اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے
زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے
آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی
کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے
ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا
چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے
زندگی میں نے اسے کیسے پرویا تھا نہ سوچ
ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بکھر جانے دے
ان اندھیروں سے ہی سورج کبھی نکلے گا نظیرؔ
رات کے سائے ذرا اور نکھر جانے دے
کئی گھر ہو گئے برباد خود داری بچانے میں
زمینیں بک گئیں ساری زمیں داری بچانے میں
کہاں آسان ہے پہلی محبت کو بھلا دینا
بہت میں نے لہو تھوکا ہے گھر داری بچانے میں
کلی کا خون کر دیتے ہیں قبروں کو بچانے میں
مکانوں کو گرا دیتے ہیں پھلواری بچانے میں
کوئی مشکل نہیں ہے تاج اٹھانا اور پہن لینا
مگر جانیں چلی جاتی ہیں سرداری بچانے میں
بلاوا جب بڑے دربار سے آتا ہے اے رانا
تو پھر ناکام ہو جاتے ہیں درباری بچانے میں
منور رانا
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فرازؔ
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسَا کہتے ہیں؟
ہے پرے سرحدِ ادراک سے، اپنا مسجود
قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گیا کہتے ہیں
اِک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائیگا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھیے، لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
ان کی زلفوں میں جتنی شکن چاہیے
ہم کو اتنا ہی دیوانا پن چاہیے
چاہیے ان کو رنگیں قبا اور ہمیں
چاک کرنے کو اک پیرہن چاہیے
یہ بھی ہے ایک سامانِ دل بستگی
کچھ تماشائے دار و رسن چاہیے
میرے جیسے مسافر بہت آئیں گے
ان کے جیسا حسیں راہزن چاہیے
قتل کرنے ہی کا اک سلیقہ سہی
کچھ تو مشہور ہونے کو فن چاہیے
آج کل سب کا بدلا ہوا بھیس ہے
شیخ ڈھونڈو اگر برہمن چاہیے
دل کا ایک ایک قطرہ لہو دے دیا
اور کیا، اے بہارِ چمن، چاہیے
ہم تو جلتے ہیں، تم بھی جلو دوستو
شمع کے واسطے انجمن چاہیے
اپنے ٹھنڈے دلوں کے لیے مانگ کر
ہم سے لے جاؤ جتنی جلن چاہیے
کج کلاہی فقط کام آتی نہیں
کچھ طبیعت میں بھی بانکپن چاہیے
درد کے پھول بھی کھِلتے ہیں بِکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بَھر جاتے ہیں
راستہ روکے کھڑی ہے یہی اُلجھن کب سے
کوئی پُوچھے تو کَہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں میرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بِکھر جاتے ہیں
نرم الفاظ بھلی باتیں مہذّب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھُکائے ہوئے چُپ چاپ گزر جاتے ہیں
جاوید اختر
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہا تھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو
کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو
اس کائناتِ خواہش و امکاں سے اس طرف
منظر ہے ایک اور وہ منظر خراب ہے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا میرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
بیدار بھی ہو نیند سے چارہ گرِ جہاں
حالت ترے مریض کی یکسر خراب ہے
ایسی جگہ اسیرِ نفس کو رکھا گیا
دیوار سے زیادہ جہاں در خراب ہے
اس کے لیے ہی آئے گی آئی اگر بہار
وہ پھول جو کہ باغ سے باہر خراب ہے
نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز
بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے
دنیائے پُر کشش بھی ہے ہر سُو کھڑی ہوئی
نیت بھی آدمی کی سراسر خراب ہے
تاریخ سے مُحال ہے لانا مثال کا
یہ عہد اپنی روح کے اندر خراب ہے
یہ بات بھی چھپی نہ رہے گی بہت کہ میں
اتنا نہیں ہوں ، جتنا مقّدر خراب ہے
جمال احسانی
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و کل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی افسانے تری آنکھیں
ساغرصدیقی
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے
آواز د کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
تاکوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایہ دیوار آ گئے
فراز
تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے
جگر میں پھول کھلیں آنکھ شبنمی ہو جائے
اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی
وہ زندگی جسے احساس زندگی ہو جائے
یہی ہے دل کی ہلاکت یہی ہے عشق کی موت
نگاہ دوست پہ اظہار بیکسی ہو جائے
زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے
خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے
سیاہ خانۂ دل میں ہے ظلمتوں کا ہجوم
چراغ شوق جلاؤ کہ روشنی ہو جائے
طلوع صبح پہ ہوتی ہے اور بھی نمناک
وہ آنکھ جس کی ستاروں سے دوستی ہو جائے
اجل کی گود میں قابلؔ ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں جو مری موت زندگی ہو جائے
قابل اجمیری
ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے
کیا تصور بھی لٹنے والا ہے
غم تو ہے عین زندگی لیکن
غم گساروں نے مار ڈالا ہے
عشق مجبور و نا مراد سہی
پھر بھی ظالم کا بول بالا ہے
دیکھ کر برق کی پریشانی
آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے
کتنے اشکوں کو کتنی آہوں کو
اک تبسم میں اس نے ڈھالا ہے
تیری باتوں کو میں نے اے واعظ
احتراماً ہنسی میں ٹالا ہے
موت آئے تو دن پھریں شاید
زندگی نے تو مار ڈالا ہے
شعر نغمہ شگفتگی مستی
غم کا جو روپ ہے نرالا ہے
لغزشیں مسکرائی ہیں کیا کیا
ہوش نے جب مجھے سنبھالا ہے
شہرت کی بھوک تم کو کہاں لے کے آ گئی
تم محترم ہوئے بھی تو کردار بیچ کر وفا نور
سنا ہے کسی " اور " کو جان سے " پیارا " کر لیا اس نے 😢
" ہمارے " بعد بھی آخر گزاره کر لیا" اس " نے 💔
نا کر تنگ سونے دے مجھے۔۔۔۔۔❣
*اے عشق*
تیری قسم میں تجھ سے ہار گیا ہوں۔۔۔۔۔❣
نا کر تنگ سونے دے مجھے۔۔۔۔۔❣
*اے عشق*
تیری قسم میں تجھ سے ہار گیا ہوں۔۔۔۔۔❣
یوں ہی #_بھلا دیا #__حد کرتے ہو
#صاحب
ھم #_انسان ہیں تمھاری #__کتابوں کا سبق تو نہیں_ 😔💔
#___ ❤😘
❤اے عشق ! جنت نصیب نہ ھوگی تجھے❤
.
❤ بڑے مصوم لوگوں کو تونے برباد کیا ھے...
- " ﮐﮭﻮﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ھے ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺗُﻢ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ __ 🔥"💔
انشاء اللّه💕
یعنی کیا کچھ بھُلا دیا ہم نے
اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں
جون ایلیاء 💔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain