کو اس بات نے اپنا گرویدہ کر لیا. میری بڑی خواھش تھی کے تعلیم سے فراغت کے بعد تیس چالیس تک شادی ہو گی تو کوئی مجھے بھی ایسے کہے
سال پر سال گزرتے گئے. لیکن یہ خواہش نہ بھول سکا
آخر وہ میری زندگی میں آ ہی گئی.
ایک دن جب اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھے مجھ کو اپنی وہ ہی خواہش یاد آگئی. میں نے بڑے جذب کے عالم اس سے پوچھا، 'ان میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟'
اس نے کہا،
' اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے، یہ کالی کالی آپ کی ہیں'
زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے ،
کہ آپ کسی ایک انسان پر چاہت، خلوص، عقیدت، محبت
اور اعتبار کے خزانے لُٹا رہے ہوں۔
اور وہ شخص زندگی کے کسی موڑ پر اپنے کسی گھٹیا عمل سے آپ پر یہ واضح کر دے
کہ وہ اس سب کے بالکل بھی قابل نہیں تھا،
کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نا؟ ان تمام جذبات کا ضائع چلے جانا۔؟
آپ سب سے گزارش ہے
دل والا لائک نا دیا کریں
بندہ لمممممممبیاں سوچاں وچ پے جاندا اے
میں تجھ سے پوری توجہ کی طلبگار ہوں
اگر اوروں سے تعلق ہے تو مجھ سے دور رہو
اگر آپ فطرتًا مخلص انسان ہیں
تو یاد رکھیں آپ کو کھونے والا ہر شخص اپنا ناقابل تلافی نقصان کرے گا
جس کا خمیازہ اسے تمام عمر بھگتنا پڑے گا... اس لئیے خود کو کسی کے سامنے ڈاؤن کرنے کے بجائے پر اعتماد رہیں اور اپنی مخلصی پہ شک کئیے بغیر اسکو قائم رکھیں
عورت کو کسی بھی وقت، کسی بھی بات پر
روٹھ جانے کی آزادی ہوتی ہے۔۔
ایک تعلق کو نبھانے کے لئے آپ کی یادداشت کا کمزور ہونا بہت ضروری ہے
وہ ڈر سی گئی ہے کہ کہیں وہ جھوٹا نہ ہو، اور وہ بھی ڈر سا گیا ہے کہ کہیں وہ ڈھونگی ، ڈرامے باز اور دھوکے باز نہ ہو۔ "ماضی" نے ہماری نئی نسل کو "محبت" سے ڈرا دیا ہے۔ کوئی شخص کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہتا، کوئی بھی اب محبت نہیں کرنا چاہتا کہ وہ تعلق کے ٹوٹنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ وہ چھوڑ جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ سب نے اپنے ٹوٹے دل کے گرد ایک دیوار تعمیر کر لی ہے جس میں اعتبار، بھروسہ، یقین اور محبت کا داخلہ ممنوع ہے
آئندہ تمہارا میسج نا آئے
کتنے ہی پل وہ سکرین کو ٹکٹکی باندھے بس دیکھتی رہی اسے لگا شاید کسی نے چوراہے میں کھڑا کر کے اس کے منہ پہ تمانچہ مارا ہو وہ کتنے ہی پل کچھ بول نا پائی اس. کے اندر جیسے کچھ ٹوٹا تھا مان اعتبار بھروسہ اس نے بمشکل ٹائپ کیا کیوں؟
اسکے اندر سے جیسے آواز آئی تم اپنا وقار نہیں کھو سکتی اک لمبی سانس کھنچنے کے بعد وہ چیٹ ڈلیٹ کر چکی تھی اس عہد کے ساتھ کے کبھی وہ کسی کو اپنا دل دکھانے یا اپنے قریب آنے کی اجازت نہیں دے گی
میں انسانی خواہشات کی تہہ تک گیا میں نے پایا کہ جو بھی جس کے پاس ہے اُسے اُس سے گلہ ہے
نہیں تھا اعتبار اس کو میری مخلصی پر
کھو دیا اس نے مجھے آزماتے آزماتے
سائکیٹرسٹ اپنے اس مریض کی حالت کے متعلق الجھن میں تھا، اس نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا:
" مزاحیہ جوکروں میں سے ایک جوکر کا ڈیلی تھیٹر شو ہوتا ہے، یہ جوکر سارے غمگین افسردہ لوگوں کو ہنسا دیتا ہے- میں ذاتی طور پر اس کا شو دیکھتا رہا ہوں اور جب بھی یاد کرتا ہوں تو میں ہنستا ہوں -
ٹکٹ خریدیں اور اس شو میں شرکت کریں، یقین جانیں، آپ کے منہ میں ہنس ہنس کر درد ہونے لگ جائے گا "
اس آدمی نے جواب دیا : " جناب میں وہی جوکر ہوں! "
فیلیٹی اوگنی فرانسیسی جوکر جس نے لاکھوں لوگوں کو ہنسایا
اور خود اس نے خود کُشی کر لی
ایک شخص ماہر نفسیات کے پاس گیا اور کہا: " میں مسلسل افسردہ اور غمگین رہتا ہوں، اداسی میری زندگی پر حاوی رہتی ہے، براہ کرم میری مدد کریں "
تو ڈاکٹر نے اسے کچھ دوا دی
ایک ہفتہ بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور کہا: " جناب! یہ دوائیاں میرے کچھ کام نہیں آئیں - مجھے جان لیوا کرب محسوس ہوتا ہے "
تو ڈاکٹر نے اسے مزید اور دوائیں دیں
دو ہفتے بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور بتایا: " کچھ نہیں بدلا، اداسی ابھی بھی بے قابو ہے"
میں نایاب الجھنوں کی مکمل کتاب ہوں
مجھے میرے سوا کوئی نہیں سمجھتا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain