رشتوں میں انسان کو چُنو، انا کو نہیں، رشتے تب جیتتے ہیں جب دونوں جھکنا جانتے ہوں!
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے میری نیند اڑا رکھی ہے
کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو میرے لہجے میں چھپا رکھی ہے
خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے
بے نام سا یہ دَرد،،، ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے ، وُہ گُزر کیوں نہیں جاتا
سب کُچھ تو ہے ، کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نِگاہیں
کیا بات ہے ، مَیں وقت پر گھر کیوں نہیں جاتا
وُہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دُور ہے ، وُہ دِل سے اُتر کیوں نہیں جاتا
مَیں اپنی ہی اُلجھی ہُوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جِدھر سب ، مَیں اُدھر کیوں نہیں جاتا
وُہ خُواب جو برسوں سے نہ چہرہ ، نہ بدن ہے
وُہ خُواب ،،، ہَواؤں میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
> "تم نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ تمھارا دماغ مائیکروویو میں رکھا ہو؟
بس یہی احساس ہوتا ہے ان سے بات کر کے!
بارش بھی برسی، رات بھی جاگی،
اور میں بھی خاموش… خود میں ڈوبا ہوا۔
چائے کی خوشبو، کمرے کی روشنی مدھم،
دل میں کوئی یاد، کوئی دعا، کوئی بےنام سکون۔
جب مجھے صبر آیا تو معلوم ہوا وہ شخص اتنا بھی اہم نہیں تھا جتنا میں نے سمجھ رکھا تھا
کاسے میں محبت مجھے درکار نہیں ہے۔
دل بھیک میں کچھ لینے کو تیار نہیں ہے۔
کچھ وہ بھی پشیمان نہیں اپنے کیـے پر
کچھ دل بھی رعایت کا طلبگار نہیں ہے۔
تجھ کو معلوم نہیں ہے کسی کی ذات کا عکس
شیشہ دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
اتنا نادان نہ بن تجھ کو بھی معلوم ہے
کہ پانی جب سر سے گزر جائے تو کیا ہوتا ہے
مستانہ طبیعت کی ادا سمجھیے صاحب
درویش کی چپ کو بھی صدا سمجھیے صاحب
کیا جانیے کیا اس کا تعلق ہو خدا سے
دِکھنے میں برے کو بھی بھلا سمجھیے صاحب
ستارے گر بتا دیتے سفر کتنا کٹھن ہوگا،
پیالے مے کے پیتے تلخ ایام سے پہلے ،
یہ جو ہم لکھتے رہتے ہیں، ہماری آپ بیتی ہے،
کہ دکھ تحریر کب ہوتے کسی الہام سے پہلے
خواہشوں کے قافلے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں،،،، اکثر وہیں سے گزرتے ہیں جہاں راستے نہیں ہوتے۔
پارسائی کآ مرض ان کو نہیں لگ سکتا
نیک دل لوگ گنہگآر ہوا کرتــــــــے ہیں!
نہ میں بادشاہ، نہ کوئی ولی ہوں،
بس مٹی کا ذرّہ، وہی میں ابھی ہوں۔
نہ دنیا کی چمک، نہ نفس کا غرور،
میں فقیرِ محبت، سراپا قصور۔
میرا جھکنا، میری سب سے بڑی جیت ہے،
رب کے آگے جھکا ہوں، یہ میری فطرت کی ریت ہے۔
جو سر اٹھا کے چلا، وہ گم ہو گیا،
جو خاک میں جا گرا، وہ کم ہو گیا؟
نہیں! وہ مکمل ہو گیا۔
نفس کی خواہشوں کو جب، فنا کر کے جیا جائے
کسی اور کی خاطر خود کو، خامشی سے کھو دیا جائے
جہاں دل کی زبان پر ہو، فقط دوسرے کا درد
وہی لمحہ عبادت ہے، وہی ایثار کا پردہ
نہ نام ہو نہ صلہ مانگا، نہ شہرت کی تمنا ہو
بس اک شوقِ محبت ہو، جو ہر حد سے سچا ہو
جلے خود، روشنی دے وہ، چراغوں کی روایت ہو
کسی کے درد پر مرہم، کسی کے غم میں نایابت ہو
یہی ہے اصل انسانیت، یہی ہے روح کا سفر
کہ اپنا حق بھی چھوڑے، اگر چمک جائے کسی کا گھر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain