بغیر تیڈے میں کیکوں ڈیکھاں
توں نظردیں میں جیکوں ڈیکھاں
مزہ تاں ڈیکھنڑ دا تاں اے صابر
توں میکوں ڈیکھیں میں تیکوں ڈیکھاں
جانتے ہو انسایت کسے کہتے ہیں.
جو
آنکھ میں حیارکھتاہو.
جو نفس کا غلام نہ ہو.
کردار اور اخلاق کا بلند ہو.
مقاصد میں اعليٰ ظرفی ہو.
جس کے دل میں انسایت ہو.
اور جو خوف خدا رکھتا ہو.
Join me and survive together in Free Fire
https://ffshare.garena.com/?lang=en
https://chat.whatsapp.com/DKjQQF5aXP3Iox3F0dKrbS iss group ko sirf larke join kre larkia nhi
بســـایا ہـی نہیں کــــسی کو تیـــــرے ســــوا
لــے سکتے ہو تم مـــیری روح کی تلاشــیاں❤...
❤_
مُرشِد اُن کے واسطے تَماشہ تھا🔥
مرشِد اِدھر زِندگی تباہ ہو گٸ__💔
لمبی باتوں سے مجھے کوئی مطلب نہیں.....،،،✌️🔥
مجھے تو انکا جی کہنا بھی کمال لگتا ہے...،❣️
لوگ احساس کی روندی ہوئی گلیوں میں
پھینک دیتے ہیں تعلق کو پرانا کر کے 💔🔥
کوئی کاندھا ہو میسر تو ساتھ دے میرا
مجھے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی تدفین کرنی ہے
زندگی تب خوبصورت لگتی ہے 😊
جب کسی کے چہرے پہ مسکراہٹ ہو 😍
اور وجہ آپ ہوں ❤
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب؟
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو۔۔۔
درد زمانہ کیا جانے دل کی شدت کیا ہوتی ہیں
دل دے کر معلوم ہوا کہ محبت کیا ہوتی ہیں
یہ عادت ہے تری یا پھر مجھے تم آزماتے ہو
کیوں اپنی ذات کا عادی بنا کر بھول جاتے ہو..,
تُو بھی ھمیں بِن دیکھے گزر جائے گا اِک دن
کچھ سوچ کے ھم بھی تجھے آواز نہ دیں گے
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا
کیا آئے راحت آئی جو کنج مزار میں
وہ ولولہ وہ شوق وہ ارمان تو گیا
دیکھا ہے بتکدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے
اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے
شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام
اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے
یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے
کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے
تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک تیرے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے
تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے میرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
تیرے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے
میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اُجالے میں بیاں تو کر دوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے
تیری سانسوں کی تھکن تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
سوچتا ہوں کہ تجھے پا کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں
میں تیرے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہو
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک
لڑکیوں کے جلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہو گی
بات سے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے
اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤں پڑ جائیں
چوڑیاں بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"
وہ خود اگر کہیں مِلتا تو گفتگو کرتے
وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اُسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے
سوادِ دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے کہاں وضو کرتے
حجاب اُٹھا دِیے خُود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دِماغ کہاں تھا کہ آرزُو کرتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain