میرے اجنبی میرے آشنا __! کبھی کاش تجھ سے میں کہہ سکوں کہ یہ ساعتیں ہیں کٹھن بہت میرے زخمِ جاں کے طبیب آ میرے تن بدن سے بھی ربط رکھ میری روح کے بھی قریب آ میرے اجنبی میرے آشنا ___!!
ہم نے ایسے بھی پل بتائے ہیں بھیگی پلکوں سے مسکرائے ہیں نیند پلکوں سے آپ نوچیں ہے خواب آنکھوں سے خود مٹائے ہیں تیرے احوال جاننے کے لیے ایرے غیروں کے ناز اٹھائے ہیں جو بھی تکتا ہے ہاتھ ملتا ہے رخ پہ غم اس طرح سجائے ہیں تیرگی کا گلا مٹانے کو ہم نے داغ جگر جلائے ہیں عقل نے جو بھی مرتبے بخشے عشق کی راہ میں گنوائے ہیں غمزدوں سے نا حال دل پوچھو کتنی مشکل سے مسکرائے ہیں جعفری