’ ذرا اِدھر کو تو آ… یہ مرغی تیرے پاس کہاں سے آئی‘‘
لڑکے نے حمید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ وہ ابّا…یہ انکل اپنی دُکان کے پاس سے جا رہے تھے، اپنی مرغی کی ٹانگ لوہے کے جالے میں اَڑی ہوئی تھی…انکل نے اس کی ٹانگ نکالی، تو یہ پھدک کے اپنے گھر کی سیڑھیوں کی طرف بھاگ گئی تھی…مَیں نے اور مُنّے نے مل کر اسے پکڑ لیا…دیکھ ابّا…جالے میں پھنس کے اِس کی ایک ٹانگ بھی زخمی ہوگئی۔‘‘
حمید بے چین ہوکر آگے بڑھا…اپنی خون آلود شرٹ کو ایک کونے سے پھاڑا اور اُسے مرغی کی زخمی ٹانگ پر باندھ دیا۔
خیرو حجام نے اُس کا آدھا سر اور ایک طرف کی بھنویں مونڈھ دیں، کسی نے آگے بڑھ کر اُس کے چہرے پر کالک بھی مَل دی۔ہجوم وہاں سے حمید کو مارتا پیٹتا شکور کے گودام کی طرف لے کر جا رہا تھا، جہاں اُس کے ساتھ جانے کیا ہوتا کہ کتب فروش، کریم نے دیکھا، کباڑی کا چھے سات سال کا بیٹا گود میں ایک مرغی اُٹھائے باپ کی دُکان کے باہر کھڑا ہے۔وہ چیخنے کے سے انداز میں بولا’’ ارے مرغی تو وہ رہی۔‘‘سب کی گردنیں ایک دَم پیچھے کی طرف مُڑ گئیں اور ہجوم پر ایسی خاموشی چھا گئی، جیسے کوئی اُن کا سانس پی گیا ہو۔
’’ چلو، اِسے خیرو حجام کی دُکان پر لے چلو‘‘ شکور نے حمید کے ہاتھ کھولے اور کمر پر مُکّے مارتا ہوا اُسے لے کر آگے بڑھا۔ باقی لوگوں نے بھی اُسے تھپڑ، لاتیں مارنا شروع کردیں۔ وہ گرتا پڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔یہاں ایک اور مصیبت نے اُسے آ گھیرا۔ سامنے ایک سرکاری مِڈل اسکول تھا، بچّوں کی چُھٹی کی گھنٹی بجی، تو سیکڑوں بچّے دروازے سے اُبل پڑے اور جب اُنھیں پتا چلا کہ لوگوں نے ایک مرغی چور کو پکڑا ہوا ہے، تو وہ اپنے گھروں کو جانے کی بجائے’’ مرغی چور،مرغی چور‘‘ کے نعرے لگاتے حمید کے پیچھے ہولیے۔ اچھا خاصا جلوس بن گیا۔ کئی بچّوں نے تو اُسے پتھر بھی دے مارے۔ ایسے ہی ایک پتھر سے اُس کی پیشانی سے خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا اور اُس کے کپڑے خون سے رنگ گئے۔
اُس نے آس پاس کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا، وہ بھی اُس کی تائید میں زور زور سے گردن ہلا رہے تھے’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
کئی افراد ایک دَم حمید کی طرف بڑھے اور اُسے اپنی لاتوں، گھونسوں میں لے لیا۔’’ میری بات تو سُنیے، مَیں…‘‘ اِس سے پہلے کے حمید کچھ مزید کہتا، ایک نے اُس کے چہرے پر زور سے تھپڑ مارا، جس سے وہ چکرا سا گیا۔وہ شخص دوبارہ تھپڑ مارنے کو ہاتھ اُٹھا رہا تھا کہ کتب فروش،کریم نے اُسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا’’ اِس کی سُن تو لو، آخر یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے۔‘‘
’’ یہ یہی کہے گا نا… مَیں بے قصور ہوں… مَیں نے کچھ نہیں کیا۔مَیں نے خود اسے مرغی چوری کرتے دیکھا ہے…لیکن ہے کوئی مہا چور…پتا نہیں مرغی کہاں غائب کردی۔‘‘
جو اپنی شرارتوں سے گھر بَھر کو محفوظ کرتا رہتا۔
حمید آج کسی کام سے اِس علاقے میں آیا تھا کہ کباڑی نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ اُسے دبوچ لیا۔’’ تُوں ہمارے محلّے میں چوریاں کرتا پِھر رہا ہے، سا…‘‘ کباڑی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حمید نے پُرسکون انداز میں کہا’’ دیکھیے…ایسا نہیں…‘‘ کباڑی کے ملازم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا’’استاد! کوئی جنٹرمین چور لگتا ہے، دیکھیے، سُنیے، فرمائیے کہہ رہا ہے۔‘‘ اِس پر سب نے زور دار قہقہہ لگایا اور اُسے مارتے ہوئے دُکان میں لے آئے۔
’’ دیکھو بھئی! دھندے کا وقت ہے، جلدی جلدی اس کو مار کوٹ لو اور پھر پولیس کے حوالے کرکے دفع کرو۔ وہ خود ہی اِس جیسے لفنگوں سے نمٹ لے گی۔‘‘ ایک دُکان دار کی تجویز پر شکور نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا’’ نہیں، نہیں۔ ارے ہم کیا پولیس سے کم ہیں…اِدھر ہی حساب چُکتا کردیں گے‘
حمید گیارہویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور قریب ہی رہتا تھا۔اُس کی ماں بڑی چاہت سے سب کو بتاتی’’ میرے مِحدّا کے دو ہی شوق ہیں۔ خُوب پڑھنا اور جانوروں سے پیار کرنا۔‘‘
’’یہ تو بلیوں کا ماموں ہی بن گیا ہے۔‘‘وہ یہ کہتے ہوئے خُوب ہنستی۔
حمید نے دسویں جماعت میں پورے اسکول میں ٹاپ کیا تھا اور اب ایف ایس سی میں پری میڈیکل گروپ کا انتخاب کیا تھا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور وہ بھی جانوروں کا۔محلّے میں کوئی اُسے جانے، نہ جانے، مگر بلیاں اُسے ضرور جانتی تھیں۔ وہ اُسے دیکھتے ہی میاؤں میاؤں کرتی گھیر لیتیں۔ اُنھیں پتا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں پکڑی شاپر میں اُن کے لیے گوشت ضرور ہوگا۔اُس کا چھوٹا سا گھر تھا، جس کی چھت پر اُس نے کئی طرح کے پرندے اور مرغیاں پال رکھی تھیں۔کچھ دن پہلے کہیں سے ایک میمنا(بکری کا بچّہ) بھی خرید لایا تھا،
’’ شکور بھائی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایسے مسٹنڈے کی تو ہڈیوں کا قیمہ بنا دینا چاہیے۔اِس کی ہمّت کیسے ہوئی ہمارے محلّے میں چوری کرنے کی۔‘‘ ریٹائرڈ پٹواری کے جواب میں ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
وہاں موجود ہر شخص مشتعل تھا اور وہ حمید کی طرف ایسی غضب ناک نظروں سے گھور رہے تھے،جیسے اُسے زندہ ہی نگل جائیں گے۔
’’ ابے توُں کرسی پر کس خوشی میں بیٹھا ہے…ہیں…مہمانِ خصوصی بن کے آیا ہے کیا…نیچے بیٹھ۔‘‘ایک موٹا شخص آگے بڑھا اور اُسے دھکّا دے کر زمین پر گرا دیا۔ توازن کھونے کی وجہ سے حمید کا چہرہ کرسی کے پائے سے ٹکرا گیا اور اُس کے ہونٹوں سے خون بہنے لگا۔یہ کارنامہ انجام دینے والے شخص کا پیٹ شدّتِ جذبات سے آخری دنوں کی کسی گیابھن بکری کی مانند ہچکولے کھا رہا تھا۔
لوگوں نے حمید کو ایک کباڑیے کی دُکان میں بٹھا رکھا تھا۔ اُس کے ہاتھ کرسی کی پُشت سے بندھے ہوئے تھے۔ جو آتا، اُس کے چہرے یا گُدی پر ایک، دو تھپڑ ضرور رسید کرتا۔ لوگوں کے ہجوم سے ایسا لگتا تھا،جیسے کوئی مداری بندر کے کرتب دِکھا رہا ہے اور مجمعے نے اُسے گھیر رکھا ہے۔گویا ایک شغل میلہ لگا ہوا تھا۔ ایک پستہ قد شخص ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھا اور حمید کی ناک پے گھونسا جڑتے ہوئے چیخا۔
’’ آج اِس آوارہ نے یہاں سے مرغی چُرائی ہے، کل کلاں گھروں کے باہر بندھے بکرے، بکریوں پر ہاتھ صاف کرے گا، پھر گھروں اور دُکانوں میں نقب لگانے کو بھی اِس کا دل للچائے گا۔مَیں تو کہتا ہوں، اِسے ایسا سبق سِکھاؤ کہ آئندہ اِس طرف آنے کا سوچتے ہی اِس پر کپکپی طاری ہوجائے۔‘‘
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عورت آپ کو شادی سے پہلے ہی چھوڑ دے، تو اسے اپنی غربت ، بھوک یا یتیمی کے بارے میں بتائیں، پہلے وہ آپ کی دوست بن جائے گی، اور آہستہ آہستہ وہ آپ کی بہن بن جائے گی، پھر آخر میں، وہ عورت آپ کی زندگی سے مکمل طور پر غائب ہوجائے گی - عورت کبھی اس شخص کے ساتھ محبت میں مبتلا نہیں ہوتی جس پر وہ ترس کھاتی ہے -
انسانی تکلیفوں کی دو ہی وجوہات ہیں؛ درد اور بوریت -
لوگ اپنے اندرونی خلا کو پُر کرنے اور اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے سیر و تفریح کے مقامات پر جاتے ہیں، رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ایسی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کا مرکز صرف چار چیزیں ہی ہوتی ہیں؛
11 - مال و دولت؛ کتنا پیسا کمایا، کہاں انوسیٹ کیا، کتنا جمع کیا
2 - سامان؛ لباس، جوتے، گھر اور گاڑی پر بات
3 - بچے؛ ان کی تعلیم و مصروفیات پر بات
44 - طعام؛ کھانے پینے پر گفتگو اور کھانے ہی پر ملاقات کا اختتام
علم سے اخلاق پیدا نہیں ہوتا اور پڑھے لکھے لوگ ضروری نہیں کہ اچھے لوگ ہوں
تنہائی خطرناک ہے، اور یہ آسانی سے نشے میں بدل سکتی ہے۔ جب آپ کو احساس ہو کہ اس میں کتنا سکون ہے، آپ کبھی بھی لوگوں کے ساتھ دوبارہ معاملہ نہیں کرنا چاہیں گے
کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ہر وقت اپنے جذبات کو کنٹرول کر سکے سوائے منافق کے
آپ ایسے وقت سے اور ایسے لوگوں سے کیا امیدیں رکھتے ہیں ...؟
جن کے رول ماڈل اور آئیڈیل مصنوعی خوشی اور جھوٹے دکھ کی اداکاریاں کرنے والے ایکٹرز ہیں ، آپ ان لوگوں کے درمیان موجود ہیں جن کے رول ماڈلز پوری دنیا کے سامنے ناچنے والے فنکار ہیں - آپ ایسے وقت میں زندہ ہیں جس میں لوگوں کی پسندیدہ شخصیات کھیل کود کے کرتب دکھانے والے کرکٹ اور فٹبال کے کھلاڑی ہیں-
عورت کی خاطر مرنا آسان ہے, مشکل چیز اس کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔
ہمیں ڈیلیٹ کرنے کی ہمت چاہیئے ۔ غیر ضروری تفصیلات کو ڈیلیٹ کریں ، ماضی کو ڈیلیٹ کریں ، پیغامات کو ڈیلیٹ کریں ، آوازیں ڈیلیٹ کریں، پرانی یادیں ڈیلیٹ کریں اور کچھ لوگوں کو بھی اپنی زندگی سے مکمل طور پر ڈیلیٹ کر دیں
"لوگ آپ کے ساتھ وفادار نہیں ہیں، وہ اپنی ضرورت کے مطابق آپ کے ساتھ وفادار ہیں ایک بار جب ان کی ضرورتیں بدل جائیں تو ان کی وفاداری بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔
تمہارا ذہن ایک مقدس گودام ہے جس میں تمہاری اجازت کے بغیر کوئی نقصان دہ چیز داخل نہیں ہو سکتی۔"
عورت اپنے مستقبل کے بارے میں تب تک پریشان رہتی ہے جب تک کہ اس کو شوہر نہ مل جائے، شادی ہونے کے بعد عورت کو اپنے مستقبل کی فکر نہیں رہتی - اور مرد کو اس وقت تک اپنے مستقبل کی پریشانی نہیں ہوتی جب تک کہ اس کو بیوی نہ مل جائے
لوگوں کو راضی کرنا اس طویل اور ختم نہ ہونے والی سڑک کی طرح ہے ، جس پر یہ سائن بورڈ لکھا ہوتا ہے َ معذرت کے ساتھ روڈ بلاک ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain