تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
پھول کھلتے ہی کھل گئیں آنکھیں
کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا
تو نہ رسوا ہو اس لیے ہم نے
اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا
جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا
تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا
کوئی دیکھے یہ سادگی اپنی
پھول یادوں کا اک سجا رکھا
سعدؔ الجھا رہا مگر اس نے
تجھ سے ملنے کا راستہ رکھا
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذن کے لیے
ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں
میں ہوں پتھر کی طرح بہتے ہوئے پانی میں
یہ محبت تو بہت بعد کا قصہ ہے میاں
میں نے اس ہاتھ کو پکڑا تھا پریشانی میں
رفتگاں تم نے عبث ڈھونگ رچایا ورنہ
عشق کو دخل نہیں موت کی ارزانی میں
یہ محبت بھی ولایت کی طرح رکھتی ہے
حالت حال میں یہ حالت حیرانی میں
اس لیے جل کے کبھی راکھ نہیں ہوتا دل
یہ کبھی آگ میں ہوتا ہے کبھی پانی میں
اک محبت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
کچھ بڑے فیصلے ہو جاتے ہیں نادانی میں
تمام عمر کبھی مجھ سے حل ہوا ہی نہ تھا
وہ مسئلہ جو حقیقت میں مسئلہ ہی نہ تھا
بدن سے جس کی تھکن آج تک نہیں اتری
میں اس سفر پہ روانہ کبھی ہوا ہی نہ تھا
کچھ اس لیے بھی مجھے ہجر میں سہولت ہے
ترا وصال کبھی میرا مدعا ہی نہ تھا
بدن کا بھید کھلا ہے ترا بدن چھو کر
یہ مصرع مجھ پہ وگرنہ کبھی کھلا ہی نہ تھا
اسی لیے تو مجھے لوٹنا پڑا سیدؔ
کہ میرے پاس کوئی اور راستہ ہی نہ تھا
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق
آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
ہم محبت کی انتہا کر دیں
ہاں مگر ابتدا کرے کوئی
نا جانے کونسی سازش میں یہ دن گزارا کیا
میں دُشمنوں سے بچ کے نکلا دوستوں میں مارا گیا
میت والے گھر میں مرنے والے کی تعریف
اور زندوں کی برائیاں ہورہی ہوتی ہیں...!!
کتنی آوازوں کے مابین تھا میں ، پر میں نے ،
اس کی آواز سنی ، جس نے پکارا بھی نہیں ۔
دانش اعجاز
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آئی اب تک
کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا
داغ دہلوی
کون معشوق، کیا عشق، یہ سودا کیا ہے؟
میں تو اس سوچ میں گم ہوں کہ دنیا کیا ہے؟؟؟ 🖤🔥
کان تیری صداؤں کو ترس گئے!
یہ آنکھیں,
تیری دید کے فاقوں سے مر گئیں❤
غزل
محسن نقوی
جَلا کے تُو بھی اگر آسرا نہ دے مُجھ کو
یہ خوف ہے کہ ہَوا پھر بُجھا نہ دے مُجھ کو
میں اِس خیال سے مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہُوں اُسے
بِچھڑ کے بھی وہ کہیں پھر صَدا نہ دے مُجھ کو
فضائے دشت، اگر اب میں گھر کو یاد کروں
وہ خاک اُڑے کہ ہَوا راستا نہ دے مُجھ کو
اِسی خیال سے شَب بھر میں سو نہیں سکتا
کہ خوفِ خوابِ گُزشتہ جگا نہ دے مُجھ کو
تِرے بغیر بھی تیری طرح میں زِندہ رہُوں؟
یہ حوصلہ بھی، دُعا کر، خُدا نہ دے مُجھ کو
اُبھر رہی ہے مِرے دِل میں پَستیوں کی کَشش
وہ چاند پھر سے زمیں پر گِرا نہ دے مُجھ کو
میں اِس لیے بھی اُسے خُود مَناؤں گا محسنؔ
کہ مُجھ سے رُوٹھنے والا، بُھلا نہ دے مُجھ کو
غزل
راحت اندوری
مُحبتّوں کے سفر پر نِکل کے دیکھوں گا
یہ پُل صراط اگر ہے تو چَل کے دیکھوں گا
سوال یہ ہے کہ رفتار کِس کی کِتنی ہے
میں آفتاب سے آگے نِکل کے دیکھوں گا
مَذاق اچھا رہے گا یہ چاند تاروں سے
میں آج شام سے پہلے ہی ڈَھل کے دیکھوں گا
وہ میرے حُکم کو فریاد جان لیتا ہے
اگر یہ سچ ہے تو لہجہ بدل کے دیکھوں گا
اُجالے بانٹنے والوں پہ کیا گُزرتی ہے
کِسی چراغ کی مانند جَل کے دیکھوں گا
عجب نہیں کہ وہی روشنی مُجھے مِل جائے
میں اپنے گھر سے کِسی دِن نِکل کے دیکھوں گا
اس کو عادت نہ تم بنا لینا
وہ تمہیں چھوڑ بھی تو سکتا ہے
ایک نشہ ہے یہ محبت بھی
جو بدن توڑ بھی تو سکتا ہے
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق
آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
ہونٹ اچھے ہیں آپ کے اور میں
ایسے ہونٹوں سے ہی متاثر ہوں..
دیکھیئے کیفیت سمجھ لیجیے
میں تو اب بولنے سے قاصر ہوں. ♥️🔥
بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ
جب ہم بڑے فلسفیانہ انداز میں پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ
“ قیامت کب آۓ گی “
حلانکہ
وہ ہمارے ساتھ بیٹھے شخص پر بیت رہی ہوتی ہے.
" مُجھے لوگوں نے اپنے رویوں سے سمجھایا کہ ؛ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ، چاہتوں میں شِدّت عمر بھر نہیں رہتی ، کِسی کے لِیے ہم عمر بھر تجسس کا پہلو بن کر نہیں رہتے ، کوئی ہر وقت ہمارے لِیے مُنتظر نہیں رہتا ، کِسی کے دِل میں ساری عمر ہمارا وہی مقام نہیں رہتا ، ہم تمام عمر اہم نہیں رہتے ، وقت بدل جاتا ہے ، لوگ بدل جاتے ہیں ، ہاں! لوگوں نے مُجھے سمجھایا کہ ؛ لوگ واقعی بدل جاتے ہیں! ۔ "
نہیں تھا اپنا مِزاج ایسا ۔۔
کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
وگرنہ ایسے جواب دیتے ۔۔ کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ہماری فطرت کو جانتا ہے ۔۔ تبھی تو دشمن یہ کہہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا ۔۔ جو دوست ہوتے کمال ہوتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain