اپنی آنکھوں سے خود کو ذلیل ہوتے دیکھنا اس سے بڑی
کوئی ذلت نہیں آپ سب سے چھپ سکتے ہو لیکن خود
سے کیسے چھپ سکتے ہیں نہ کوئی اوٹ نہ پردہسب
کچھ صاف صاف واضح طور پر نظر آرہا ہوتا ہےکہ کوئی
آپ کے اندر کتنی توڑ پھوڑ کر کے جا چکا ہےاور آپ خود
کو بے بسی اور لاچارگی سے ذلیل ہوتا دیکھتے رہتے ہو
لیکن خود کے لئے کچھ کر نہیں پاتے....
اکثر لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کسی کی تحریریں
اس کے ذاتی حالات کا براہِ راست عکس ہوتی ہیں،
حالانکہ یہ فہم ادھورا ہے۔
ہر تحریر لکھنے والے کے وجود کا ایک پہلو ضرور ہوتی ہے،
مگر یہ کہنا کہ وہ محض اس کے حالات کا نتیجہ ہے،
سراسر سادہ لوحی ہے۔
ایک حساس ذہن اپنی تحریروں میں زندگی کے مختلف
رنگ بکھیرتا ہے، ہر لفظ کے پیچھے ایک سوچ، ایک
فلسفہ اور ایک وژن چھپا ہوتا ہے جو محض وقتی حالات
سے نہیں، برسوں کے مشاہدہ، مطالعہ اور تجربے سے نمو
پاتا ہے۔
یوں سمجھ لیجیے، ایک گہری شخصیت کو صرف اس
کے جملوں سے جانچنا ایسا ہی ہے جیسے کسی دریا کی
گہرائی کو اس کی سطح کی لہروں سے ماپنا۔۔۔
دنیا فریب سے چلتی ہے، مگر رشتے سچ سے ٹوٹتے ہیں۔
اور جب بات عورت کے دل کی آتی ہے، تو سچ وہ نہیں
ہوتا جو وہ کہتی ہے, سچ وہ ہوتا ہے جسے وہ چھپاتی ہے۔
وہ رومانوی اشعار پوسٹ کرتی ہے، “سوفٹ لائف” کے
خواب بُن کر سوشل میڈیا پر پھولوں کی لڑیاں بچھاتی
ہے، “برابری اور احترام” کی گردان کرتی ہے۔ مگر جب
کسی مرد کے سامنے جھکنے کا وقت آتا ہے؟ تو زبان
خاموش ہو جاتی ہے، اور لاشعور بول اٹھتا ہے۔
عورت پیار کے پیچھے نہیں چلتی, عورت طاقت کے
پیچھے جھکتی ہے۔
وہ نرمی کی خواہش کرتی ہے، مگر طاقت کے سامنے
پگھلتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کوئی اُسے سمجھے، مگر
حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے آگے جھکتی ہے جو اس کے
احساسات کی توثیق نہیں کرتا, بلکہ اس پر حکم چلاتا
ہے۔ عورت کو قابو میں لینے والا نہیں چاہیے, بلکہ ایسا
مرد چاہیے جسے قابو میں لایا ہی نہ جا سکے۔
ولی اورنگزیب:
"وہ کیا چیز ہے جو تمہیں مجھ سے محبت کرواسکتی ہے؟
میرا مطلب ہے کہ تم مجھ سے کیسے محبت کرسکتی
ہو؟"
فجر معراج:
"تمہارے باپ کا پیلس اور پروڈکشن ہاؤس ، تمہارے
ماموں کی سلطنت اور ایمپائر مال، یہ سب چاہیے اس
کے بعد میں سوچو گی،"
ولی اورنگزیب:
"اور میں؟"
فجر معراج:
"تم تو پہلے ہی میرے اسیر ہو۔۔۔"
"وہ مجھے بھولتا کیوں نہیں شیخ ؟"
شیخ:
"وہ تمہیں کبھی نہیں بھول سکتا، تم اُسے بھولنے کی
کوشش ترک کردو، "
"علاج تم نے اپنے دل کا کرنا ہے دِماغ کا نہیں، "
"اُسے دل سے نکالنا ہے دِماغ سے نہیں۔۔۔"
"اس مقام تک آنا ہے ! "
"جہاں تم اس کی یاد پہ بے حس ہوجاؤ، "
"تمہیں فرق پڑنا ختم ہوجائے، نہ نفرت ہو نہ محبت
ہو
ختم تعلقات کو قبروں کی طرح سمجھا کریں اور قبریں
کھودی نہیں جاتیں
شاید میں لوگوں کو سُننے کا اچھا ہنر رکھتا ہوں۔۔!!
اکثر بہت سے لوگ مجھ سے اپنے درد بیان کرتے
ہیں۔۔!! اپنے مسائل بتاتے ہیں۔۔!! میرے پاس اُن کا
حل نہیں ہوتا ہے۔۔!! مگر میں بنا کچھ بولے اُنہیں
سُن ضرور لیتا ہوں۔۔۔!!! میں جو بھی لکھتا ہوں۔۔!!
وہ میرے درد نہیں ہیں۔۔!! لوگوں سے سُنی ہوئی
کہانیاں ہیں۔۔!! اُن کی زندگیاں ہیں۔۔!! جو اُنہوں نے
خوابوں اور خواہشوں کے گلے گھونٹ کر گزاریں ہیں
۔۔!! مجھے لگتا ہے کسی انسان کی داستان سُن لینا
ایک کتاب پڑھنے سے زیادہ اچھا ہے۔۔
اگر تم خیالوں کی قید میں ہو تو تمہاری ہر آزادی بیکار
ہے۔۔۔
دل میں جہاں تم ہو وہاں کوئی بھی نہیں۔۔۔
کون ہے یہ چڑچڑا، بدمزاج، انتہائی تلخ اور بیزار قسم کا
انسان؟
یہ آپ تو نہیں ہیں۔
آپ تو خاصے زندہ دل، خوش مزاج، خوش گفتار،
سوشل اور ملنسار قسم کے انسان تھے۔
اوہ! اب سمجھا۔
وہ فریبی، جھوٹا، دغا باز، دھوکہ باز اور منافق انسان
جاتے جاتے آپ کے وجود میں ایک خطرناک قسم کا
VIRUS چھوڑگیا۔ اور اب آپ اُس VIRUS کا شکار ہیں۔
اُس VIRUS نے آپ کی تمام اچھی عادات کو تبدیل
کردیا اور آپ کو ایسا بنادیا۔ سیدھی سیدھی بات کی
جائے تو وہ شخص جاتے جاتے آپ کو ایسا بناگیا۔
جو تمہارا حال نہ پوچھے، اس کے لیے ایک یا دو بار عذر
تلاش کرو،
اگر وہ اس کے بعد بھی تمہارا حال نہ پوچھے، تو تم خود
اس کا حال پوچھو،
اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ جان بوجھ کر تم سے لا
تعلقی برت رہا ہے، تو اس سے دور ہو جاؤ اور پھر کبھی
اس کا حال نہ پوچھو،
ایک وقت أۓ گا اپ لوگوں کو میرا کوٸی پوسٹ نظر
نہیں أۓ گا اپ کو لگے گا میں أف لاٸن ہوں اس وقت
اپ اور میرے بیج دعا کا وعدہ رہا میرے حق میں دعا
کجیۓ گا ۔
میرے دن ختم ہونے والے ہیں ۔ تیرا مجھ سے کوٸی گلا
رہتا ہے باقی تو کرلو ۔
عورت کو اس بات پر تو غصہ آتا ہی ہے کہ اس کا میاں
دوسری عورت کو پسند کرتا ہے، لیکن یہ بات اسے کبھی
ہضم نہیں ہوتی کہ دوسری عورت بھی اس کے میاں کو
پسند کر سکتی ہے..
ایک سوشل فرینڈ کو رات کے دو بجے آن لائن دیکھا تو
پوچھا۔۔ "یار، تم تو دس بجے کے بعد نظر نہیں آتے، آج
کیسے اتنی دیر تک جاگ رہے ہو"..
کہنے لگا۔۔ "اصل میں بیگم شام کو ناراض ہو کر میکے
چلی گئی تھی، اور بجلی بھی تب سے گئی ہوئی ہے تو
نیند نہیں آ رہی"..
میں نے کہا۔۔ "ذرا جا کر مین سوئچ چیک کرو"..
تھوڑی دیر بعد اس کا میسج آیا۔۔"یار، واقعی مین سوئچ
ہی بند تھا، لیکن تمہیں کیسے پتا چلا"؟۔۔۔
میں نے کہا۔۔ "ویرے، تم دنیا میں اکیلے شادی شدہ
تھوڑی ہو نہ ہی پہلے بندے ہو جس کی بیگم ناراض ہو کر
میکے گئی ہے".
مجھے آگ پسند ہے
جو ہر شے کو راکھ میں بدل دیتی ہے
کسی کو لکھے ہوئے خط
کسی کے دئیے ہوئے گلاب
اور کسی گھر کو
مگر ایک آگ ایسی بھی ہونی چاہیے
جو دل کے صفحے پر لکھے لفظوں کو راکھ کا ڈھیر بنا
سکے
جو اس خوشبو کو جلا سکے جو صرف اور صرف ہمارے
دماغ میں ہوتی ہے
جو اس گھر کے تصور کو دھوئیں میں بدل دے جو کبھی
کسی دریا کنارے نہیں بن سکا
ایک آگ ایسی بھی ہونی چاہیے
جو آنسوؤں کو ہمارے اندر بننے سے پہلے ہی کہیں غائب
کر سکے۔
اسے ایک طویل سا میسج ٹائپ کر کے
پھر بہت دیر تک
اس کے نام کے نیچے " Online " کو گُھورتے رہنا اور پھر آخر
کار
ایک طنزیہ مُسکراہٹ خود کو رسید کرتے ہوۓ
میسج سینڈ کیے بغیر
ڈیلیٹ کر دینا
اور پھر چپ چاپ موبائل کو سائیڈ پر رکھ دینا
مرد کچھ غلطی کرتا ہے ، عورت اس سے ناراض ہو
جاتی ہے، اور پھر مرد عورت سے معافی مانگتا ہے !
اور جب عورت غلطی کرتی ہے تو مرد روٹھ جاتا ہے تو
عورت رونا شروع کر دیتی ہے اور مرد کو پھر دوبارہ اس
سے معافی مانگنا پڑتی ہے
1926 میں، ایک بیمار شخص ایک مشہور ماہر
نفسیات کے پاس گیا، اس نے ڈپریشن کی ایک نامعلوم
وجہ کی شکایت کی، جو اس کی نیند کی کمی کا سبب
تھی۔
اس کا معائنہ کرنے کے بعد، ڈاکٹر نے اسے مزاحیہ
تحریریں پڑھنے کا مشورہ دیا، اور اس پر زور دیتے ہوئے
کہا:
آپ کو میخائل زوشینکو کو پڑھنا چاہئے، اور ڈپریشن
آپ کو چھوڑ دے گا۔
مریض نے اس کی طرف دیکھا اور ایک آہ بھر کر کہا:
میں میخائل زوشینکو ہوں، ڈاکٹر!
"ایک میں ہی ہوں جس نے ابھی تک ہلدی کو پانی میں
ڈال کر ضائع نہیں کی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain