آپ کو اپنے دل پر قابو رکھنا چاہیے، اگر آپ کا دل کسی
اور کے پاس ہے تو آپ اپنے (پاس موجود) دماغ پر بھی
اپنا قابو کھو دیں گے
پتا ہے کیا کرنا چاہیے؟؟؟
جب کوئی ہاتھ پکڑائے تو صرف ہاتھ پکڑا کریں،
پورا بازو نہ کھینچا کریں۔
کوئی لاکھ کہے کہ
"آپ ہمیں اچھے لگتے ہیں"
شکریہ کہہ کر بات ختم کر دیں۔
اسکی بات کا دل پر اثر مت لیا کریں۔
لوگ آپ سے نہیں،
اس تجسس سے متاثر ہو جاتے ہیں،،
جو انھیں آپ کو کھوجنے کا ہوتا ہے
وہ آپ کی ذات میں تب تک دلچسپی لیتے ہیں،
جبتک وہ آپ کو مکمل جان نہیں لیتے۔
سو اس لئے آپ خود کو کسی پر بھی آشکار مت کریں۔
راز بن کر رہیں، جب تک راز بن کر رہیں گے،
تب تک اہم رہیں گے
وقت آگے بڑھتا ہے، تو لوگ بھی بڑھ جاتے ہیں۔
وہ پہلے سے زیادہ میچور ہو جاتے ہیں۔۔۔
رابطے گھٹا دیتے ہیں۔۔۔
اور ایک دن اس انسان کی کنورزیشن بھی،
آپ کی چیٹ لسٹ سے خارج ہو جاتی ہے۔
مسئلہ پتہ ہے کیا ہے؟؟؟
بیزاریت کیوں ہوتی ہے؟؟؟
کیوں کہ آپ ایک دوسرے کو کم وقت میں،
بہت زیادہ جان لیتے ہیں،
کھانے پینے کا شوق، سونے جاگنے کی روٹین،
زندگی کے دکھ، ڈر سب کچھ
each and everything !
اٹیچمنٹ سب کو ہو جاتی ہے۔
کسی کے "گڈ مارننگ" کے میسج سے۔
کسی کے صرف یہ پوچھنے سے کیا تم ٹھیک ہو؟
روز باتیں ہونے لگتی ہیں ، مسائل بانٹے جاتے ہیں،
بھوک، پیاس، صحت، طبیعت، تندرستی کی فکر ہونے
لگتی ہے۔
کچھ دنوں بعد۔۔ آہستہ آہستہ شوق کم پڑ جاتا ہے۔
یہ پوچھنے کا کہ
"تم آف لائن کیوں تھی/تھے ؟؟
"تم ٹھیک ہو یا نہیں ہو"؟؟؟؟
مَر جاتے ہیں، ہر روز کئی لوگ اچانک
اور ہم کو یہ لگتا ہے، ابھی عُمر پَڑی ہے
تکلیف کی آخری حد
چیخنا چلانا یا ہارٹ اٹیک نہیں ہے آخری حد وہ ہے جہاں
خاموش ہو جائیں جہاں جیتے جی مر جائیں خواہشوں کو
خوابوں کو دل کے قبرستان میں دفنا دیں جہاں بس
تھک جائیں بیزار ہو جائیں ہر انسان سے لا تعلقی اختیار
کر لیں یہ تکلیف کی وہ حد ہے جسے بس ہم جانتے ہیں
کہ سامنے سے خاموش اپنے اندر ہم کتنی جنگیں اکیلے لڑ
رہے ہوتے ہیں۔
معذرت بولنا تب اچھا لگتا ہے
جب آپ کسی کے پاؤں پہ پاؤں رکھ دیں نہ کہ تب جب
آپ کسی کا دل کچل دیں۔
ایک خاص قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو گھر سے باہر نکلنا
پسند نہیں کرتے، اپنی کمرے کی تنہائی میں خوش رہتے
ہیں۔
جب وہ باہر جاتے ہیں، تو اپنی پرسکون تنہائی کو یاد
کرتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کے قریب صرف ایک یا دو دوست
ہوتے ہیں، اور وہ کسی کو کال نہیں کرتے۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کے فون ہمیشہ خاموشی پر رہتے
ہیں اور وہ کسی سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کوئی ان کے
بارے میں پوچھے، بلکہ زیادہ سوالات اور بات چیت
انہیں ناگوار لگتی ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو روزانہ دمادم کھولتے ہیں، مگر
کسی سے بات نہیں کرتے۔
یہ جذبات میں انتخاب کرنے والے لوگ ہیں، اور وہی لوگ
جو کتابوں، سمندر، صحرا، سردیوں، سکون، اندھیرے،
موسیقی، فلموں، اور تنہائی کے دیوانے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ مسکراتے ہیں، اپنے خیالات
میں گم رہتے ہیں، اور کسی کو تکلیف نہیں دیتے۔
محبت میں اگر کچھ دے سکوتو وقت دینا
بنامطلب کے
ملنا بات کرنا گھوم لینا
کبھی ہنسا ہنسانا یا ہتیلی چوم
لینا
کبھی روتے ہوئے کو پیار سے چھو کرمنانا
کسی
تکلیف میں بیٹھے ہوئے کے نزدیک جاکر بیٹھ جانا ۔
یہ
سب بنیاد ہوتے ہیں جو میں نے دیر سے جانا
یہ کرنا
تھا مجھے تنہا پلوں کے ڈھیر سے جانا تو قیمت میں اگر
کچھ دے سکو تو وقت دینا
محبت میں اگر کچھ دے
سکو تو وقت دینا
یار تُم نے کتابیں پڑھی ہیں
اور اُن میں فقط “لفظ”پڑھے ہیں
تہہ در تہہ چہرے بھی پڑھتے تو اچھا تھا
جن بچوں کے نام ہم نے سوچے تھے
اب کون سی جماعت میں پڑھتے ہوتے؟
کفن میں جیب کا نہ ہونا تو سمجھ آتا ہے
نکاح نامے میں محبت کا خانہ کیوں نہیں ہے؟
ماہر نفسیات !
تم جھولتی ہوئی “مُسکراتی “لاش کو دیکھ کر
بلاک ہوئے نمبر پہ وصیت بھیج سکتے ہو؟
کس فریکونسی سے رویا جائے
کہ چاند پہ چرخہ کاتنے والی بڑھیا
کام چھوڑ کے روٹی پکانے لگ جائے؟
بلاک ہونے کا صدمہ
میں تو سہہ گیا ہوں
روبوٹ سہہ پائے گا؟
ماسٹر کی ڈگری لینے والے کو
ٹریفک کے قوانین
یا ایمرجنسی ایگزٹ
بلکہ خوش رہنے کے اصول کہاں پڑھائے جاتے ہیں؟
دُکھ “سُننے” کی مشق کب کروائی جائے گی؟
گاؤں سے اماں جب کال پہ
“ہیلو” کہتی ہے
اس لفظ کی تاثیر کتنی ٹھنڈی ہے
حکمت میں کہاں لکھا ہے؟
زمین سے مریخ تک ،مانپنے والے
خیرات لے کر اُٹھائے گے دو قدموں کے درمیان
کتنے نوری سال کا فاصلہ ہوتا ہے؟
کمپیوٹر کی پروگرامنگ ٹھیک ہے،مگر
کیاتُم میسج پڑھ کے نکلنے والے آنسوؤں کو ڈی کوڈ کر
سکتے ہو؟
یا پھرکنٹرول شفٹ دبا کے
ساری یادیں ڈلیٹ ہو جاتی ہیں؟
الجبرا کے ماہر لڑکے
تمہارے نزدیک ایکس فقط ایک مُتغیر ہے
ہائے!تُم “ایکس” کی قیمت نہیں جانتے!
خواہشوں کو مجبوریوں پر
تقسیم کرنے والے لڑکے کا دُکھ جانتے ہو؟
المیہ تو یہ ہے کہ
تھیسس لکھنے والے کو فرسٹ ایڈ نہیں آتی!
جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہو گا
یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہو گا
تُو میرے سامنے بیٹھا ہے اور میں سوچتا ہوں
کہ آئے لمحوں میں جینا بھی اِک سزا ہو گا
ہم اپنے اپنے بکھیڑوں میں پھنس چکے ہوں گے
نہ تجھ کو میرا نہ مجھ کو تیرا پتا ہو گا
یہی جگہ جہاں ہم آج مِل کے بیٹھے ہیں
اِسی جگہ پہ خدا جانے کل کو کیا ہو گا
یہی چمکتے ہوئے پل دُھواں دُھواں ہوں گے
یہی چمکتا ہوا دِل بجھا بجھا ہو گا
لہُو رُلائے گا وہ دھوپ چھاؤں کا منظر
نظر اٹھاؤں گا جس سِمت جھٹپٹا ہو گا
بچھڑنے والے تجھے دیکھ دیکھ سوچتا ہوں
تو پھر ملے گا تو کتنا بدل چکا ہو گا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain