جن تعلقات کا مستقبل نہ ہو ،انہیں بڑھانے سے اچھا ہے
توڑ دیا جائے۔
ہم زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں،اِس کا
مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے لیے بنے ہوں ۔
حقیقت پسند بنیں،خوش فہم نہیں
جس شخص کی خاطر تیرا یہ حال ہے
صاحب۔۔۔
اُس نے تیرے مر جانے پر رونا بھی نہیں ہے
تجربہ تھا سو دعا کی تاکہ نقصان نہ ہو
عشق مزدور کو مزدوری کے دوران نہ ہو
اُس نے پُوچھا کہ کیا بنا دِل کا
ہم نے بھی کہہ دِیا دھڑکتا ہے ابھی
خیریت نہیں پوچھتا،
مگر خبر رکھتا ہے.
سنا ہے ایک محترم
مجھ پر نظر رکھتا ہے
میں نے رابطوں میں پہل کرنا چھوڑ دی ہے
میں کسی کا حال نہیں پوچھتا
کیونکہ جو خود کو سنبھال نہیں پا رہا دوسرے نے اگر
کہہ دیا حال ٹھیک نہیں تو کیا کروں گا؟
کوئی بات کرے تو بات کر لیتا ہوں
یہ نخرہ نہیں ہے خاموشی ہے
کوئی گلہ کرے کہ ہر بار ہم کی تم سے بات کریں تمہیں
کوئی پرواہ نہیں؟
تو جواب میں اتنا کہتا ہوں آپ اپنا قیمتی وقت ضائع
نہ کریں اور جو ضائع کر دیا اس کے لیے معذرت
مجھے ہنگامہ نہیں چاہیے
مجھے بحث نہیں کرنی
مجھے صفائی نہیں دینا
آپ جیسا سمجھ لیں ویسا ہی ہوں میں
اب مجھے کوئی پرواہ نہیں!
جیسے جیسے میں بڑا ہو رہا ہوں، یہ اور بھی واضح ہوتا
جا رہا ہے کہ کن لوگوں پر وقت اور توانائی خرچ کرنا
واقعی قابلِ قدر ہے اگر کوئی چیز میرے دماغی سکون،
مالی معاملات، یا اندرونی اطمینان میں مددگار نہیں،
تو میں اسے اپنی زندگی میں کیوں رہنے دوں؟
اب مجھے کسی کو چھوڑنے پر کوئی احساسِ جرم نہیں
ہوتا، چاہے ہمارا تعلق کتنا ہی پرانا یا گہرا کیوں نہ ہو۔ ہر
کوئی ہمیشہ کے لیے ساتھ رہنے کے لیے نہیں ہوتا، اور
ہمیں بھی زبردستی ایسے تعلقات برداشت کرنے کی
ضرورت نہیں جو ہماری زندگی کے لیے نقصان دہ ہوں۔
اچھے بنو، مددگار بنو، لیکن خود کو دوسروں کے
استحصال کے لیے مت چھوڑو۔
کچھ لوگ صرف زندگی کے راستے میں آ کر گزر جاتے
ہیں، اور یہ بالکل ٹھیک ہے!
آزادی یہ ہے کہ رات کو آپ کسی کو سوچے بغیر سو
جائیں.
سوشل میڈیا پر صرف موجود رہنا کافی نہیں آپ کی
اصل کامیابی تب ہے جب آپ کا کانٹینٹ کسی کے دل
کو چھو جائے کسی کے دن کو بہتر بنا دے یا کسی کو
کچھ نیا سکھا دے یہی اصل کامیابی ہے.
میرا دوست کہتا ہے: "تم خود کو لکھنے میں اتنا کیوں
تھکاتے ہو؟ آج کے زمانے میں لوگ دو سطروں سے زیادہ
نہیں پڑھتے۔ تمہاری محنت اور وقت ضائع ہو رہا ہے۔"
اس کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا، میں اپنی
تحریروں کو نکھارنے میں جو گھنٹوں صرف کرتا ہوں،
انہیں بہتر بنانے کی جو جدوجہد کرتا ہوں، وہ سب کیا بے
معنی ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ میرے الفاظ دوسروں کے
لیے مفید ہوں، لیکن جتنی محنت کرتا ہوں، لگتا ہے کہ وہ
میری امید کے مطابق لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔
ہم آٹھ ارب ذہنوں کی بھیڑ میں جی رہے ہیں، ہر کوئی
کسی نہ کسی چیز میں گم ہے ، بس میری تحریروں میں
نہیں۔
تو کیا لکھنا واقعی وقت کا ضیاع ہے؟
نہیں، ہرگز نہیں!
مسکرا دیجئے اور کہہ دیجئے کہ میں ٹھیک ہوں کیونکہ
کوئی بھی حقیقت میں پرواہ نہیں کرتا۔
میں دن میں کئی بار تمہیں بھیجنے کہ لیے میسج ٹائپ
کرتا ہوں، لکھتا ہوں مٹا دیتا ہوں اور صبح آنکھ کھلنے
سے لے کر رات کہ پچھلے پہر تک ناجانے کئی دفعہ لکھتا
ہوں مٹا دیتا ہوں اور بس یہی سوچ کر سینڈ نہیں کرتا
کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ اب میرا میسج دوبارہ
نہیں آئے گا...!!
اور ہاں میں خود کو چاہے جتنی مرضی اذیت دوں،
راتیں جاگ کر گزاروں، سو کر گزارو یا رو کر...
لیکن تمہیں میسج کبھی نہیں کروں گا کیونکہ میں
جب کوئی بات کہہ لوں تو اسے پورا کرنے کہ لیے چاہے
مجھے جتنا مرضی نقصان برداشت کرنا پڑے میں وہ
بات وہ کام لازم کرتا ہوں۔
اور تم سے بھی تو وعدہ کیا تھا نا دوبارہ نا آنے کا تو یہ
کیسے ممکن کہ میں تم سے کیا ہوا آخری وعدہ نبھا نا
سکوں
جس پر بھروسا کرنا ہو، اس کا
انتخاب سوچ سمجھ کر کرو؛ نمک اور
چینی ایک جیسے نظر آتے ہیں۔
سحری میں آن لائن ہونا بھی
لازمی ہے ورنہ لوگ شک کرتے کہ
اس نے روزہ نہیں رکھا۔
انسان بعض اوقات سونے سے پہلے ان معمولی
خواہشات کے بارے میں سوچتا ہے جو دوسروں کو بغیر
کسی محنت کے مل جاتی ہیں
اور خود سے پوچھتا ہے
کیا میں اس کا حقدار نہیں؟
عام طور پر، اندر سے جواب آتا ہے
نہیں، شاید تم حقدار نہیں ہو...
پھر وہ خود کو بہلا کر سونے چلا جاتا ہے
اگلے دن جاگتا ہے
زندگی کو نارمل طریقے سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے
لیکن رات آتے ہی دوبارہ وہی سوال پلٹ آتا ہے
'کیا میں واقعی اس کا حقدار نہیں؟
یہ ایک دائرہ ہے
ایک اداس، تھکا دینے والا چکر
جو شاید اسی وقت ٹوٹے
جب وہ صبح اٹھنا ہی چھوڑ دے۔
جب کوئی جگہ تمہیں پسند نہ آئے تو اسے بدل دو، جب
لوگ تمہیں تکلیف دیں تو انہیں چھوڑ دو، جب تم بور
ہو جاؤ تو کوئی نیا خیال ایجاد کرو، جب مایوس ہو جاؤ
تو شوق سے پڑھو، زندگی میں سب سے اہم بات یہ ہے
کہ بس تماشائی بن کر مت کھڑے رہو۔
میں کہنے لگا،
تم اتنی غزلیں، اتنی نظمیں، اتنا سارہ کچھ کیسے لکھ
لیتی ہو ؟
وہ کہنے لگی
تم اتنے سارے راز،
اتنی دلکشی،
اتنی خوبصورتی کیسے جذب کر کے رکھ لیتے ہو۔۔۔۔ میں
مسکرانے لگا،
تم سچ میں مجھے اپنی تحریروں میں ایک دن مکمل
قید کر لوگی ..؟
وہ میری بات سن کر ہنسنے لگی
اور واقعی اس نے مُجھے اپنا مکمل قیدی بنا کر
مُجھے رہا کر دیا
جو رہائی مجھے قابلِ قبول نہیں
عادتیں شروع میں کچے دھاگے کی طرح ہوتی ہیں مگر
بعد میں یہ لوہے کی تاروں کی مانند ہوتی ہیں جن میں
انسان جکڑ کر رہ جاتا ہے۔۔
یہ جو غصہ ہے کیا یہ غصہ ہی ہے ؟
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تنہائی ہو اُداسی ہو ؟ چڑ چڑا
پن ہو ؟
کاموں کا بوجھ ہو ؟ مدد کی کمی ہو ؟ قدردان نہ پاتے
ہو ؟
دُکھ ہو ؟ دُکھ سنانے کو کسی کے نہ ملنے کی تکلیف ہو ؟
یا پھر کوئی خوف ہو ؟ کوئی خلش ؟ سٹریس ؟
یا کیا خبر معاشرے کی توقعات کا دباؤ ہو ؟
اُن پر پورا نہ اترنے کا گلٹ ہو؟ یا شرمندگی ؟
یا پھر نیند ، آرام کی کمی ؟ سیلف کیر کی کمی ؟
اب مجھے ان لوگوں سے ملنے سے نفرت ہو گئی ہے جن
کو میں کبھی خوشی اور اہتمام سے ملا کرتا تھا۔ میں ان
کو اتنی اچھی طرح سے جان چکا ہوں کہ مجھے علم ہوگیا
ہے کہ وہ کیا کہنے والے ہیں اور میں کیا جواب دینے والا
ہوں۔
دونوں آنلائن تھے،
دیر تک اور دونوں کے آنلائن ہونے کی وجہ بھی ایک ہی
تھی۔
انتظار تھا کہ پہل سامنے والا کرے۔
گھنٹوں بیت گئے،
نا وہاں سے شروعات ہوئی نا یہاں سے۔
چپ چاپ ایک دوسرے کے چیٹ سٹیٹس دیکھتے رہے۔
آنلائن۔۔۔ آنلائن۔۔۔ آنلائن۔۔۔
وقت گزر رہا تھا،
اور اسی طرح کئی شامیں بیت گئیں
اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پیار ہار گیا اور ضدیں
جیت گئی۔
ایک خوبصورت سے رشتے کا ٹوٹنا ٹل جاتا اگر آنلائن،
ٹائپنگ میں بدل جاتا۔
کیوں ہم انہیں جانے دیتے ہیں جو جاتے جاتے ہماری پوری
زندگی لے جاتے ہیں، کیوں ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں
کہہ پاتے کہ پل بھر ٹھہر جاؤ، دل یہ سنبھل جائے........ !
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain