جس پر بھروسا کرنا ہو، اس کا
انتخاب سوچ سمجھ کر کرو؛ نمک اور
چینی ایک جیسے نظر آتے ہیں۔
سحری میں آن لائن ہونا بھی
لازمی ہے ورنہ لوگ شک کرتے کہ
اس نے روزہ نہیں رکھا۔
انسان بعض اوقات سونے سے پہلے ان معمولی
خواہشات کے بارے میں سوچتا ہے جو دوسروں کو بغیر
کسی محنت کے مل جاتی ہیں
اور خود سے پوچھتا ہے
کیا میں اس کا حقدار نہیں؟
عام طور پر، اندر سے جواب آتا ہے
نہیں، شاید تم حقدار نہیں ہو...
پھر وہ خود کو بہلا کر سونے چلا جاتا ہے
اگلے دن جاگتا ہے
زندگی کو نارمل طریقے سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے
لیکن رات آتے ہی دوبارہ وہی سوال پلٹ آتا ہے
'کیا میں واقعی اس کا حقدار نہیں؟
یہ ایک دائرہ ہے
ایک اداس، تھکا دینے والا چکر
جو شاید اسی وقت ٹوٹے
جب وہ صبح اٹھنا ہی چھوڑ دے۔
جب کوئی جگہ تمہیں پسند نہ آئے تو اسے بدل دو، جب
لوگ تمہیں تکلیف دیں تو انہیں چھوڑ دو، جب تم بور
ہو جاؤ تو کوئی نیا خیال ایجاد کرو، جب مایوس ہو جاؤ
تو شوق سے پڑھو، زندگی میں سب سے اہم بات یہ ہے
کہ بس تماشائی بن کر مت کھڑے رہو۔
میں کہنے لگا،
تم اتنی غزلیں، اتنی نظمیں، اتنا سارہ کچھ کیسے لکھ
لیتی ہو ؟
وہ کہنے لگی
تم اتنے سارے راز،
اتنی دلکشی،
اتنی خوبصورتی کیسے جذب کر کے رکھ لیتے ہو۔۔۔۔ میں
مسکرانے لگا،
تم سچ میں مجھے اپنی تحریروں میں ایک دن مکمل
قید کر لوگی ..؟
وہ میری بات سن کر ہنسنے لگی
اور واقعی اس نے مُجھے اپنا مکمل قیدی بنا کر
مُجھے رہا کر دیا
جو رہائی مجھے قابلِ قبول نہیں
عادتیں شروع میں کچے دھاگے کی طرح ہوتی ہیں مگر
بعد میں یہ لوہے کی تاروں کی مانند ہوتی ہیں جن میں
انسان جکڑ کر رہ جاتا ہے۔۔
یہ جو غصہ ہے کیا یہ غصہ ہی ہے ؟
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تنہائی ہو اُداسی ہو ؟ چڑ چڑا
پن ہو ؟
کاموں کا بوجھ ہو ؟ مدد کی کمی ہو ؟ قدردان نہ پاتے
ہو ؟
دُکھ ہو ؟ دُکھ سنانے کو کسی کے نہ ملنے کی تکلیف ہو ؟
یا پھر کوئی خوف ہو ؟ کوئی خلش ؟ سٹریس ؟
یا کیا خبر معاشرے کی توقعات کا دباؤ ہو ؟
اُن پر پورا نہ اترنے کا گلٹ ہو؟ یا شرمندگی ؟
یا پھر نیند ، آرام کی کمی ؟ سیلف کیر کی کمی ؟
اب مجھے ان لوگوں سے ملنے سے نفرت ہو گئی ہے جن
کو میں کبھی خوشی اور اہتمام سے ملا کرتا تھا۔ میں ان
کو اتنی اچھی طرح سے جان چکا ہوں کہ مجھے علم ہوگیا
ہے کہ وہ کیا کہنے والے ہیں اور میں کیا جواب دینے والا
ہوں۔
دونوں آنلائن تھے،
دیر تک اور دونوں کے آنلائن ہونے کی وجہ بھی ایک ہی
تھی۔
انتظار تھا کہ پہل سامنے والا کرے۔
گھنٹوں بیت گئے،
نا وہاں سے شروعات ہوئی نا یہاں سے۔
چپ چاپ ایک دوسرے کے چیٹ سٹیٹس دیکھتے رہے۔
آنلائن۔۔۔ آنلائن۔۔۔ آنلائن۔۔۔
وقت گزر رہا تھا،
اور اسی طرح کئی شامیں بیت گئیں
اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پیار ہار گیا اور ضدیں
جیت گئی۔
ایک خوبصورت سے رشتے کا ٹوٹنا ٹل جاتا اگر آنلائن،
ٹائپنگ میں بدل جاتا۔
کیوں ہم انہیں جانے دیتے ہیں جو جاتے جاتے ہماری پوری
زندگی لے جاتے ہیں، کیوں ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں
کہہ پاتے کہ پل بھر ٹھہر جاؤ، دل یہ سنبھل جائے........ !
ڈاکٹر صاب !
کوئی ایسی ٹیبلیٹ ہوگی
جس سے یاداشت چلی جائے ؟
کوئی ایسا انجیکشن لگائیں جس سے دل پر سکون
ہوجائے !!!
جس سے نیند تو آئے
مگر وہ خواب میں نہ آنے پائے !!!
جی
بہت پیار کرتا ہوں اس سے
آپ بلڈ پریشر چیک اپ کے ذریعے نہیں معلوم کرسکتے
کہ وہ مجھے کتنا یاد کرتی ہے؟
کیا تھرما میٹر سے دکھوں کی تپش نہیں ماپی جاسکتی
؟
میں مر گیا تو !!
میرے نمبر ہے کال ضرور کرنا میری فیملی
میں سے کسی ایک کے پاس فون ھوگا
اور ڈر کے کال کاٹ نا دینا
اس دفعہ تسلی سے بات کرنا
اپنا نام بتانا
وہ بتائیں گے کہ مر گیا ھے
تاکہ تم یہ نا سمجھتے رہو کے میں چلا گیا
تم سے دور
صرف مرنے کے بعد ہی تم سے جدا ھو سکتا ھوں۔ اور
اپنی لائف میں کبھی میرے شہر آئے تو میری قبر پر
ضرور آنا
کالے گلاب کے پھول لے کر آنا۔۔۔
مجھے اچھا لگے گا !!
دکھ ہے مجھ کو
یقین کرو شدید دکھ کہ مجھے جدید دور میں محبت
ہوئی !
میرے انگوٹھے وہ حروف تلاش ای نہیں پائے
جن سے وہ سب ظاہر ہو سکتا جو میرے اندر ہے
اموجیز ( Emojis ) ہرگز مجھ جیسے چہرے نہیں بنا سکے
مجھ کو میری محبت کو اور میرے اندر موجود تجھ کو
دنیا داری کھا گئی
تمہاری سبھی کالز ( Calls ) پرندوں نے کتر دیں
تمہارے سبھی میسجز ( Messages ) کو نیٹورک کی
خرابی کھا گئی
مجھے اب بھی دکھ ہے اپنے پیدا ہونے کا
اور اپنے اندر محبت پیدا ہونے کا
میں اجازت چاہتا ہوں خود سے تجھ سے اور تیرے اندر
پل رہی محبت سے
تم بھی اسی دور کی پیدائش ہو
تم سے بھی تمہارا اظہار ممکن نہیں
اور یہ عمر ناممکنات میں جینے کے لئے نامناسب ہے ؛
میں چاہتا ہوں تم میرے نمبر پہ ایک "مخصوص
نوٹیفکیشن ٹون" سیٹ کرلو تاکہ میں جب بھی میسج
کروں،
"تمھارا دل سو کی سپیڈ سے دھڑکے اور وقت کے
ہزارویں حصے میں موبائل پکڑ کے میرا جواب دو"
"مجھے ہمیشہ سے "انتظار" لفظ بہت برا لگتا ہے"
چاہے کنورسیشن میں دس منٹ کا ہو یا کال کچھ چند
سیکنڈز کے لیے ہولڈ ہوجائے، مجھے وحشت ہونے لگتی
ہے،
مجھے ایسے لگتا ہے کہ انتظار ہمارے جذبات کو کھا جاتا
ہے، ایک لمبے انتظار کے بعد محبت میں وہ شدت نہیں
رہتی!
"وقت کے ساتھ سب مر جاتا ہے!
معصومہ !
سنگ وحشت، بند انکھوں میں تمنا اگر لوٹ آئے تو
پرانی یادوں کی دستک اگر کبھی دروازے پہ محسوس
ہو،
بوقت وحشت، اگر کبھی یاد آؤں تو ،
ان گزرے لمحوں کو یاد کرنا ،
جب کوئ تمہارے آن لائن آنے کا انتظار کرتا تھا،
تمہارے ایک ایک میسج کو بار بار پڑھتا تھا،
اور اپنے بخت پہ نازاں تھا
کیونکہ تم ساتھ تھی ،
سنو اے جان ثانی !
تمہارا مجھ سے بچھڑنا اک سانحہ ہے
اور میں ہر سال اس سانحے کا دن مناؤں گا،
مرا دل ہڑتالی ہے ،
میں اس گروہ کا حصہ ہوں ،
جو جنت میں ہڑتال کیے بیٹھے ہیں اور حوروں کو یہ کہہ
کر ٹھکرا رہے ہیں ،
کہ ہمیں اب "ڈیجیٹل" محبتوں کی عادت ہے،
ہمیں ڈیجیٹل محبت ہی چاہیے،
میں آج بھی تمہارے آن لائن آنے کا متظر ہوں !
"میں جھگڑنا نہیں جانتا،
لیکن میں لوگوں کو دوبارہ اجنبی بنانا خوب جانتا ہوں۔"
میں تمہیں مسکرا کر دیکھوں گا،
کیونکہ میں اجنبیوں کو بھی مسکرا کر دیکھتا ہوں۔
میں تم سے بات کر لوں گا اگر ضرورت پڑی،
کیونکہ میں اجنبیوں سے بھی بات کر لیتا ہوں۔
لیکن میں تمہیں باقی دنیا سے الگ نہیں سمجھوں گا۔
میں تمہاری خیریت کبھی نہیں پوچھوں گا،
چاہے تمہاری دنیا الٹ پلٹ ہی کیوں نہ ہو جائے۔
ہماری وہ پرانی، محبت بھری باتیں دوبارہ کبھی نہیں
ہوں گی۔
میں تمہاری آواز ہر دن "دماغ" سے سنوں گا،
مگر "دل" سے کبھی نہیں، چاہے ہزار سال گزر جائیں
میں چلا جاؤں گا
ایک دن میں اچانک چلا جاؤں گا
تم کو احساس تک بھی نہ ہوگا کہ میں جا چکا ہوں
میری موجودگی بس یہی ہے
کہ میری اداسی تمہاری ہنسی ، ہنس رہی ہے !
ربڑ نے کہا: "غلطی دور کرنا حق لکھنے کے مترادف ہے۔"
پنسل خاموش ہوگیا اور پھر غمگین لہجے میں کہا: "مگر
میں تجھے دن بدن چھوٹا ہوتا دیکھ رہا ہوں..."
ربڑ نے کہا: "کیونکہ میں اپنے لئے کچھ قربان کر رہا ہوں...
جب بھی میں کوئی خطا مٹاتا ہوں..."
پنسل نے اونچی آواز میں کہا: "اور میں پہلے سے زیادہ
چھوٹا محسوس کرتا ہوں..."
ربڑ نے تسلی دیتے ہوئے کہا: "ہم دوسروں کو فائدہ نہیں
دے سکتے جب تک ہم ان کے لئے قربانی نہ دیں۔۔۔"
پھر ربڑ نے پنسل کی طرف غور سے دیکھا اور کہا: "کیا تم
اب بھی مجھ سے نفرت کرتے ہو؟"
پنسل نے مسکرا کر کہا: "تجھ سے نفرت کیسے کر سکتا
ہوں، اور قربانی نے تو ہمیں ملا دیا ہے..."
ربڑ نے پنسل سے کہا: "میرے دوست، کیسے ہو؟"
پنسل نے غصے سے جواب دیا: "میں تمہارا دوست نہیں
ہوں... مجھے تم سے نفرت ہے..."
ربڑ نے حیرت سے کہا: "حیرت اور غم... ایسا کیوں ہے؟"
پنسل نے کہا: "کیونکہ تم جو میں لکھتا ہوں اسے مٹا
دیتے ہو..."
ربڑ نے کہا: "میں صرف غلطیوں کو مٹاتا ہوں..."
پنسل نے جواب دیا: "اور تمہارے بارے میں کیا خیال
ہے؟"
ربڑ نے کہا: "میں ایک ربڑ ہوں اور یہ میرا کام ہے...."
پنسل نے کہا: "یہ کوئی کاروبار نہیں ہے..."
ربڑ نے کہا: "میرا کام اتنا ہی اچھا ہے جتنا تمہارا۔"
پنسل نے کہا: "تم غلط اور گھمنڈ ہو کیونکہ مٹانے والے
سے لکھنے والا بہتر ہے..."
چانک میں لوگوں سے ناراض ہونا چھوڑ دیتا ہوں، بلکہ
میں نے لوگوں کا وجود ہی محسوس کرنا چھوڑ دیا
ہے۔"جب انسان کا شعور اور زندگی کا ادراک مکمل ہو
جاتا ہے، تو یا تو وہ ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لیتا
ہے، یا ہر چیز کے خلاف بغاوت کرنے والا بن جاتا ہے۔
کچھ میسیج،
کچھ سکرین شاٹس،
کچھ تصویریں اور کچھ وائس نوٹس ہم بہت سنبھال کر
رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب ہم انہیں سنتے یا دیکھتے
ہیں تو بڑی احتیاط کرتے ہیں کہ غلطی سے بھی کچھ
ڈیلیٹ نہ ہو جائے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ
یہ سب کچھ ہم چُن چُن کر ڈیلیٹ کر دیتے ہیں.........!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain