شہرِ آزاد کو کھلتی ہوئ کھڑکی کی تھکن آنکھوں کو بھگوتی ہوئ آوارہ ہوا دوش دیوار پہ بیزار گھڑی کی ٹک ٹک میرے انجام پہ روتا ہوا سانسوں کا ستار ٹوٹی الماری میں بکھرے ہوئے چاہت کے نقوش رقص کرتی تنہائ کے پیاسے سائے اور میں ہوں اکیلی بہت 🍂.ان سایوں کے درمیان (مشعل عبداللہ)