کِتنا چُپ سَا ہے یہ دسمبر۔۔۔؟؟ نہ ہواؤں کا شور۔۔۔ نہ بادلوں کی گُونج۔۔۔ بِینی بِینی سی یہ دُھوپ۔۔۔ گُزرتے دِن۔۔۔ لمبی راتیں۔۔۔ گہری سُوچیں۔۔۔! اَن کِہی داستانیں۔۔۔ چُپ میں چُھپی باتیں۔۔۔ عجیب سا گُزر رہا یہ دسمبر۔
آئنہ صاف رہے ،ربط میں تشکیک نہ ہو اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے ، رحم نہیں اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے ، بھیک نہ ہو تجھ کو اک شخص ملے، جو کبھی تجھ کو نہ ملے تجھ کو اک زخم لگے اور کبھی ٹھیک نہ ہو چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے دل سے کچھ ایسے نکالو مری تضحیک نہ ہو
نا سمجھنے والے نا سمجھوں کو بآسانی سمجھایا جا سکتا ہے لیکن غلط سمجھنے والے عقلمندوں کو بالکل بھی نہیں سمجھایا جا سکتا۔ غلط نہ ہوتے ہوئے غلط ہو جانا آسان لگا مجھے کیونکہ، صحیح ہو کر بھی خود کو صحیح ثابت کر پانا مشکل لگا مجھے
وہ تمام لوگ جِنہوں نے مُحبت میں پَڑ جانے کے خوف سے اپنے دِلوں کے دروازے مَضبُوطی سے بَند کر رکھے ہیں، دراصل وہ نہیں جانتے کہ اصل چور دروازوں سے نہیں آیا کرتے۔
تم دور بھی نہیں کہ میں تمہارا انتظار کر سکوں۔ نہ ہی تم قریب ہو کہ تم سے ملاقات ہو جائے۔ نہ تم میرے ہو کہ دل کو قرار آئے اور نہ میں تم سے محروم ہوں کہ تمہیں بھول جاؤں ۔ تم کہیں بھی مکمل طور پر موجود نہیں ہو۔"