آج دل کے موسم میں
عجیب سی نرمی ہے
نہ اداسی، نہ بےچینی۔
بس ایک مان سا،
کہ جو تھا، وہ اچھا تھا،
اور جو نہیں رہا،
وہ وقت کی امانت تھا۔
دل کا بھی موسم ہوتا ہے…
کبھی بہار کی طرح ہلکا،
کبھی خزاں کی طرح بوجھل۔
کبھی ایک پل میں مسکراہٹ،
اور اگلے لمحے میں خاموشی۔
جب میں اُس سے کبھی لڑ لیا کرتا
تو آخر میں وہ ہمیشہ نرمی سے کہتی
مجھے سوری بولیں اور میں بنا کسی ضد کے بنا کسی غرور کے بس ایک لمحے میں کہہ دیتا سوری
پھر وہ آنکھوں میں مسکراہٹ سمیٹ کر پوچھتی آپ کو پتہ ہے آپ نے کس لیے سوری کہا میں معصومیت سے کہتا نہیں
تو وہ ذرا سا جھک کر اپنے لہجے میں شرارت گھولتی پھر کیوں سوری بولا آپ نے
اور میں ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا
تم نے کہا تھا اس لیے تب وہ مسکرا دیتی
ایسے جیسے میری ضد میرا غصہ میری انا
سب اُس ایک مسکراہٹ میں پگھل جاتے ہوں
کبھی بھی خود کو کسی کا متبادل نہ بنائیے خود کو
اپشنل نہ رکھیے لوگ بظاہر اپنا وقت گزارنے کے لیے یہ
جب ان کو ان کی من پسند کی پسندیدگی نہیں ملتی
تو دوسرے کو اپشن کے طور پر استعمال کر کے تب
چھوڑ دیتے ہیں جب ان کا اصل ان کو میسر ہو جاتا ہے
کچھ یادیں کبھی بھی
delete نہیں ہوتے
msg بس
نہیں کر سکتے
اجازت نہیں ہوتی
حق چھین لیا جاتا ہے ہم سے
لیکن کوئی ہم سے اپنی یاد نہیں چھین سکتا
کبھی بھی جتنا بھی تلخ بول لے....!!
اپنی یاد نہیں چھین سکتا...
آپ کہ ذوق سے زرا مختلف مزاج کہ ہیں ہم".
اگر تم سن رہی ہو،
تو جان لو…
میں اب تمہیں الزام نہیں دیتا۔
تم چلی گئیں، یہ تمہارا حق تھا۔
میں رُک گیا، یہ میرا نصیب تھا۔
میں تمہیں اب یاد نہیں کرتا،
بس محسوس کرتا ہوں
جیسے ہوا چلتی ہے
اور تمہارے لمس کی طرح چھو جاتی ہے۔
جیسے رات خاموش ہو،
اور تمہاری سانسوں کی گونج سنائی دے
کبھی کبھی لگتا ہے،
تم یہ سب جانتی ہو،
بس چپ ہو
جیسے کسی خواب کی دیوار کے پیچھے
کھڑی میری باتیں سن رہی ہو
وقت بدل گیا ہے،
لوگ بدل گئے ہیں،
مگر تمہارے بعد دل نہیں بدلا۔
اب بھی کسی بھیڑ میں
تمہاری آواز ڈھونڈ لیتا ہے،
کسی اجنبی چہرے میں تمہاری جھلک۔
اگر تم سن رہی ہو…
تو جان لو
میں اب بھی وہی ہوں۔
وہی خاموش، وہی الجھا ہوا،
وہی جو تمہیں لفظوں سے زیادہ محسوس کرتا تھا۔
پھر میں نے کاغذ موڑا،
اور دل کے اندر رکھ دیا
جہاں تم پہلے دن سے رہتی ہو۔
میں رُک گیا
کاغذ بھیگنے لگا،
پتہ نہیں آنسوؤں سے یا احساس سے۔
آخری سطر لکھی
“یہ خط تم تک نہیں پہنچے گا،
کیونکہ تم اب لفظوں سے نہیں،
یادوں سے جیتی ہو۔
اور میں
یادوں میں تمہارے ساتھ اب بھی زندہ ہوں۔
میں نے لکھا
“تمہارے جانے کے بعد سب بدل گیا،
وقت بھی، میں بھی۔
اب مسکراہٹوں میں وہ بات نہیں،
اور آنکھوں میں روشنی نہیں۔
لیکن ایک بات آج بھی ویسی ہے…
جب تمہارا نام سنتا ہوں،
دل اب بھی ایک دھڑکن چھوڑ دیتا ہے۔”
میں نے لکھنا شروع کیا
"کیسی ہو تم؟"
یہ پہلا سوال تھا،
مگر خود ہی جواب دے دیا
“شاید ٹھیک ہوگی،
کیونکہ تمہارے بغیر جو ٹوٹتا ہے،
وہ میں ہوں، تم نہیں…”
پھر سوچا،
شاید یہ وہی خط ہے
جو ہمیشہ دل میں رہتا ہے،
مگر کاغذ پر کبھی نہیں اترتا۔
آج دل نے کہا
“ایک خط لکھو، اُس کے نام”
میں نے قلم اٹھایا،
پر الفاظ ہاتھ نہیں آئے۔
میں نے نگاہیں نیچی کر لیں۔
کہنے کو بہت کچھ تھا،
پر زبان خاموش رہی۔
شاید کچھ باتیں
الفاظ نہیں،
صرف دل سمجھتا ہے
اور دل بھی… صرف ایک بار
دل ہنسا، مگر اداسی کے ساتھ۔
کہنے لگا،
“پھر مان لو
تم آج بھی اُسی کے ہو۔
لفظ بدل گئے ہیں،
مگر احساس اب بھی وہی ہے۔
میں نے تھکی ہوئی سانس لی
“کیونکہ وہ جا چکی ہے،
اور میں رہ گیا ہوں…
اُسی لمحے میں،
جہاں اُس کی آخری نظر رُکی تھی۔”
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain