اس کا جوان لیکن مردہ جسم اسٹریچر پر پڑا تھا۔ ڈاکٹر نے کندھے اچکا دیے۔ "ڈاکٹر موت سے نہیں لڑ سکتا۔" سب ششدر تھے۔ اس کے مردہ وجود کو دیکھ رہے تھے۔ وہی خوبصورت جسم، وہی خوبصورت چہرہ، اگر تروتازہ نہیں تو بڑھاپے کا شکار بھی نہیں۔ خوبصورتی اور خوبصورتی اور پھر موت۔ بدصورتی کا عمل دخل بھی نہیں۔ لوگوں نے اسے دفنا دیا۔ فیونرل میں سب بہت روۓ۔ اور آخر میں تابوت کے اوپر وہی دوست کی بنائی گئی پورٹریٹ رکھ دی گئی۔ وہ خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
جادوگر چپکے سے سنتا گیا۔ احمد بجتا جھکتا باہر آگیا۔ وہ غصے میں تھا۔ مٹھیاں بھنچی تھیں۔ غصے میں ڈولتا وہ پاکڈ شدہ کار کی طرف بڑھا اور درمیان میں ہی تیز رفتار ٹرالر اسے رولتا چلا گیا۔
جادوگر بہت غور سے اسے دیکھے گیا۔ یہ لڑکا اتنا خوبصورت تھا کہ ہمیشہ خوبصورت رہنے کی خواہش یہی کر سکتا تھا۔ "لوگ موت نہیں روک سکے اور تم بڑھتی عمر کو روکنا چاہتے ہو؟" اس نے ٹھنڈے لہجے میں کہا "جادو کسی مرتے انسان کو موت سے نہیں بچا پایا، بوڑھے انسان کو جوان کیسے کر پاۓ۔" "یعنی کوئی حل نہیں؟" احمد کی آنکھوں میں نمی اتری۔ "جادو ہر مسلۓ کا حل نہیں۔۔۔" "بکواس کرتے ہو تم۔" احمد یکلخت ہتھے سے اکھڑا: "تم کوئی جادوگر نہیں ہو۔ کچھ نہیں جانتے، بکواس کرتے ہو۔ یہ سب فضول ہے۔ تمہارا کام فضول یے۔"
جادوگر نے یوں سر اٹھایا جیسے غلط سن لیا۔ "مجھے بڑھاپے سے خوف آتا ہے۔" وہ بہت خوفزدہ لہجے میں گویا ہوا۔ جادوگر حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ "بدصورت چہرہ، کھنچی ہوئی کھال، نڈھال جسم۔۔۔ مجھے اس حالت سے ڈر لگتا ہے۔" وہ دوبارہ بولا۔ جادوگر اب بھی خاموش تھا۔ "مجھے بوڑھا نہیں ہونا۔ بدصورت نہیں بننا۔ کیا یہ۔۔۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی طرح۔۔۔ میری عمر رک جاۓ۔ کسی طرح؟؟؟"
وہ اس کا بچپن کا دوست تھا۔ اس کے کو تحفے کو احمد نے کھولا تو نہ چاہتے ہوۓ بھی مسکرا دیا۔ "یہ خوبصورت پورٹریٹ ہے۔" "یہ تمہاری پورٹریٹ ہے ۔احمد" دوست کی مسکراہٹ امید افزا تھی: "اور سب سے دلچسپ بات بتاؤں، اس پورٹریٹ میں موجود احمد تمہاری طرح بوڑھا نہیں ہو گا۔" دوست کو لگا ہو گا کہ احمد بات سمجھ جاۓ گا۔ لیکن وہ افسردہ ہو گیا۔ چوڑی پیشانی پر بل پڑ گۓ۔ غور و خوض کے بعد اس نے اتنا کہا۔ "کیا یہ ممکن نہیں۔۔۔ کہ پورٹریٹ میں موجود احمد بوڑھا ہو جاۓ اور میں ہمیشہ جوان رہوں؟"
"شاید آنے والے چند سالوں میں وقت میں سفر کرنا ممکن ہو سکے لیکن وقت روک دینا، یہ ہونا ناممکن ہے۔" اس کا دوست اسے بتا رہا تھا: "جینز میں وقت کو روکنے والا عنصر نہیں ہے۔ Aging is inevitable." یہاں وہاں سے مایوسی، احمد کا ذہن خلفشار کا شکار تھا۔ سائیکیٹرسٹ خود چل کر آیا۔ "یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں بڑھاپے سے ڈر کیوں رہا ہوں؟" احمد نے بتاتے ہوۓ کہا: "میں تو حیران ہوں کہ یہ بڑھاپے سے کیوں نہیں ڈرتے۔ عروج سے زوال اور پھر موت۔ خوبصورتی سے بدصورتی اور پھر موت کے بعد ہمیشہ کے لیے بدصورتی۔" سائیکیٹرسٹ نے گفتگو کے اختتام پر بس اتنا کہا۔ "آپ آئینہ دیکھنا چھوڑ دیں مسٹر احمد
کیمرے کے فلیشز میں اسے اب ویسی مسرت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اپنی ستائش میں بجائی گئی تالیوں کا شور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ محفلیں، رونقیں، روشنیاں سب پردے میں چلی گئیں۔ "تم کل کو بچانے کے لیے اپنے آج کو قربان کیسے کر سکتے ہو احمد۔" اس کی بہترین دوست بہت افسردہ تھی۔ وہ احمد کو بہت چاہتی تھی اور احمد اب بہت عرصے سے اس سے بےخبر تھا۔ "ہمیشہ خوبصورت رہنا۔۔۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ پر ملے ہوۓ وقت میں جو خوبصورت ہے، اس کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہونا چاہیے۔" احمد نے دھیان نہیں دیا۔ اس کا ذہن تب بھی بٹا ہوا تھا۔
"کس بکھیڑے میں پڑ ہو گۓ ہو احمد؟ عمر تو سب کی بڑھتی ہے۔" "میں چاہتا ہوں میری عمر نہ بڑھے۔ کم از کم اتنی جلدی نہ بڑھے۔" "تم اسے روک نہیں سکتے۔ تم بڑھاپے کو روک نہیں سکتے۔" "کیا کوئی طریقہ۔۔۔ کہ بڑھاپا مجھے چھو بھی نہ سکے۔" "تم وقت روک سکتے ہو کیا؟" دوست نے ازراہِ مذاق پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔ "پھر تم ہمیشہ جوان نہیں رہ سکتے۔" لیکن یہ خواہش زور پکڑتی گئی، اسے دن رات بےقرار کیے گئی۔
آئینے نے بہت دیر تک اسے دیکھا۔ اس کی گہری نیلی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ وہی تو اس کے حلیے میں زیادہ پرکشش سے تھی۔ پھر اس کا قد کاٹھ، جسم، بال، رنگ روپ۔۔۔ "تمہاری آنکھیں۔۔۔" آئینے میں کھڑا وجود کہہ رہا تھا: "یہ اپنی کشش کھو دیں گی۔ وہ سب لوگ جو بڑے رشک سے آج تمہیں دیکھتے ہیں کل منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ تمہارا جسم بڑھاپے کا شکار ہو جاۓ گا۔ کھال لٹک جاۓ گی، بال سفید ہو جائیں گے۔ چلنا دشوار ہوگا، دیکھنا بھی مشکل ہوگا۔" "مجھے جوان رہنا ہے۔" وہ بڑبڑاتا گیا۔ اس کو ان دیکھے مستقبل سے خوف آرہا تھا۔ دوست اس کی اس حالت پر حیران تھے۔
لوگ سوچ رہے تھے وہ کہے گا کہ وہ ڈرتا ہے۔۔۔ فلم فلاپ ہو جانے سے، کسی سکینڈل سے، حاسدوں سے، اپنے مخالفین سے، فینز کے حقارت آمیز تبصروں سے، یا وہ کہے گا کہ اسے زوال سے ڈر لگتاہے، موت سے ڈر لگتا ہے لیکن۔۔۔ اس کی نظروں کے سامنے تو اپنا کئی سالوں بعد والا روپ گھوم گیا تھا۔ "مجھے۔۔۔ بڑھاپے سے ڈر لگتا ہے۔"
وہ انڈسٹری کا مشہورِ زمانہ اداکار تھا۔ وہ اپنے فن کا فنکار تھا۔ اس کی کوئی فلم فلاپ نہیں ہو سکتی تھی، کوئی فلم فلاپ نہیں ہوئی تھی۔ اس نے جنم لیا تو وہ عروج پر کھڑا تھا اور ہمیشہ عروج پر ہی ٹکا رہا تھا۔ اس کی دنیا بہت رنگین تھی۔ کیمرے کے فلیش، روشنیوں کی چکا چوند، دلداروں کا مجمع، یہاں وہاں لڑکیاں، پذیرائی اور آزادی۔۔۔ "آپ کس چیز سے ڈرتے ہیں، مسٹر احمد" اینکر نے یونہی انٹرویو میں پوچھا۔ لیکن یہ سوال اسے بہت آگے لے گیا۔
دوسرا فیصلہ نہیں ہوتا عشق میں مشورہ نہیں ہوتا خود ہی سو راستے نکلتے ہیں جب کوئی راستہ نہیں ہوتا جب تلک روبرو نہ ہو کوئی آئنہ آئنہ نہیں ہوتا کچھ نہ کچھ پہلے کھونا پڑتا ہے مفت میں تجربہ نہیں ہوتا.