مجھے آنسوؤں کی طلب نہیں مجھے زندگی کی تلاش ھے جسے ڈھونڈ کر بھی نہ پا سکا مجھے پھر اسی کی تلاش ہے مجھے دشمنوں میں نہ ڈھونڈنا مجھے دوستوں میں تلاشنا میں محبّتوں کا سفیر ہوں مجھے دوستی کی تلاش ہے میری راہ عزم تلاش میں کوئ زندگی کا رفیق ہو کو ئ آنسو ؤ ں کا چراغ دے مجھے رو شنی کی تلاش ہے میں بلند یو ں کا ضمیر ہوں میں رفا قتو ں کا پذیر ہوں مجھے نفرتوں کی زمین پر محبّتو ں کی تلاش ہے
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے مرے طائر نفس کو نہیں باغباں سے رنجش ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے جو نقاب رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچےزب شکیل بدایونی