ہمارے لیے جو خاص بنتا چلا جاتا ہے،
اکثر ہم اس کے لیے اتنے عام سے ہو جاتے ہیں کہ اسے ہمارے کھو جانے کا ڈر بھی نہیں رہتا ہماری اہمیت شیلف پہ رکھی ہوئی اس کتاب جیسی ہو جاتی ہے، جسے مہینے بعد کھولو بھی تو تحریریں وہی رہتی ہیں
جنہیں ہم چاہتے ہیں، وہ کسی اور سے بے تکلف ہو کر بات کریں تو ہمارے خون کی گردش کیوں تھمنے لگتی ہے۔ کا نٹوں جیسی چبھن اور کسک ہماریے وجود کو کیوں چھلنی کرنے لگتی ہے؟ کیا اسی کو رقابت کہتے ہیں ۔ یہ رقابت تو محبت سے بھی زیادہ جان لیوا آزار ہے
کبھی
کبھی اپنی شخصیت کو بے رنگ رکھنا بہت اچھا لگتا ہے چہرے پہ کوئی خوشی نہیں..غم کےآثار بھی نہیں.مسکرانے کو بھی جی نہ چاہے.اور رونے کی بھی وجہ نہ ملے ،،
بس ایک سنجیدگی اور ہونٹوں پر ذرا سا تبسم !جیسے دل اب کسی بھی بات کا بوجھ لینے کو تیار نہ ہوسب کچھ بہت آسان اور ہلکا پھلکا سا لگتا ہے.اور کچھ لوگ ایسے ہی اچھے لگتے ہیں بالکل خاموش بے رنگ سے
کوئی بھی ۔ میرے علاوہ نہیں مجھ سا ، سو مجھے نئے لوگوں کے تجسس میں گنوا مت دینا
کوئی پوچھ لے تو کہنا ، میرا حال اب کہ یٌوں بے
نہ کسی کی آرزو ہے ، نہ کسی کا اب جنوں ہے
میں کنار ِ دل پہ بیٹھا ، یہی خود سے پوچھتا ہوں
کہاں رہ گئے تلاطم ؟ بڑی دیر سے سکوں ہے
جذبات کی موت ۔۔
سب سے اذیت ناک ہے۔۔
تدفین بھی آپکے زمہ۔۔قبر بھی آپ کے اندر۔۔
سوگ بھی آپکا۔۔ نوحے بھی آپکے۔۔۔۔
انتہا تُو یہ کہ،۔ دل کی سکون کو۔۔۔۔
کوئی پُرسہ بھی دینے نہیں آتا
کسی کی زندگی میں اپ کے ہوتے ہوے بھی کسی اور کی گنجائش ہو تو ، وہاں اپ کا ہونا بیکار ہے
ہم کبھی بھی کسی کے لیے اہم نہیں ہوتے ، یہ سب بس ہمارے وہم کا کھیل ہے ۔ اگر ہم کہیں اچانک غائب ہو جائیں تو کوئی ہمارا منتظر نہیں رہے گا ، یہاں کوئی کسی کے واسطے نہ منتظر رہا نہ بے چین ، لوگ اور چیزیں اتنی تیزی سے ہماری جگہ بھر دیتی ہیں کہ کبھی اگر ہم واپس آ بھی جائیں خود کا آنا خود پہ بھری گزرنے لگتا ہے ۔
عورتیں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں ، جب تک اپ ان سے بات نہ کریں وہ ناراض رہتی ہیں ، اور جب اپ ان سے بات کریں تو وہ ناراض ہو جاتی ہیں
دوسروں کے الفاظ کو اپنی مرضی کا مفہوم دے کر بد گمان ہونا آسان ہوتا ہے مگر اُن الفاظ کے پیچھے چُھپی اصل وجہ کو جان کر حقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور آج کا انسان تو بس آسان راستوں پر چلنا پسند کرتا ہے
دن گزر گیا ناں اسکے عید مبارک کہ میسج کے انتظار میں
ہر شخص یہاں خوش رہنے کے لئے پریشان ہیں
الوداع میرے حساب سے اُردو زبان کا سب سے تکلیف دہ لفظ ہے لیکن اِس کی ادائیگی سے زیادہ تکلیف انسان کو تب ہوتی ہے جب یہ لفظ کہنے کا موقع بھی نہ مِلے اور تعلق چھوٹ جائے
یہ اہل دنیا کے دلچسپ دھوکے ہیں یہاں کسی کو کسی سے محبت نہیں
پہلے پہل تو اس سےبچھڑنے کا خوف تھا
بچھڑے تو لگ رہا ہے کہ کوئی بَلا ٹَلی
سلیقہ، سادگی سب آزما کر یہ سمجھ آیا بہت نقصان ہوتا ہے، ادب سے پیش آنے میں
ہم تھے ہی نہیں اُس کی کہانی میں
بے وجہ ایک کردار نبھاتے رہے
لوگوں سے نفرت کرنے سے ہماری اپنی انرجی ضائع ھوتی ہے ،اسلئیے بس فرض کر لیا کریں کہ وہ وفات پاچکے ہیں
یں نے پوچھا اب کی بار عید پہ کونسا ڈریس پہنو گی ؟؟؟ (کالا یا سرخ) ؟
وہ مسکرائی اور کہنے لگی اب فرق کیا پڑتا ہے کہ
لال جوڑا پہنو یا کالا ۔
مجھے لگتا ہے میرا دل مکمل طور پہ مر گیا ہے
اگر تیار بھی ہوجائوں تو کس کو دکھائوں ؟؟؟؟
بس عید کا دن ایک عام سا تو دن ہے ہاں چاند رات پہ مہندی ضرور لگائوں گی
اور پھر اگلے دن عید کی نماز پڑھ کر سوجائوں گی ۔
باقی رہی بات سرخ ڈریس کی تو ہاں مجھے پتا ہے مجھ پہ لال رنگ سجتا ہے
کیونکہ عشق کا رنگ بھی تو لال ہے کتنوں کے ارمانوں کا قتل کرکے
یہ گہرا ہوتا ہے ۔
اگر تم کہتے ہو تو کالا بھی پہن سکتی ہوں کالے رنگ کی خاصیت بھی تو ہوتی ہے نا
تمام رنگ کی اذیت ، دکھ اور درد کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے ۔
اس کو پہننے والا انسان بظاہر بہت پیارا نظر آتا ہے
ہمارے تعلقات اور ہم لوگ
انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے محتاج ہیں
جس دن یہ دونوں
" off"
ہُوئے.
ہم سب ایک دُوسرے کو کھو دیں گے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain