لوگوں کو چھوڑنا سیکھیں! جو رشتے(تعلقات) ختم ہو جائیں گویا وہ قبریں ہیں اور قبریں دوبارہ کھودی نہیں جاتیں اور جو تمہاری پیٹھ پیچھے تمہیں چھوڑ گیا ہو اسے بھی چھوڑ دو اور اپنے ماضی کے قیدی نہ بنو .
پتا نہیں کیوں ہم توجہ حاصل کرنے کے لیے بعض دفعہ خود کو گرا لیتے ہیں، ہم کبھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں، کبھی اتنا خوش رہنے کا ڈرامہ رچاتے ہیں کہ لوگ ہم پہ رشک کر سکیں، ہم دوسروں کو ہر وقت متاثر کرنے کی دھن میں رہتے ہیں، اپنے لباس سے، اپنے گھر سے، اور ان بے پناہ چیزوں سے جو ہمارے زیر استعمال ہوتی ہیں، یہ رویہ آہستہ آہستہ ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے، ہم دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے سکون محسوس کرتے ہیں جو ہمیں دوسروں سے اچھا بن کر ملتا ہے،
دل چاہتا ہے کہ سب کچھ ڈلیٹ کر دوں ساری پوسٹس، یہ اکاؤنٹ، اپنی ہی لکھی ہوئی تحریریں۔ اب یہ لفظ بھی بے معنی لگتے ہیں، جیسے کسی اور کی کہانی ہو۔ سوچتا ہوں، آخر کیا لکھتے رہے ہم؟ کس کے لیے؟ جھوٹے لفظوں، کھوکھلے رشتوں کی جنگ میں اپنی ہی زندگی الجھا لی ہم نے۔ بےنام چہروں کے لیے خود کو کھپا دیا، اور بدلے میں شاید کچھ بھی نہیں پایا
شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے میں بھٹکتا ہوں میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے اس کا مطلب ہے ابھی زندہ ہے پتھرائی نہیں ہنسنے لگتا ہوں اگر آنکھ چھلک جاتی ہے ♡ اب تسلسل سے میں خاموش نہیں رہ سکتا بات کرلیتا ہوں خاموشی اٹک جاتی ہے♡ شور کرتے ہیں کسی یاد کے پنچھی مجھ میں اور پھر بعد میں تنہائی بھڑک جاتی ہے
ذہن مرا آزاد ہے لیکن دل کا دل مٹھی میں آدھا اس نے قید رکھا ہے آدھا چھوڑ دیا ہے جہاں دعا ملتی تھی اللہ جوڑی سلامت رکھے میں نے تیرے بعد ادھر سے گزرنا چھوڑ دیا ہے
کسی خیال کی ندرت پہ کام جاری ہے نئے سرے سے محبت پہ کام جاری ہے ہم اپنی عمر بسر کر چکے ہیں اور ابھی یہ لگ رہا ہے کہ قسمت پہ کام جاری ہے تمہارا ہجر مکمل کریں گے تیزی سے سو ہر طرح کی اذیت پہ کام جاری ہے تجھے بھی خود سا بناوں گا ایک روز مگر ابھی تو اپنی طبیعت پہ کام جاری ہے میں سو رہا ہوں مجھے نیند سے جگانا نہیں درونِ خواب عمارت پہ کام جاری ہے اِدھر یہ لوگ ریہرسل بھی کر چکے ہیں مگر اُدھر خدا کا قیامت پہ کام جاری ہے
دلِ منکر کی ایسے ہی طرف داری نہیں کرنی مجھے جھوٹی محبت کی اداکاری نہیں کرنی سبھی پرچےمحبت کے اگر میں پاس کر بھی لوں مجھے تم نے مگر پھر بھی سند جاری نہیں کرنی اگر یہ شاہ کا فرماں ہے تو پھر زنداں میں رہنے دو غزل میں نے کسی صورت بھی درباری نہیں کرنی گلے سے لگ کے رو دوں گا اگر وہ مل گیا مجھ کو بڑا ہی ضبط ہے مجھ میں یہ مکّاری نہیں کرنی
ایک یونیورسٹی میں ، ڈاکٹر نے اپنے طلباء سے پوچھا: اگر درخت پر 4 پرندے ہیں اور ان میں سے 3 اڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ، درخت پر کتنے رہ گئے ہیں؟ ایک طالب علم نے کہا کہ "4" ہی پرندے باقی ہیں ، ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ چار کیسے؟ طالب علم نے کہا: آپ نے "فیصلہ" کہا لیکن آپ نے "اڑنا" نہیں کہا اور فیصلہ لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو ..! واقعی یہ صحیح جواب تھا .. اس کہانی میں کچھ لوگوں کی زندگی کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے جو آپ کو زندگی میں بہت سارے نعرے لگواتے ہیں ہم یہ کر سکتے ہم وہ کر سکتے، ، لیکن وہ اپنی اصل زندگی میں نہیں ہوتے ہونا (فیصلہ) کچھ اور ہے اور (کرنا) کچھ اور ہے۔ !
سب سے پہلی غلطی ہماری ہوتی ہے۔ہم لوگوں کو اپنے دل و دماغ پر سوار کر لیتے، ان کی توجہ کو حقیقی مان لیتے ہیں ہمیں لگتا ہے اگر آج وہ ہمارے تو ہمیشہ بس ہمارے ہی رہیں گے۔یہ صرف ہماری غلطی نہیں ہوتی گناہ بن جاتا ہے جس کے بدلے میں پھر بر بار ہمیں توجہ کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، ہماری موجودگی کا احساس دلانا پڑتا ہے کبھی ناراض ہو کر تو کبھی لڑ کر الفاظوں سے بتانا پڑتا ہے پر یہ وقتی لوگ وقت کے ہی محتاج ہوتے ہیں، ان کے پاس وافر وقت جب ہو گا تب ہی یہ اہمیت دیں گے ورنہ یا تو مصروف یا مجبور۔۔۔۔
میں جو گفتگو کرتا ہوں اس سے مختلف انداز میں لکھتا ہوں، میں جو سوچتا ہوں اس سے مختلف انداز میں بولتا ہوں، جس طرح سے مجھے سوچنا چاہیے اس سے قدرے مختلف پیرائے میں سوچتا ہوں، اور اس طرح یہ ساری چیزیں جمع ہوکر گہری تاریکی کا سبب بنتی ہیں.