ہنگامۂ خودی سے تو بے نیاز ہو جا گم ہو کے بے خودی میں آگاہ راز ہو جا حد بھی تو چاہیئے کچھ بے اعتنائیوں کی غارت گر تحمل تسکیں نواز ہو جا اے سرمدی ترانے ہر شے میں سوز بھر دے یہ کس نے کہہ دیا ہے پابند ساز ہو جا
ہم نے تم کو پیار کیا ہے اور دیوانہ وار کیا ہے پروانے نے جل کر شاید اُلفت کا اظہار کیا ہے توڑ دیا ہے ساغر میرا یہ کیا تم نے یار کیا ہے کیوں ہم سے ناراض ہو اتنے کیا ہم نے سرکار کیا ہے کیوں کرتے ہو قطعِ تعلق کس نے یہ اصرار کیا ہے دل بھی حاضر جاں بھی حاضر کب ہم نے انکار کیا ہے آپ نے میرے دل میں بس کر جنگل کو گلزار کیا ہے